چودھویں پارے کی پہلی آیت کا شانِ نزول حدیث میں آیا کہ اہلِ جہنم جب جہنم میں جمع ہوں گے تو جہنمی ان گناہگار مسلمانوں پر طعن کریں گے کہ تم تو مسلمان تھے‘ پھر بھی ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جائے گا تو کفار تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے اور اس مرحلے پر نجات پا لیتے۔ 14 ویں پارے کی ابتدائی آیات میں کفار کے طعن و استہزا کا ذکر ہے کہ معاذ اللہ‘ وہ رسول کو مجنون کہیں گے اور کہیں گے کہ اگر آپ سچے ہیں تو فرشتوں کو سامنے لا کر دکھا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ منکرین خود اس سے چڑھ کر جائیں‘ تو پھر بھی کہیں گے کہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے‘‘۔ آیت 17میں بتایا کہ شیطان فرشتوں کی باتیں سننے کیلئے آسمانوں پر جاتے ہیں تو ان پر آگ کے کوڑے برسائے جاتے ہیں‘ یعنی ان کا داخلہ عالمِ بالا میں بند ہے۔ آیت 19 سے زمین کے پھیلائو اس میں پہاڑوں کے نصب کرنے‘ سبزہ اگانے اور دیگر وسائلِ معیشت کا ذکر ہے اور یہ کہ تمام نعمتوں کے خزانے اللہ کے پاس ہیں۔ آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس قدرت کا ذکر فرمایا کہ پانی سے لدے ہوئے بادلوں کو ہمارے حکم سے ہوائیں چلا کر لے جاتی ہیں اور پھر بارش برستی ہے اور بلند فضاؤں میں کسی سہارے کے بغیر اللہ تعالیٰ ہی نے لاکھوں گیلن کے حساب سے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ آیت 26 سے انسانوں اور جنات کے جوہرِ تخلیق کا بیان ہے‘ پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کا پیکر تخلیق فرمانے کے بعد فرشتوں کو تعظیم کے طور پر انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ سوائے‘ ابلیس کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اور وجہِ انکار اپنے جوہرِ تخلیق کو بتایا‘ پھر اللہ نے اسے قرب سے نکال کر دھتکار دیا اور قیامت تک اُس پر لعنت ہوتی رہے گی۔ شیطان نے دھتکارے جانے کے بعد قیامت تک کیلئے مہلت طلب کی جو اسے مل گئی؛ چنانچہ اُس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اے اللہ! میں تیرے چنے ہوئے بندوں کے علاوہ سب کو گمراہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے منتخب بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس مقام پر جہنم کے سات دروازوں کا ذکر ہے‘ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: جَہَنَّمْ‘ سَعِیْر‘ لَظّٰی‘ سَقَر‘ جَحِیْم اور ھَاوِیَہ۔ اس مقام پر یہ بھی بتایا کہ اہلِ جنت کے دل کینہ سے پاک ہوں گے اور وہ اعزاز واکرام کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل مسندوں پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ چند آیات میں حضرت ابراہیم و لوط علیہما السلام کا واقعہ بیان ہوا جس کی تفصیل اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ آیت 78 سے ''اصحاب الاَیکہ‘‘ اور ''اصحاب الحِجر‘‘ کا ذکر ہے کہ ان قوموں نے انبیاء کرام کو جھٹلایا اور ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ آیت نمبر 88 میں قرآن مجید کی نعمت اور سورۂ فاتحہ کا خاص طور پر ذکر ہے۔
سورۃ النحل: آیت 5 سے چوپایوں کی پیدائش کا ذکر ہے جن میں انسانوں کیلئے کئی طرح کے فوائد ہیں‘ یہ انسانوں کیلئے راحت کا سبب ہیں‘ ان میں بعض جانوروں کو کھایا جاتا ہے اور بعض میں دیگر فوائد ہیں‘ جیسے بھیڑوں کی اون سے گرم لباس حاصل ہوتا ہے‘ کچھ بار برداری کے کام آتے ہیں اورکچھ سواری کے کام آتے ہیں‘ جیسے گھوڑے‘ خچر اور گدھے وغیرہ۔ آیت 11 سے زمین سے پیدا ہونے والے پھلوں اور نعمتوں کا ذکر ہے اور یہ کہ شمس و قمر اور ستارے‘ اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ انسان سمندر پر سواری کیلئے سفر بھی کرتا ہے اور مچھلیوں کاشکار کرکے تازہ گوشت کھاتا ہے‘ سمندروں ہی سے مختلف قسم کے زیورات میں استعمال ہونے والی چیزیں نکلتی ہیں۔ ان تمام نعمتوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد فرمایا ''اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو ان کا احاطہ نہیں کر سکو گے‘‘۔ آیت20 سے مشرکوں کے باطل معبودوں کی بے بسی اور بے کسی کا ذکر ہے کہ وہ خود مخلوق ہیں‘ وہ بے جان ہیں‘ نعمتِ حیات سے محروم ہیں‘ انہیں خود اپنے انجام کا کچھ پتا نہیں جبکہ مسلمانوں کا معبود اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اور ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے۔ آیت 25 میں بتایا کہ جو لوگ گمراہوں کے رہنما ہیں‘ وہ اپنے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے‘ ان کا وبال بھی ان پر ہو گا۔ اہلِ تقویٰ اور اہلِ ایمان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کا ذکر کرکے فرمایاکہ ان کی وفات کے وقت فرشتے ان کی پاکیزہ روحوں کا استقبال کریں گے اور ان پر سلام بھیجیں گے۔ آیت 43 سے اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے فرمایا کہ آپ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو رسول بنایا تھا‘ جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اور حقانیت کے واضح دلائل اور کتابیں بھی بھیجیں اور (اے رسولﷺ!) ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ہمارے وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتا دیں‘ جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں۔ قرآن نے یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ تم نہیں جانتے وہ اہلِ علم سے پوچھ لو۔ آیت 48 سے اللہ تعالیٰ نے اس امر کو بیان فرمایا کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی بارگاہ میں مصروفِ عبادت ہے ‘ یہاں تک کہ چیزوں کا سایہ جو دائیں اور بائیں جھکتا ہے وہ بھی اللہ کو سجدہ کر رہا ہوتا ہے۔ آیت 57 سے بتایا کہ مشرک اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں‘ وہ ان تمام نسبتوں سے پاک ہے‘ (ان کا اپنا حال یہ ہے کہ) اگر ان کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جائے تو ان کا چہر کالا پڑ جاتاہے اور وہ غصے سے بھر جاتے ہیں (بیٹی کی پیدائش کو) بری خبر جانتے ہوئے‘ اپنی قوم سے چھپتے پھرتے ہیں کہ بیٹی کو ذلت اٹھا کر زندہ رکھیں (یا رسوائی سے بچنے کیلئے) اسے زندہ درگور کر دیں۔ آیت 66 سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں بیان کی گئیں کہ دودھ دینے والے جانوروں کے پیٹ میں خوراک جاتی ہے اور ان کے معدے کے ایک ہی کارخانے میں رنگین‘ بدبودار اور ناپاک گوبر پیدا ہوتاہے اور خون بنتا ہے اور ان دونوں ناپاک رنگین چیزوں کے درمیان ہی میں (چاندنی کی طرح چمکتا ہوا) صاف‘ شفاف‘ سفید اور پاکیزہ دودھ بنتا ہے۔ آیت 68 سے شہد کی مکھی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی مخلوق کو پہاڑوں‘ درختوں اور چھپروں میں اپنا مستحکم گھر بنانے کا شعور عطا کیا‘ پھر شہد کی مکھی پھولوں کا رَس چوس کر آتی ہے اور اس کے معدے کے کارخانے میں شہد بنتا ہے‘ جس میں انسانیت کیلئے شفا ہے۔ آیت 76 میں فرمایا کہ قیامت پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم وقت میں قائم ہو جائے گی۔ اگلی آیت میں فرمایا کہ اللہ نے تمہیں سننے‘ دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کیں‘ تاکہ تم اللہ کے شکر گزار بندے بنو۔ آیت 79 میں فرمایا کہ جو پرندے فضاؤں میں اڑتے ہیں‘ اُنہیں اللہ ہی تو بغیر کسی سہارے کے فضا میں قرار عطا کرتا ہے۔ آیت 80 میں جانورں کی کھالوں‘ مویشیوں کی اون‘ پشم اور بالوں سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر ہے‘ یعنی یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہیں۔ آیت 89 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہم ہر امت کے خلاف انہی میں سے ایک گواہ (یعنی اس عہد کے نبی اور رسول ) پیش کریں گے اور (اے رسولِ کریم!) ہم ان سب پر آپ کو گواہ بنا کر پیش کریں گے‘ یعنی ہر نبی اللہ کی عدالت میں گواہی دے گا کہ اُس نے دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیا تھا اور سیدنا محمد عربی رسول اللہﷺ ان سب نبیوں کی گواہیوں کی تصدیق کریں گے۔ آیت 90 قرآن مجید کی آیات ''جامع الاحکام‘‘ میں سے ایک آیت ہے‘ جسے تقریباً ہر خطبے میں پڑھا جاتاہے کہ اللہ عدل‘ احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے‘ بے حیائی‘ برائی اور سرکشی سے روکتا ہے‘ تم اُس کی نصیحت کو قبول کرو۔ آیت 91 میں وعدے کی پاسداری کا حکم دیا اور قسمیں کھا کر توڑنے سے منع فرمایا۔ دنیاوی فائدے کیلئے یا دھوکہ دہی کیلئے قسمیں کھانے کو معیوب قرار دیا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی مثال اس عورت جیسی ہے‘ جو سوت کاتتی ہے اور پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے‘ یعنی محنت کر کے اسے ضائع کر دیتی ہے۔ اگلی آیات میں فرمایا کہ دنیا کے حقیر اور ناپائیدار فائدے کیلئے اللہ کے عہد کو نہ توڑو‘ دائمی اور ابدی نعمتیں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ ہر مومن مرد اور عورت جو نیک کام کریں گے‘ ہم ان کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کو بہترین جزا دیں گے۔ آیت 119 میں ایک بار پھر اس رعایت کا بیان ہوا کہ اگر بندہ نادانی میں گناہ کر بیٹھے اور احساس ہونے پر سچے دل سے توبہ کرکے نیکی پر کاربند ہو جائے تو اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ آیت 123 میں رسول اللہﷺ کو ملتِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا۔ آیت 125میں دعوتِ دین کے اسلوب کو بیان کیا گیا ہے کہ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلاؤ (اور اگر بحث کی نوبت آئے) تو احسن طریقے سے حجت قائم کرو اور مشکلات میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرو کہ صبر کی توفیق اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملتی ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔