ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1) ''صرف ان لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے، جو نادانی سے گناہ کر بیٹھیں، پھر (احساس ہونے پر) جلد ہی توبہ کر لیں، تو یہ وہ لوگ ہیں، جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا، بہت حکمت والا ہے اور ان لوگوں کی توبہ مقبول نہیں ہے، جو گناہ کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت سر پر آ جائے تو وہ کہے: ''میں نے اب توبہ کی‘‘ اور نہ ان کی توبہ قبول ہے جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں‘‘ (النساء: 17 تا 18)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ سکراتِ موت طاری ہونے تک اپنے بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے‘‘ (ترمذی: 3537)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''ہرگز نہیں! بلکہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دل زنگ آلود ہو گئے ہیں‘‘ (المطففین: 14)۔
توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ آئینۂ قلب جو گناہوں سے آلودہ ہو چکا ہے، پہلے اسے پاک و صاف کیا جائے تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول مکرمﷺ کی محبت کا رنگ چڑھ سکے، یعنی اس کا نقش ثبت ہو سکے، جس طرح دیوار پر رنگ کرنے والا پہلے سابق رنگ کو کھرچ کر صاف کرتا ہے اور اس کے بعد نیا رنگ کرتا ہے تاکہ وہ دیر پا ثابت ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(مسلمانو! کہہ دو:) ہم نے خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیا اور اللہ کے رنگ سے بہتر اور کس کا رنگ ہو گا اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں‘‘ (البقرہ: 138) اور قلب و ذہن کی یہ تطہیر توبہ سے ہوتی ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4250)۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''میرے دل پر اَبر سا چھا جاتا ہے اور میں دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں‘‘ (مسلم: 41)۔ محدثینِ کرام نے اس حدیث کی کئی توجیہات بیان فرمائی ہیں، ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: رسول اللہﷺ کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار و تجلیّات کا نزول ہوتا ہے اور آپﷺ اس کے تشکر کے طور پر استغفار فرماتے ہیں۔ (2) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بندہ جب گناہ کرتا ہے، تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتاہے، پس اگر وہ گناہ کی کیفیت سے نکل آئے اور اِستِغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتاہے اور اگر وہ اُس گناہ کا اعادہ کرے تو یہ دھبہ پھیلتا چلا جاتا ہے، یہاں تک اس کے قلب کو گھیر لیتا ہے اور یہی وہ ''رَین‘‘ ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ المطففین (آیت 14) میں فرمایا ہے‘‘ (سنن ترمذی: 3334)۔
امام الصوفیہ سید علی ہجویریؒ لکھتے ہیں: ''حجاب دو قسم کا ہوتا ہے: ایک''رینی‘‘ کہ بندے کی ذات حق سے حجاب کا سبب بن جائے، تو اس کے نزدیک حق و باطل ایک سا ہو جاتا ہے اور یہ کبھی رفع نہیں ہوتا۔ قرآن نے اسے رَیْن، خَتْم، طَبع، قَسَاوَت (سنگدلی)، کُفر، اِغْفَال (غفلت)، قُفل (تالا) اور کِنّ (پردے) سے تعبیر فرمایا ہے اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہے۔ دوسرا ''غینی‘‘ کہ بندے کی صفت حق سے حجاب بن جائے، یہ توبہ اور ندامت سے اٹھ جاتاہے‘‘۔ حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ''رَین‘‘ کی مثال وطن کی سی ہے اور وطن میں استقلال ہوتا ہے اور ''غَین‘‘ کی مثال دل پر وارد ہونے والے خیالات ہیں، جو ندامت اور توبہ سے زائل ہو جاتے ہیں اور قلب صاف ہو جاتاہے‘‘ (کَشْفُ الْمَحْجُوْب، ص: 79 تا 80)۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''جس نے ''لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہا، پھر اسی پر اس کی موت واقع ہو گئی، تو وہ جنت میں جائے گا‘‘ (صحیح بخاری: 5827)۔ اس کی شرح میں امام بخاریؒ لکھتے ہیں: ''یہ بشارت اس کے لیے ہے، جو موت سے پہلے اپنے گناہوں پر نادم ہو کر توبہ کرے اور کلمۂ اسلام پڑھے تو اسے بخش دیا جائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے بہت زیادہ راضی ہوتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ اس سے اتنا زیادہ راضی ہوتا ہے، جیسے ایک مسافر کی سواری کسی بیابان میں ساز و سامان سمیت گم ہو جاتی ہے، وہ اس کو پانے سے ناامید ہو کر ایک درخت کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ جاتاہے (ایک روایت میں ہے: اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اب تو موت یقینی ہے)، اسی ناامید ی کی کیفیت میں وہ اچانک نظر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ اس کی سواری ساز و سامان سمیت اس کے سامنے موجود ہے، وہ اس کی لگام پکڑتا ہے اور خوشی کے غلبے کی وجہ سے جلدی میں اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں: ''اے اللہ! تُو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘ (مسلم: 2747)۔ اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ غیر معمولی خوشی کے غلبے کی وجہ سے بندہ اَز خود رَفتہ ہو جاتا ہے، حالانکہ وہ کہنا یہ چاہتا ہے: ''اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں اور تو میرا رب ہے‘‘، مگر سبقتِ لسانی کی بنا پر اس کی زبان سے مندرجہ بالا کلمات نکل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا دامانِ رحمت اُس کے بندوں کے لیے اتنا وسیع ہے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''ایک بندہ گناہ کرتا ہے، پھر (نادم ہوکر) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے: اے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے، تو اس کی مغفرت فرما، اس کا رب فرماتا ہے: کیا میرے بندے کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش بھی دیتا ہے اور (اگر وہ چاہے تو) مواخذہ بھی فرما لیتا ہے، (فرشتو! گواہ رہنا!) میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری تقاضے کے تحت) وہ پھر گناہ کر بیٹھتا ہے اور پھر (نادم ہو کر) عرض کرتا ہے: پروردگار! میں گناہ کر بیٹھا ہوں، تواسے بخش دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا میرے بندے کو یقین ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور (وہ چاہے تو) مواخذہ فرما لیتاہے؟ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، پھر کچھ عرصہ اطاعت کی زندگی گزارنے کے بعد (بشری کمزوری کے سبب) وہ گناہ کر بیٹھتا ہے (اور احساس ہونے پر) عرض کرتا ہے: اے پروردگار! میں نے گناہ کر لیا ہے، تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا میرے بندے کو یقین ہے اس کا ایک پروردگار ہے، جوگناہوں کو بخش دیتا ہے اور (چاہے تو) مواخذہ فرما لیتاہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا، وہ جو چاہے کرے‘‘ (صحیح بخاری: 7507)۔
یہ آخری کلمات اس لیے نہیں ہیں کہ بندے کو گناہوں کی کھلی چھوٹ دے دی ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا عفو وکرم بندے کو اپنی آغوش میں لے لے، تو پھر وہ گناہوں سے اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ گناہوں سے اسے فطری طور پر نفرت ہو جاتی ہے اور نیکیاں اس کی فطرت کے لیے مرغوب اور پسندیدہ ہو جاتی ہیں۔ اب نیکی اسے بار معلوم نہیں ہوتی بلکہ اس سے اُسے قرار و سکون نصیب ہوتا ہے، اسی کیفیت کو رسول اللہﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا: ''آپﷺ سے پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ''جب تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور ملے اور تمہارا گناہ تمہیں برا لگے تو (درحقیقت) تم مومن ہو‘‘۔ صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! گناہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو تمہارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو‘‘ (مسند احمد: 22166)۔
اللہ تعالیٰ کی مغفرت و عافیت کا سمندر تو اس سے بھی زیادہ جولانی کے ساتھ موجزن رہتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (میرے خاص بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اس کو دُگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ رہے گا، سوائے اس کے جس نے توبہ کر لی اور ایمان لایا اور (اس کے بعد) نیک اعمال انجام دیتا رہا، تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الفرقان: 68 تا 70)۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی بے انتہارحمت و شفقت پر دلالت کرتی ہے کہ اگروہ مائل بہ کرم ہو جائے تو گناہوں کی معافی اس کے کرم کے مقابلے میں معمولی بات ہے، وہ چاہے تو گناہوں کے بدلے میں نیکیاں بھی عطا فرما دیتا ہے اور اس مفہوم کی تائید میں احادیث موجود ہیں، یہاں اُن کے تفصیلی بیان کی گنجائش نہیں ہے۔
امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی نے توبہ کی قبولیت اور گناہ پر ندامت کی علامتیں یہ بیان کی ہیں: (1) دل کا نرم ہو جانا اور ندامت کے سبب آنسو نکلنا۔ ایک روایت میں ہے: توبہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھو، کیونکہ وہ بہت زیادہ نرم دل ہوتے ہیں۔ (2) توبہ کے سبب دل میں گناہ سے نفرت پیدا ہوتی ہے، گناہ کی مثال زہر آلود شہد کی سی ہے کہ اس کا ذائقہ شیریں اور اثر المناک ہوتا ہے؛ چنانچہ جس نے ایک بار زہر آلود شہد کا اثر دیکھ لیا، وہ زہر سے پاک شہد سے بھی اجتناب کرتا ہے کہ ''دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔ (3) گناہ پر ندامت مقبول توبہ کا درجہ اُس وقت پاتی ہے کہ یہ تاحیات رہے، اس کا اثر محض عارضی اور وقتی نہ ہو۔ (4) گناہ کے اثرات کی تلافی نیک اعمال سے کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک نیکیاں گناہوں کے اثر کو زائل کر دیتی ہیں‘‘ (ہود: 114)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''تم جہاں کہیں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے گناہوں کا ازالہ نیکیوں سے کرو اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئو‘‘ (سنن ترمذی: 1987)۔ (5) بعض اوقات پے درپے مشکلات کا آنا بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، بشرطیکہ بندہ ان مشکلات پر گریہ و زاری نہ کرے، اللہ تعالیٰ سے شکوہ و شکایت نہ کرے، بلکہ صابر و شاکر رہے۔ (6) گناہِ کبیرہ کے ایک مرتکب پر جب حد نافذ کی جا رہی تھی تو کسی نے اُسے حقارت سے دیکھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر پوری امت میں تقسیم کر دی جائے تو اُن کے لیے کافی ہے‘‘۔ امام جعفر صادق سے سوال ہوا: ''ہمیں کیسے معلوم ہو کہ ہماری نماز اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو گئی‘‘، آپ نے فرمایا: اس کی علامت قرآنِ کریم میں بیان کر دی گئی ہے: ''بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘ (العنکبوت: 45)، سو اپنا جائزہ لے کر خود فیصلہ کر لو۔