قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے بشری کمزوری کے تحت زنا کا ارتکاب کیا ‘پھراُس کواللہ کا خوف لاحق ہوا اور اس نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حضور حدِّزنا جاری کرنے کے لیے پیش کیا‘ اس پر حد جاری ہوئی ‘ پھر نبی ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی تو حضرت عمر ؓنے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! آپ اس کا جنازہ پڑھ رہے ہیں ‘ اس نے تو زنا کا ارتکاب کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ''اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینے کے ستّر(گناہگار) افراد میں تقسیم کردیا جائے ‘ تو اُن سب (کی نَجات) کے لیے کافی ہوگی‘کیا تم نے اس سے کوئی بہترین توبہ پائی ہے کہ اس خاتون نے(گناہ کی آلودگی سے طہارت کے لیے) اپنی جان اللہ کے حضور پیش کردی‘ (مسلم:1696)۔
اسی طرح ماعز بن مالک بھی اسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے ‘پھر نادم ہوکر اعترافِ گناہ کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حضور اللہ کی حد کو جاری کرنے کیلئے پیش کیااور ان پر حد جاری کردی گئی ‘دو تین دن کے بعد نبی ﷺ صحابہ کی مجلس میں آئے اور فرمایا: '' ماعز بن مالک کیلئے اللہ سے استغفار کرو‘پس تمام صحابہ نے اُن کیلئے استغفار کیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کردی جائے تو اُن سب کیلئے کافی ہوجائے‘ (سنن دارَقطنی:3129)‘‘۔ان دونوں کی توبہ محض رسمی توبہ نہیں تھی اور توبہ کا صرف زبانی اظہار نہیں تھا‘ جسے آج کل Lip Service کہتے ہیں‘ بلکہ یہ حقیقی ‘کامل اور مکمل توبہ تھی ‘ یہ توبہ کا درجۂ احسان ‘ اتمام اور اکمال تھا‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اُن کی توبہ کی عظمتِ شان کو بیان فرمایا۔ الغرض قلب اور اعضاء کے اعمال کا بلند ترین درجہ احسان واخلاص ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میرے اصحاب کو برا نہ کہو‘ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونابھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے ‘ تو وہ اُن کے ایک کلو یا نصف کلو (کھجور یا گندم یا جَو) کے اجر کے برابر نہیں ہوسکتا‘ (صحیح مسلم:2541)‘‘۔
بنیاد ی طور پر احسان کی دو قسمیں ہیں: ''اپنے خالق کے ساتھ احسان کرنا‘‘خالق کے ساتھ احسان یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو اس کے احکامات کی بجاآوری کے ذریعے حسین بنا ئے اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو حسنِ تعلق اور حسنِ عمل پر استوار کرے۔
اس حدیث میں نبی کریمﷺنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسان کے اعلیٰ وادنیٰ دومراتب بیان فرمائے ہیں:(1)اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اوراس کی اطاعت وفرمانبرداری میں بندے کے انہماک اورحضوریِ قلب کی کیفیت یہ ہو کہ گویا وہ اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ احسان کی اس کیفیت کو مشاہدہ کہاجاتا ہے‘(2) اگر اللہ کی بندگی میں یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو کم از کم بندے کو یقین ِ کامل ہوناچاہیے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے ‘ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو کمالِ حضوری اور ارتکازِ توجہ کے ساتھ انجام دے گا ‘ اس کے ظاہری ارکان و آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا‘احسان کی اس کیفیت کو مراقبہ کہا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جب کسی ادارے کا سربراہ ادارے میں موجود ہوتا ہے اور ملازمین کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلسل ہماری نگرانی کررہا ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے تو وہ اپنے سربراہ کی ناراضی سے بچنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خوب تندہی اور محنت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔
احسان کی حقیقت میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ رب سے راضی ہو اور رب کی رضا کا طلب گار ہو‘جیساکہ قرآنِ کریم میں تین مقامات پربیان ہوا: ''اللہ اُن سے راضی ہوااو ر وہ اللہ سے راضی ہوئے اور یہ (درجۂ کمال) اُس کیلئے ہے ‘ جس کے دل میں خَشیتِ الٰہی ہے‘ (البیّنہ:8)‘‘۔ پس مقامِ احسان میں رضائے الٰہی کی حقیقت بھی شامل ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جانوں کو (اُس کے ہاتھ) بیچ دیا ہے اور اللہ بندوں پر نہایت مہربان ہے‘ (البقرہ:207)‘‘ (2)''پھر ہم نے اُن لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایا ‘جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیاتھا ‘ پس اُن میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو ہیں اور بعض اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں‘ یہی بڑا فضل ہے‘ (فاطر:32)‘‘۔
(2)''مخلوق کے ساتھ احسان کرنا‘‘۔اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا مطلب اُن کے ساتھ نیکی وبھلائی ‘حسنِ سلوک اور شفقت وہمدردی کرنا ہے‘قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عدل واحسان کا ذکر ایک ساتھ کرتے ہوئے فرمایا: ''بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘ (النحل:90)‘‘۔احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے‘ کیونکہ عدل یہ ہے کہ دوسرے کو اس کا حق بے کم وکاست پورا پورا دے اوراس سے اپنا حق کسی کمی بیشی کے بغیر پورا پورا لے اور احسان یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دے اورخودرضاکارانہ طور پر اپنے حق سے کم لے یا خوش دلی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجائے۔ اسی طرح عدل یہ ہے کہ کسی نے اس کو جتنی ایذا پہنچائی تھی وہ اس کو اتنی ہی ایذا پہنچائے اور احسان یہ ہے کہ وہ اس کی زیادتی کو معاف کردے اور اس کے ساتھ نیکی کرے‘اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ''برائی کا بدلہ اتنی ہی برائی ہے پھر جس نے معاف کردیا اور نیکی کی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم)پر ہے‘ (الشوریٰ:40)‘‘۔نیز فرمایا: ''اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں‘ برائی کا بدلہ نیکی سے دیجیے‘ پس (اس کا نتیجہ یہ نکلے گا) وہ شخص کہ اس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے‘ تمہارا سرگرم دوست بن جائے گا‘(حم السجدہ:34)‘‘‘ اس کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں:
''یعنی جب تم اُس کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو گے‘اس کے برے اعمال کا ردِّعمل اچھے اعمال سے دو گے تو وہ اپنے برے اعمال کو چھوڑ دے گا اور اُس کے دل میں تمہارے لیے عداوت کے بجائے محبت اور بغض کے بجائے مودَّت پیدا ہوگی‘‘۔
حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں: ''میری رسول اللہﷺ سے ملاقات ہوئی‘ میں نے آپ سے ہاتھ ملانے میں پہل کی‘ پھر میں نے عرض کی:یار سول اللہﷺ!مجھے سب سے افضل عمل بتایئے‘ آپ نے فرمایا:اے عقبہ !جو تم سے قطع تعلق کرے‘ اس سے تعلق جوڑو‘ جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کرواور جو تم پر ظلم کرے ‘اس سے درگزر کرو‘ (ایک روایت میں ہے : اس کو معاف کرو)‘(مسند احمد:17452)‘‘۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں : ''اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو خواہ وہ تمہارے خلاف ہو‘(الجامع الصغیر:7217)‘‘۔
اسی طرح کسی کی نیکی کے بدلے میں اتنی ہی نیکی کرنا عدل ہے اور اس سے زائد کرنا احسان ہے اور کسی کی برائی کے بدلے میں اتنی ہی برائی سے پیش آناعدل ہے اور اس سے کم درجے میں پیش آنا احسان ہے‘ قرآن مجید میں ہے: ''اگر تم ان کو سزا دو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے‘ اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے‘ (النحل:126)‘‘۔ جانوروں کے ساتھ بھی احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛چنانچہ حضرت شداد بن اوس ؓبیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺنے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنا (حسن سلوک کرنا‘ نیکی کرنا)فرض کردیا ہے‘ پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور ذبیحہ کو راحت پہنچائے‘( مسلم:1955)‘‘ یعنی اس کی تکلیف کوکم سے کم کرے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے محمد بن کعب قُرظی سے پوچھا: عدل کی تعریف بتائیے!‘انہوں نے کہا: آپ نے ایک بھاری مسئلے کے بارے میں پوچھاہے‘(پس عدل یہ ہے:)اپنے سے چھوٹوں کے لیے باپ (جیسے شفیق) بن جائو ‘ اپنے سے بڑوں کے لیے بیٹے (جیسے اطاعت گزار) بن جائو‘ اپنے ہم عمروں کے لیے بھائی (جیسے مہربان) بن جائو ‘اسی طرح اپنی عورتوں کے لیے نرم دل بن جائو‘ لوگوں کو اُن کے قصور کے مطابق سزا دو‘ غصے میں ایک دُرّہ بھی نہ مارو کیونکہ (غصے کے عالَم میں) تم حد سے تجاوز کرلو گے‘ یہ عدل کی صفت ہے‘ رہافضل! تو اس کی خوبی اور ہے‘حضرت علیؓ سے روایت ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق کے بارے میں نہ بتادوں‘ (وہ یہ ہے:)جو تجھ سے تعلق توڑے‘ اُس سے تعلق جوڑو ‘ جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کردو ‘پس یہی احسان ہے‘ (نَضْرَۃُ النَّعِیْم‘ج:2‘ص:72)‘‘۔
شیخ سعدی نے کہا ہے:
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردے'' اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا‘‘
ترجمہ: ''برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان کام ہے(یعنی اس سے تو نفسِ امّارہ کو تسکین ملتی ہے )‘ اگر مردِ(باکمال ہوتو) برائی کا بدلہ اچھائی سے دو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّم ﷺ کے اُسوۂ مبارکہ کی صفت بھی ''حَسَنَۃ‘‘ بیان فرمائی ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اخلاقِ عالیہ ‘ اوصافِ حمیدہ ‘ احوال وافعالِ مبارکہ اور کردار وگفتار کو جس زاویے سے بھی دیکھیں‘ وہ بلند ترین مرتبے پر نظر آئیں گے‘ اس لیے اگرچہ ہم ''حَسَنَۃ‘‘کا ترجمہ اچھے یا عمدہ سے کرتے ہیں‘ لیکن درحقیقت اردو زبان میں کوئی ایک ایسا لفظ یا کلمہ نہیں ہے جو ''حَسَنَۃ‘‘کی پوری معنویت پر محیط ہو‘ آپ کی ذاتِ والا صفات سے جو بھی چیز منسوب ہے ‘ اُس میں حُسن ہی حُسن ہے‘ جمال ہی جمال ہے‘ کمال ہی کمال ہے ‘ امام احمد رضا قادری نے بجا فرمایا:
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے ‘کہ گمانِ نَقص‘جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے‘ یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
آپ کے سُخنِ مبارک کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
میں نثار تیرے کلام پر ‘ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے‘ جس میں سخن نہ ہو ‘وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں