اس بار مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین اجلاس ہوا اور سابق صدر ایوب خان کے رات کو دو بجے اعلان کے سوا پاکستان کی تاریخ میں اتنی تاخیر سے کوئی اعلان نہیں ہوا۔ طویل اجلاس کے دوران میڈیا کو خبریں لیک کی جاتی رہیں کہ قابلِ قبول شہادتیں موصول نہیں ہوئیں، پھر اچانک کسی غیبی تحریک کے نتیجے میں گیارہ بجے شب صورتِ حال کی تبدیلی کے اشارات ملنے لگے، پھر جو کچھ ہوا پوری قوم نے دیکھ لیا۔ موجودہ رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کے وقت کہا گیا: ''اس میں سپارکو، محکمۂ موسمیات اور وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے نمائندے بھی شامل ہیں‘‘۔ نئے چیئرمین پہلے اُس وقت کے وزیرِ سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری سے ملے، انہوں نے نہایت سنجیدگی سے اُن کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا، چیئرمین نے اعلان کیا: ''ہم سائنس کو بھی ساتھ لے کر چلیں گے‘‘۔ اُس کے بعد وہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے ملے اور کہا: ''ہم آپ کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے اور ساری شہادتیں لیں گے‘‘۔ یہیں سے پالیسی کا تضاد واضح ہو گیا۔
وزیر مذہبی امور چونکہ خیبر ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں وہ روایتی طور پر پوپلزئی صاحب کے اعلان کے پابند ہوتے ہیں۔ تین سال تک مجھ سے اسی خواہش کا اظہار کیا جاتا رہا۔ بعض اداروں کوبھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا مگر میں نے ہر بار دو ٹوک انداز میں کہا: ''میں کروڑوں مسلمانوں کے روزوں کو برباد کرنے کا وبال اپنے سر نہیں لوں گا۔ یہ مسئلہ قیامِ پاکستان کے وقت سے چلا آ رہا ہے ، لوگوں نے اسے ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے، اس لیے خدارا آپ باقی پاکستان کو انتشار کا شکار نہ بنائیں‘‘۔
اگر ہم نے سائنس کی قطعی معلومات سے استفادہ نہیں کرنا، قرائنِ قطعیہ کے خلاف فیصلے صادر کرنے ہیں تو پھر سوال یہ ہے: ''مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان میں سپارکو، محکمۂ موسمیات اور وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی کے نمائندوں کو بٹھانے کا جواز کیا ہے؟ کوئی بتائے کہ اس سارے نظام کی حکمت کیا ہے؟‘‘۔
بعض لوگ بجا طور پر سوال کرتے ہیں: '' اگر ہم نے سائنس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے تو شہادتوں کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے اور اس کا اہتمام کیوں کیا جائے؟‘‘۔ اس کا جواب یہ ہے: ''سائنس کی قطعی معلومات کو شہادتوں کے تزکیے اور تعدیل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ شہاداتِ کاذبہ اور مشتبہ شہادات کے سلسلے کا سدِّباب کیا جائے‘‘۔ نئی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے بعد سائنس سے استفادہ کرنے کے حوالے سے ایک اینکر صاحب نے ٹی وی چینل پر بلند آہنگ کے ساتھ پروگرام کیا اورکہا: ''اب ہم جدید دور میں پہنچ گئے ہیں‘‘۔ اب درپیش صورتحال پر اُن کا ٹویٹ تبصرہ ملاحظہ کیجیے: ''مرکزی رویت ہلال کمیٹی قوم سے معافی مانگے، عدم انتظام، ناقص تیاری وجہ، عیدالفطر کا عظیم تہوار رات گئے افراتفری کا سامان بنا، دنیا کا کوئی اسلامی ملک عید رمضان شہریوں کیلئے قومی سسپنس کو جنم نہیں دیتا، کسی ملک میں ریاست رویت ہلال کمیٹی کے رحم و کرم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہتی‘‘۔ انھوں نے اپنے پروگرام میں یہ تاثر دیا تھا کہ گویا یہ پاکستان میں پہلی بار ہورہا ہے، حالانکہ میں گزشتہ بیس سال سے رویت ہلال کا اعلان کرتے وقت موسمیات، سپارکو اور پاکستان نیوی کے ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین کا حوالہ بھی دیتا رہا ہوں۔
ملائشیا اورترکی وغیرہ کے مستقل قمری کیلنڈر ہیں، اُن کی بنیاد امکانِ رویت (Visibilty) پر نہیں ہے، لہٰذا وہاں رویت کی شہادتوں کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب والے اگرچہ رویت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اُن کے اکثر اعلانات امکانِ رویت کے خلاف ہوتے ہیں لہٰذا اُن کا حوالہ دینا غیر متعلق بات ہے۔ ماضی میں رویت ہلال کے بارے میں سعودی عرب میں ہونے والے ایک سیمینار کی کارروائی مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے مجلہ ''البلاغ‘‘ میں شائع کر چکے ہیں۔
ہم مسلمانوں کے اُس خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں تاحال رمضانِ مبارک کے آغاز اور عیدالفطر کا مدار رویت پر ہے اور رویت کے ثبوت کے لیے ثقہ شہادت درکار ہوتی ہے لیکن شہادت کو مطلقاً حجت نہیں مانا جا سکتا تاوقتیکہ رویت کا امکان ہو، جب سائنس اور فلکیات کے اعتبار سے امکانِ رویت بالکل واضح ہو تو شہادت کو قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا اور پھر ان مواقع پر چاند پورے ملک میں نظر آتا ہے۔ رویت ایک خاص خطے تک محدود نہیں ہوتی۔ اب رہا یہ سوال کہ رویت میں شہادت کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ بعض مواقع پر ماہرین کے نزدیک رویت کا امکان ففٹی ففٹی ہوتا ہے، اگر چند لمحوں کے لیے کسی کی نظر اس خاص زاویے پر مرکوز ہو اور چاند نظر آ جائے تو ایسا ممکن ہے، لہٰذا ایسے مواقع پر شہادت کی بہت اہمیت ہوتی ہے لیکن جب تمام مسلّمہ سائنسی معیارات کے مطابق امکانِ رویت بالکل نہ ہو تو آنکھیں بند کر کے شہادتوں کو قبول کرنا عقل ودانش کے خلاف ہے۔ اسلام کی تعلیمات کسی کے لیے ماورائے عقل تو ہو سکتی ہیں، خلافِ عقل ہرگز نہیں۔ اگر شہادت علی الاطلاق حجت ہو تو 28 رمضان کی شام کو میران شاہ کی رویت کی شہادتوں کو حجت مان کر بدھ کی عید کا اعلان کیوں نہ کیا گیا؟ ایسا پہلے بھی ایک بار ہو چکا ہے۔
اس سال جو کچھ شوال کے چاند کے حوالے سے ہوا، بعینہٖ وہی صورتِ حال رمضانِ مبارک کے چاند کی تھی لیکن اللہ کی تقدیر سے 29 رجب کو واضح امکانِ رویت کے باوجود آسمان ابر آلود اور غبار آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آیا اور رجب 30 دن کا قرار پایا، یہ حدیث کی رُو سے بالکل درست ہے: ''آپ ﷺ نے فرمایا: قمری مہینہ (کم از کم) انتیس دن کا ہوتا ہے، پس تم چاند دیکھے بغیر نہ رمضان کا آغازکرو اورنہ چاند دیکھے بغیر رمضان کا اختتام کرو، پس اگر کبھی ابر چھا جائیں تو مہینہ تیس دن کا پورا کر لو‘‘ (ابودائود: 2320)۔ پس اگرتقدیرِ الٰہی سے 29 رجب کو امکانِ رویت کے باوجود چاند کا نظر نہ آنا رویت ہلال کمیٹی کی مدد کا ذریعہ نہ بنتا تو رمضان کے آغاز ہی میں یہی صورتِ حال رونما ہونی تھی۔ لیکن شوال کے چاند کے موقع پر قدرت کی یہ غیبی مدد نہ آئی اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی اہلیت آشکار ہو گئی۔ دنیا کے کسی نظامِ قضا میں مطلق شہادت حجت نہیں ہے تاوقتیکہ جرح وتعدیل کے مراحل سے گزر کر اس کا تزکیہ ہو جائے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ عہدِ رسالت مآبﷺ میں تو اس طرح تزکیہ نہیں ہوتا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ تھے، پاکیزہ فطرت تھے، اُن کے دل میں خشیتِ الٰہی تھی، اس لیے اُن سے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ وہ مسلمانوں کے روزے کی بربادی کا سبب بنیں گے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں تو دہشت گردی اور خود کش حملے بھی دین کے نام پر کیے جاتے ہیں اور وہ اپنے علاوہ دوسروں کو صحیح مسلمان نہیں سمجھتے‘ لہٰذا دین کے معاملے میں احتیاط لازم ہے۔ عربی کا مقولہ ہے:''آزمائش کے وقت انسان عزت وکرامت کا حق دار بنتا ہے یا عزت کھوبیٹھتا ہے‘‘۔ دین اوردین کی اقدار وتعلیمات وقت کی مصلحتوں کے ساتھ نہیں بدلتیں، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہمیں دین کے ساتھ کھڑے رہنا چاہیے، دینی فرائض کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، جرمانوں اور جیل کی دھمکی پر دین کا سودا نہیں کیا جاتا۔ علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہا: ''میں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے تین اراکین سے رابطہ کیا، انھوں نے کہا: ''ہم نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے‘‘۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کو خوفِ آخرت لاحق ہوا تو انہوں نے ایک روزے کی قضا کا کہا، اس سے یہ واضح ہوا کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی نہ کوئی جبر کارفرما تھا۔
جو کچھ 29 رمضان المبارک کی شام کو ہوا اس کے ہوتے ہوئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا جواز ختم ہو جاتا ہے کہ سعودی عرب اعلان کرے، اس کے بعد مفتی شہاب الدین پوپلزئی اپنی شہادتوں کی بنیاد پر اعلان کریں، کمیٹی تب تک سانسیں روک کر ان کا انتظار کرے اور جیسے ہی وہ اعلان کریں، اس پر انگوٹھا لگا دے، تو اس زحمت کی کیا ضرورت ہے؛ چنانچہ پنجاب اور سندھ میں کئی مقامات پر جمعرات کو روزہ رکھا گیا ہے اور نمازِ عید الفطر جمعہ کو پڑھی گئی۔ نئی کمیٹی کی تشکیل پر ہمارے احباب نے اضطراب کا اظہار کیا تو میں نے ان سے کہا: انتظار کریں، اگراُن کا فیصلہ صحیح ہوا تو ہم احترام کریں گے، تعاون کریں گے اور بلاوجہ ملک کو انتشار کا شکار نہیں بنائیں گے لیکن اگر فیصلہ بداہتِ عقل اور قرائنِ قطعیہ کے خلاف ہو تو پھر ہمیں سوچنا پڑے گا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وقت ٹل گیا ہے، علماء اور عوام میں اضطراب موجود ہے، بعض نے اس کا اظہار بھی کیا ہے، یہ کوئی مسلکی اختلاف کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ عبادتِ صیام کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اس مسئلے کوسنجیدگی کے ساتھ لیا جائے اور اس کے اصول طے کیے جائیں۔ ہمارا ملک پہلے ہی سیاسی انتشار کا شکار ہے، گرد وپیش کے حالات خطرے کا الارم دے رہے ہیں ایسے میں ہم مذہبی انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اخبارات سے معلوم ہوا: ''وزارتِ مذہبی امور نے جمعرات کے چاند کی تصویر جاری کی ہے‘‘، یہ سراسر لاعلمی ہے۔ اس کے بارے میں ہم حدیث اور سائنس کی روشنی میں بارہا لکھ چکے ہیں کہ تیس کا چاند انتیس کے چاند کے مقابلے میں نسبتاً بڑا ہوتا ہے اور اُفق پر اس کا دورانیہ بھی زیادہ ہوتا ہے، کیا وزارت میں کوئی ایک بھی صاحبِ علم نہیں ہے۔ اپنے بیس سالہ تجربے کی روشنی میں ہم نے ''رویت ہلال‘‘ کے عنوان پر کتاب لکھی ہے اور اس میں اس طرح کے اٹھائے جانے والے تمام سوالات کے جوابات مذہب اور سائنس کی روشنی میں دیے ہیں، ہندوستان کے معیاری وقت کا ہم سے آدھا گھنٹہ اور بنگلہ دیش کا ہم سے ایک گھنٹے کا فرق ہے، ان ممالک میں بھی عید جمعہ کو ہوئی۔