اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور یاد کرو! جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو چیر دیا، پھر تمہیں نجات دی اور ہم نے فرعونیوں کو غرق کر دیا اور تم (یہ منظر) دیکھ رہے تھے‘‘ (البقرہ: 50)۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے سمندر کے بیچ راستہ بنا دیا، انہوں نے اپنی قوم کے ہمراہ آسانی سے سمندر پار کر لیا، پھر ان کی دیکھا دیکھی فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ اُن کے تعاقب میں سمندر میں جونہی داخل ہوا، اللہ تعالیٰ نے سمندر کو رواں کر دیا اور وہ اپنے لشکر کے ہمراہ سمندر میں غرق ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ مقدس سرزمین میں داخل ہوں، اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا، لیکن انہوں نے بزدلی دکھائی، اللہ کے حکم کو نہ مانا اور موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ''آپ اور آپ کا رب جا کر اُن سے لڑ لیں، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے‘‘، اس نافرمانی کی پاداش میں وہ چالیس برس تک فاران سے شرقِ اُردن تک کے علاقے میں بھٹکتے رہے۔ اسی عرصے میں اُن کے بیشتر لوگ وفات پا گئے۔ حضرات موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے بھی وفات پائی، پھر حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل مقدس سرزمین میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
''(موسیٰ علیہ السلام نے کہا:) اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور پیٹھ نہ دکھانا ورنہ تم خسارے میں رہو گے، کہنے لگے: اے موسیٰ! اس زمین میں بڑی جابر قوم ہے، جب تک وہ اس سرزمین سے نکل نہ جائیں، ہم اس زمین میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے؛ البتہ اگر وہ اُس سے نکل جائیں تو ہم ضرور اس میں داخل ہو جائیں گے۔ اللہ کا خوف رکھنے والے دو انعام یافتہ آدمیوں نے کہا: تم دروازے سے اُن پر داخل ہو جائو، جب تم دروازے سے داخل ہو جائو گے تو بے شک تم ہی غالب رہو گے اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی بھروسا رکھو، کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ اُس میں رہیں گے، ہم اُس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، جائیے! آپ اور آپ کا رب ان سے جنگ کر لیں، بے شک ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔ موسیٰ نے کہا: اے میرے رب! بے شک مجھے صرف اپنا اور اپنے بھائی کا اختیار ہے، تو ہمارے اور نافرمان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اللہ نے فرمایا: یہ سرزمین چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی، یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے، سو آپ ان نافرمان لوگوں پر افسوس نہ کریں‘‘ (المائدہ:21 تا 26)۔
پس ہم پاکستانی بھی پچھتر سال سے بھٹک رہے ہیں۔ ابتدائی 9 سال میں ہم اپنا دستور بھی نہ بنا سکے، پھر 1956ء میں ون یونٹ پر مبنی دستور بنا۔ قومی اسمبلی میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی مساوی نمائندگی کا فارمولا طے پایا۔ 1958میں مارشل لا نافذ ہوا اور وہ دستور منسوخ کر دیا گیا۔ پھر 1962ء میں بنیادی جمہوریت کے اصول پر مبنی ایک نیا دستور بنا، 1969ء میں دوسرے مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ وہ بھی منسوخ ہوگیا۔ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوگیا اور اُس وقت کے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نفرت کی علامت بن گئے، انہوں نے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کیا۔ انہوں نے 1972ء میں عبوری آئین دیا، پھر پہلی بار پاکستانی پارلیمنٹ نے 1973ء میں ایک متفقہ وفاقی پارلیمانی دستور تشکیل دیا۔ 1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے دستورکو معطل کر دیا حتیٰ کہ 1988میں وہ کئی سرکردہ شخصیات کے ہمراہ طیارے کے حادثے کا شکار ہوئے، پھر 1988ء میں 1973ء کے دستور کے مطابق انتخابات ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 1990ء میں اُن کی حکومت معزول کر دی گئی اور نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 1993ء میں اُن کی حکومت بھی معزول کر دی گئی اور دوبارہ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں، پھر1996ء میں اُن کی حکومت دوبارہ معزول کر دی گئی۔ 1997ء میں نواز شریف دوسری بار بھاری اکثریت کے ساتھ وزیراعظم منتخب ہوئے، پھر 1999ء میں پرویز مشرف صاحب نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کی حکومت کو معزول کرکے انہیں پابندِ سلاسل کر دیا۔ وہ خود ہی چیف آف آرمی سٹاف ہوتے ہوئے ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے اور وردی میں 2008ء تک اقتدار پر فائز رہے۔ دریں اثنا 2002ء میں قومی انتخابات ہوئے اور ایک اطاعت گزار جمہوری نظام قائم کر دیا گیا۔ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا، خواتین اور اقلیتوں کے لیے ایک بار پھر بڑی تعداد میں بالواسطہ انتخاب پر مبنی نشستیں مختص کر دی گئیں۔ 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے، اپریل 2012ء میں سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دیدیا، ان کی بقیہ مدت راجہ پرویز اشرف نے پوری کی۔ پھر عام انتخابات کے نتیجے میں 2013ء میں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے اور 2017ء میں سپریم کورٹ نے انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا، ان کی بقیہ آئینی مدت شاہد خاقان عباسی نے پوری کی۔
2011ء سے سائیڈ لائن میں پروجیکٹ عمران خان لانچ ہوا، مقتدرہ کے ذریعے اُن کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا اور 2018ء میں انتخابات کے بعد وہ وزیراعظم بنے۔ اس لحاظ سے اُن کے دور کو مثالی کہا جاتا تھا کہ وہ مقتدرہ کا انتخاب تھے، اقتدار تک پہنچانے کے لیے اُن کے حق میں تمام اسباب سازگار بنا دیے گئے۔ خود اُن کے بقول مقتدرہ اُن کے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کر دیتی تھی، ہر مشکل مرحلے پر ارکانِ اسمبلی کو وہی گھیر کر خان صاحب کی خدمت میں پیش کرتی تھی۔ ''ایک صفحے‘‘ کی گردان تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ لیکن پھر اچانک آئینے میں بال آ گیا، وہ ایک صفحہ پھٹ گیا، خان صاحب کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہوئی، انہوں نے اس کی راہ میں ہر قسم کی غیر آئینی رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن چونکہ آسمانوں پر فیصلے ہو چکے تھے، اس لیے انہیں مطلوبہ غیبی امداد میسر نہ آئی، آخر کار تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہوئی اور متحدہ اپوزیشن کی حکومت قائم ہو گئی۔
یہ تبدیلی آئین کے مطابق تھی، لیکن خان صاحب اسے اپنے خلاف سازش قرار دیتے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک اُن کی ذاتِ والا صفات اس لائق ہے کہ طاقت کے تمام مراکز اُن کی ظاہری و باطنی اعانت کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہیں، اُن کے اقتدار کے تحفظ کے لیے ہر ممکن تدبیر کریں۔ لیکن چونکہ مقتدرہ نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اس لیے انہیں سازش کا حصہ قرار دیتے ہوئے خان صاحب نے اُن کی غیر جانبداری پر کئی فتوے لگائے، مثلاً: ہینڈلرز، سازشی، میر جعفر، میر صادق وغیرہ، نیز فلور کراسنگ یعنی اپنی ذات سے بے وفائی کو انہوں نے شرک سے تعبیر کیا۔ الغرض مقتدرہ پراُن کی اپنی یہ پروڈکٹ بہت بھاری پڑی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے سمیت پچھتر سالوں میں اداروں کی ایسی توہین اور تحقیر نہیں ہوئی، جو خان صاحب کے ہاتھوں ہوئی، اب سنا ہے پسِ پردہ پھر رابطے ہورہے ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔
یہ پس منظر ہم نے اس لیے بیان کیا کہ پاکستانی قوم پچھتر سال سے بنی اسرائیل کی طرح ایک دائرے میں سفر کر تی رہی ہے، جمہوریت کا سفر دو قدم آگے بڑھا تو چار قدم پیچھے آ گیا، نظام کو تسلسل نہ ملا، کبھی بھی آئین پر لفظًا و معناً عمل نہیں ہوا، کبھی براہِ راست فوجی اقتدار قائم ہوا، کبھی تابع فرمان جمہوریت چلائی گئی اور آخری تجربہ ایک ایسی جمہوریت کا تھا، جس کے نظم کو نادیدہ ہاتھ پسِ پردہ رہ کر چلا رہے تھے، ہم اسے ''بندوبستی جمہوریت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ غیبی ہاتھ اتنے نادیدہ بھی نہ تھے، داغ دہلوی نے کہا تھا:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
بندوبستی جمہوریت کا نقصان یہ ہوا کہ خان صاحب مقتدرہ کی تمام تر حمایت کے باوجود ایک مدبّر، حلیم الطبع، دور اندیش، صاحبِ بصیرت اور عملی سیاست دان نہ بن سکے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد اُنہیں شکایت رہی کہ پہلے کی طرح مقتدرہ نے اُن کے اقتدار کو کیوں نہ بچایا۔ یہ دراصل اُن کی جانب سے اپنی نااہلی کا اعتراف ہے کہ وہ خود اپنے مخالف سیاست دانوں سے نہ مکالمہ کر سکتے ہیں، نہ مشکل حالات میں کوئی راستہ نکال سکتے ہیں، جیساکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کیا کرتے تھے۔ اپنے مخالفین سے ملنا، اُن سے مکالمہ کرنا، اُن کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنا، اُن کو منتخب نمائندوں کی حیثیت سے احترام اور جائز مقام دینا، خان صاحب کی افتادِ طبع اور فطرت کے سراسر خلاف ہے۔ اقتدار سے معزولی کے بعد بھی اُنہوں نے یہ پسند نہ کیا کہ تھوڑی دیر رک کر اپنے طرزِ حکومت اور طرزِ عمل کا جائزہ لیں، اپنی اور اپنی ٹیم کی ناکامیوں اور کمزوریوں کا ادراک کریں، مقتدرہ کے بغیر اپنے بل پر نظام کو چلانا سیکھیں اور دوبارہ ایک پختہ کار اور مدبر سیاست دان کی حیثیت سے مخالفین کے مقابل میدان میں اتریں۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے لیے ایک ہیجان خیز، جذباتی، غضب ناک اور مشتعل رہنما کا کردار پسند کیا، وہ اپنے لیے ایسی فضا چاہتے ہیں جس کی تصویر کشی پنجابی شاعر نے بخوبی کی ہے:
''حجرے شاہ مقیم دے، اک جٹی عرض کرے٭ میں بکرا دیواں پیر دا، جے سر دا سائیں مرے٭ پنج ست مرن گوانڈناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے٭ ہٹی سڑے کراڑ دی، جتھے دیوا نِت بلے٭ کتّی مَرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نِت کرے ٭ سنجیاں ہو جان گلیاں، وچ مرزا یار پھرے‘‘۔
اب کہا جا رہا ہے: ''فوج نے سیاست سے دوری اختیار کرکے اپنے آئینی کردار پر قناعت کر لی ہے اور جمہوری نظام میں غیر آئینی دخل اندازی سے عذر کر لیا ہے‘‘۔ اللہ کرے یہ بات لفظاً اور معناً دونوں اعتبار سے صحیح ہو، لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے چلتے ہوئے ملک کا جمہوری نظام آخرِ کار مستحکم ہو ہی جائے گا، ادارے مضبوط ہوں گے، دنیا کو معلوم ہوگا کہ اس ملک کی زمامِ کار درحقیقت کس کے ہاتھ میں ہے۔ فوج کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ پر بھی لازم ہے کہ وہ ملک کے آئینی اداروں اور ایگزیکٹو کو اپنی حدود کے اندر چلنے دے، جو حدود سے تجاوز کرے، اُس پر نظر رکھے، اُس کی گرفت کرے، اُسے راہِ راست پر لائے۔ لیکن اپنے آپ کو بھی آئین و قانون کی حدود میں رکھے۔ از خود نوٹس کے لیے بھی کوئی معیار مقرر کرے۔ اپیلٹ کورٹ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لے، لیکن پاناما لیکس کی طرح خود تحقیقی وتفتیشی ادارہ یعنی ٹرائل کورٹ نہ بنے، ماتحت عدالتوں پر نگران جج بٹھا کر انہیں ہدایات دینے کے بجائے انہیں ریگولیٹ کرے۔