کہا جاتا ہے: ''رُوم جل رہا تھا اور نیرو چَین کی بانسری بجا رہا تھا‘‘، سو اگر ہمارا قومی مزاج بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر یہ فرض کر لینا ہے کہ خطرہ ٹل گیا ہے تو ''گھر پھونک، تماشا دیکھ‘‘ کی اس نفسیاتی بیماری کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم ایک حقیقت پسند قوم ہیں، ملک و قوم کو درپیش خطرات اور حالات کا ہمیں احساس ہے، تو ایک ناگزیر سوال ہمارے سر پہ کھڑا ہے کہ آیا ہمارا ملک اب بھی قابلِ حکمرانی ہے یا ایک ناقابلِ حکمرانی ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے۔
ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پنجاب اور پختونخوا کے شہروں اور شاہراہوں میں بے امنی، انتشار اور قانون کو ہاتھ میں لینے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت تقریباً مفلوج اور محصور دکھائی دیتی ہے اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر پنجاب کنٹرول میں نہیں ہے تو وفاقی حکومت مفلوج اور محصور نظر آئے گی۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے بعض لیڈر برملا اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں، کیونکہ بظاہر وفاق کی حکمرانی وفاقی دارالحکومت تک محدود ہے اور ایئرپورٹ، موٹر ویز اور ہائی ویز تک رسائی بھی مَعرضِ خَطَر میں ہے، کبھی بحال ہوتی ہے اور کبھی بند کر دی جاتی ہے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ پنجاب اور پختونخوا کے صوبے وفاق کے مقابل کھڑے ہیں، وفاق کو چیلنج کر رہے ہیں اور صوبائی پولیس جو امن و امان کی ذمہ دار ہے‘ وہ بھی معطل ہے، مفلوج ہے یا صوبائی حکومت کے حکم پر قانون کی عمل داری کو مفلوج کرنے والے عناصر کو تحفظ دینے پر مامور ہے۔
جنابِ عمران خان ایک ضدی، ہٹ دھرم، منتقم مزاج اور زود رنج شخصیت میں ڈھل چکے ہیں، اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمہوری انداز میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی، مگر وہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں، کبھی اسے امریکی سازش قرار دیتے ہیں اور کبھی مقتدرہ سے شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ انہوں نے میری حکومت کیوں نہ بچائی؛ چنانچہ وہ انہیں میر جعفر، میر صادق، ہینڈلرز، نیوٹرل اور نجانے کیسے کیسے القاب سے نوازتے ہیں۔ تاریخِ عالَم یہ بتاتی ہے کہ جب کوئی جذباتی، منتقم مزاج، انا پرست، اپنی پارسائی اور برتری کا حد سے زیادہ یقین رکھنے والا حکمران یا سیاسی رہنما عوامی مقبولیت پا لے، تو وہ فاشسٹ بن جاتا ہے۔ ماضی میں یورپ میں ہٹلر اور مسولینی عوامی مقبولیت کے بل پر ہی حکمران بنے اور پھر فاشسٹ بن کر اپنے ہی ملکوں کو تباہی سے دوچار کیا۔ کچھ ایسا ہی منظر ہم اپنے ہاں بھی دیکھ رہے ہیں۔
جناب عمران خان کو خصوصی مہارت سے پالا پوسا گیا، ان کی شخصیت کو بنایا سجایا گیا، پھر سوشل میڈیا کو کمالِ مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اُن کاغیر معمولی تاثّر لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کے ذہنوں میں راسخ کیا گیا، پھر اقتدار میں لانے کے لیے تمام تدابیر اختیار کی گئیں، اُن کے مخالفین کو نشانِ عبرت بنایا گیا، اُن کے راستے کے کانٹے ایک ایک کر کے صاف کیے گئے، انہیں مکمل حمایت سے نوازا گیا، خود خان صاحب کے بقول ہر مشکل مرحلے میں مقتدرہ ان کی مددکو آئی، جب ضرور ت محسوس ہوئی تو ارکانِ پارلیمنٹ کو گھیر کر اُن کی حمایت میں ووٹ دلانے کے لیے لایا گیا۔ اب اس عادت سے چھٹکارا اُن کے بس میں نہ تھا، انہوں نے اپنے بارے میں فرض کرلیا کہ انہیں قدرت نے دائمی حکمرانی کے لیے بنایا ہے، لہٰذا ریاست کے ہر ادارے، ہر فرد، ہر شعبے اور ہر عنصر کو ہمہ وقت اُن کی حمایت پر کمربستہ ہونا چاہیے، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ اُن کا استحقاق ہے۔ اُن کی اپوزیشن ایسے حالات میں اقتدار میں آئی کہ عالمی اقتصادی صورتِ حال ناسازگار اور ابتر ہو گئی۔ ترقی یافتہ ممالک (امریکہ، کینیڈا، یورپین یونین، برطانیہ وغیرہ) میں بھی مہنگائی تاریخ کی ریکارڈ سطح پر ہے، توانائی (پٹرول، ڈیزل اور بجلی وغیرہ) کی قیمتیں تمام انتہائوں کو عبور کر چکی ہیں۔ حال ہی میں ہمیں کینیڈا اور برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا، وہاں بھی لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو عالمی محرکات کا اندازہ ہوتا ہے، اُن کی ناگزیریت کا ادراک ہوتا ہے، اس لیے اپنی حکومتوں کے بارے میں اُن کا ردّعمل قدرے متوازن ہوتا ہے، جبکہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں عوام کو عالمی رجحانات کا ادراک نہیں ہوتا اور وہ ان چیزوں کو اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ شاید اب ماضی کی اپوزیشن والے پچھتا رہے ہوں گے کہ یہ وقت اقتدار کو ہاتھ میں لینے کا نہیں تھا، لیکن: ''اب پچھتاوے کیا ہووَت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘، اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو اس سال کی طوفانی بارشوں نے وہ بھی پوری کر دی، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ایسی تباہی کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔ تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے اور ایک اندازے کے مطابق تیس ارب ڈالر یعنی چھیاسٹھ کھرب روپے سے زیادہ کا اقتصادی نقصان ہو چکا ہے۔
جنابِ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نظام کے کھوکھلے پن کو خوب آشکار کیا۔ اداروں نے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کو اپنا شعار بنا لیا تھا، اس لیے اسلام آباد میں بیٹھا ہوا حکمران ہر وقت لرزاں وترساں رہتا ہے، اُسے اپنے حال و مستقبل اور بے اختیاری وبے توقیری کی فکر لاحق رہتی ہے،اُس کی قُویٰ مضمحل رہتی ہیں، بیورو کریسی بھی ڈری سہمی رہتی ہے کہ کہیں کل ہمیں ہی انتقام کا نشانہ نہ بنا دیا جائے۔ الغرض فیصلہ سازی کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب ہیٔتِ حاکمہ متضاد عناصر کا مجموعہ ہو، ہر شریکِ حکومت پہلے سے سمٹے ہوئے خوانِ اقتدار سے زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینے کی فکر میں ہو، تو انجام نوشتۂ دیوار بن جاتا ہے۔ چھوٹے گروپ ہر وقت بلیک میل کرتے رہتے ہیں، کیونکہ حکومت کی بقا کے لیے توازن اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ اگر وہ حمایت واپس لے لیں تو حکومت دھڑام سے گر جائے۔
خان صاحب نے مقتدرہ سے متعلق اتنا کچھ کہا کہ اُن کا رعب و دبدبہ تو دور کی بات ہے‘ بھرم بھی باقی نہیں رہا۔ ماضی کے پچھتر سالوں میں مقتدرہ کے حوالے سے اس طرزِ عمل کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا گیا۔ اگرچہ انہیں کسی اور سے گِلہ کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (1) ''لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب برّ و بحر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ اللہ انہیں اُن کے بعض اعمال کی سزا چکھائے، ہو سکتا ہے کہ وہ باز آ جائیں‘‘ (الروم: 41)، (2) ''اللہ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پُرامن اور پُرسکون تھی، ہر جگہ سے اُس کی روزی اُس کے پاس وافر مقدار میں آتی تھی، پھر اس بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اس بستی والوں کو ان کے کرتوتوں کے سبب بھوک اور خوف کا عذاب چکھایا‘‘ (النحل: 112)۔ اس آیت میں بھوک اور خوف کو لباس سے تشبیہ دی، لباس اپنے پہننے والے کے وجود کو گھیر لیتا ہے، یعنی اسی طرح بھوک اور خوف نے ان کے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب بھیجے یا تمہیں مختلف گروہ بنا کر ایک دوسرے کو تشدّد کا مزہ چکھائے، دیکھو! کس طرح سے ہم (اپنی) نشانیاں بار بار بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھیں‘‘ (الانعام: 65)۔ مفسرین کرام نے لکھا: ''اوپر سے عذاب سے مراد یہ ہے کہ حکمران ظالم ہو جائیں اور نیچے کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ ماتحت نافرمان ہو جائیں یا اوپر سے طوفانی بارشیں برسیں اور نیچے سے سیلاب برپا ہوں یا زلزلے آئیں، اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
الغرض اس وقت ہمارا ملک انارکی، بدنظمی، انتشار اور اقتدار کی بے توقیری کا منظر پیش کر رہا ہے، اقوامِ عالَم بھی اس کا مشاہدہ کر رہی ہیں، جب اقتدار ڈانواں ڈول ہو تو ایسے حالات میں کون ہم سے معاملہ کرے گا اور کس سے معاملہ کرے گا۔ متبادل قوت عمران خان نے تو دنیا کے سامنے اپنا منفی تاثّر پیش کیا ہے، وہ ایک مغلوب الغضب اور منتقم مزاج بن کر سامنے آئے ہیں، جبکہ قیادت کی اہلیت کے لیے قائد کی شخصیت کا متحمل مزاج، بُردبار اور مُدَبِّر ہونا ضروری ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عدلیہ اداروں کے دائرۂ کار و اختیار میں توازن کی ضامن ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں 2007ء کی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجے میں جو آزاد عدلیہ وجود میں آئی، وہ خود غیر متوازن ہو گئی، پارلیمنٹ اور منتظمہ کے دائرۂ اختیار میں تجاوزات کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔ نیویارک، واشنگٹن، لندن یا کسی ترقی یافتہ ملک کے کسی بڑے شہر میں کھڑے ہوکر لوگوں سے اُس ملک کی سپریم کورٹ یا چیف جسٹس یا جج صاحبان کے نام پوچھیں تو ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ ایک فیصد لوگوں کو بھی ان کے نام معلوم نہیں ہوں گے، مگر ہمارے ہاں روزٹی وی سکرین پر ٹِکرچلنا ضروری ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس گلزار احمد نے جو تاثّر چھوڑا، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ایک المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ متصور کر لیا گیا ہے کہ مقتدرہ اور عدلیہ کسی کو جواب دہ نہیں، اگر وہ اپنے دائرۂ کار سے تجاوز کریں تو اُن کے لیے تحدید وتوازن کا مؤثر انتظام نہیں ہے، پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کو تو ویسے ہی بے توقیر بنا دیا گیا ہے۔ اس بے توقیری میں ان کا اپنا کردار بھی شامل ہے۔ ظہیر دہلوی نے کہا ہے:
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
الغرض ملک میں بے یقینی کے سائے چھائے ہوئے ہیں، کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، کسی کو نہیں معلوم کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہو گا، ہمارے حال سے بدتر ہو گا یا پردۂ غیب سے کوئی خیر کی صورت پیدا ہو گی۔ خداوندِ قدّوس ذاتِ مُسَبِّبُ الاسباب سے بصد اخلاص و عَجز و نیاز دعا ہے کہ وہ اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کے طفیل ہمارے ملک و قوم کیلئے کوئی خیر کی صورت مقدر فرمائے، ورنہ ظاہری اسباب مایوس کن ہیں، جس وقت ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں، امریکی انتخابات کے نتائج ریپبلکن پارٹی کے حق میں ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اُسے غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو صدر بائیڈن کو اپنی مَن پسند پالیسیاں بنانے میں دشواری ہو گی،اس کا اثر پاکستان سمیت عالمی سیاست پر پڑے گا۔