اس عنوان سے تین حصے پہلے شائع ہوچکے ہیں، اب اس کے تسلسل میں مزید سبق آموز احادیث و روایات چند اقساط میں لکھی جا رہی ہیں:
(1) ''اُمّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ جب رسول اللہﷺ سے کوئی ایسی بات سنتیں جسے سمجھ نہ پاتیں تو اس کا مطلب سمجھنے کے لیے آپﷺ سے رجوع کرتیں؛ چنانچہ جب نبیﷺ نے فرمایا: ''(قیامت کے دن) جس کاحساب کتاب ہوا، اُسے عذاب دیا جائے گا‘‘، اس پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: (یا رسول اللہﷺ!) اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: ''جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، عنقریب اس کا حساب آسان کر دیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اپنے اہل کی طرف لوٹے گا‘‘ (الانشقاق: 8 تا 9)، رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے اس اشکال کے بارے میں فرمایا: ''یہ تواُس کے لیے ہے جسے محض پیشی پر چھٹکارا مل جائے، لیکن جس کے حساب کی پوری جانچ پڑتال کی گئی، وہ یقینا ہلاک ہو جائے گا‘‘ (صحیح بخاری: 103)۔ صحیح مسلم، ح: 2876 میں یہ الفاظ ہیں: ''اور جس کے حساب کی پوری جانچ پڑتال کی گئی تو وہ عذاب سے دوچار ہو گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے الحاقّۃ: 19 تا 24 میں اسی مفہوم کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے: ''پس جس کا نامۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، وہ کہے گا: لو میرا اعمال نامہ پڑھو، مجھے یقین تھا کہ (ایک دن) مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے، پس وہ بہشتِ بریں میں پسندیدہ زندگی میں ہو گا، جس کے میوے (پھلوں کے بار سے) جھک رہے ہوں گے، (اُن سے کہا جائے گا:) اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم نے گزشتہ زندگی میں کیے، خوب مزے سے کھائو اور پیو‘‘۔
(2) ''حضرت ابوبَرزہ اسلمیؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں (اپنی جگہ سے) نہیں ہٹیں گے تاوقتیکہ اُس سے اِن سوالوں کے جواب نہ پوچھ لیے جائیں: یہ کہ اس نے اپنی زندگی کن کاموں میں بسر کی اور اس نے اپنے علم کے تقاضوں پرکس قدر عمل کیا، نیز یہ کہ اس نے مال کہاں سے اور کیسے کمایا اور کن مصارف پر صرف کیا اور اس نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو کن مشاغل میں استعمال کیا‘‘ (ترمذی: 2417)۔ پس یہ تین سوال بڑے اہم ہیں: (1) کہاں سے کمایا، (2) کیسے کمایا (3) اور کن مصارف پر خرچ کیا۔ دنیا میں بھی ان سوالوں کا جواب دینا آسان نہیں ہوتا، انسان آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہی کے تصور ہی سے لرز جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کواپنی پناہ میں رکھے!
رسول اللہﷺ نے ذخیرہ اندوزی کی ممانعت فرمائی ہے، اس ممانعت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے ذخیرہ اندوز کو لعنتی کہا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تاجر نعمتِ رزق سے نوازے جاتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا لعنتی ہے‘‘ (ابن ماجہ: 2153)، (2) ''حضرت ابو معمرؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ذخیرہ اندوزی صرف خطاکار ہی کرتا ہے‘‘ (ابودائود:3447)، (3) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے مسلمانوں کے لیے (کسی چیز کی قیمت میں غیر معمولی) اضافے کی نیت سے ذخیرہ اندوزی کی تو وہ خطا کار ہے‘‘ (مسند احمد: 8617)، (4) لوگوں کی ضرورت کے باوجود چالیس دن تک ذخیرہ اندوزی کرنے والے کے بارے میں فرمایا: ''جس نے (بازار میں طلب کے باوجود) چالیس دن تک اشیائے خوراک کا ذخیرہ کیا اور جس خاندان میں کسی شخص نے بھوک کی حالت میں (رات گزار کر) صبح کی تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ اُس سے اٹھ جاتا ہے‘‘ (مسند احمد: 4880)۔ واضح رہے: برأت کے معنی اظہارِ لاتعلقی کے ہیں اور اللہ کے ذمہ اٹھنے کے معنی ہیں: نجات کی بابت وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے محروم ہو گیا۔
حضرات عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: (مبالغہ آمیزی پر مبنی فرضی) قصے سنانے والا اللہ تعالیٰ کے غضب کا منتظر ہوتا ہے، (پوری توجہ سے قرآن) سننے والا اللہ کی رحمت کا منتظر ہوتا ہے، تاجر رزقِ (حلال) کا منتظر ہوتا ہے، ذخیرہ اندوز اللہ کی لعنت کا منتظر ہوتا ہے اور نوحہ کرنے والیوں اور ان کی ہمنشیں عورتوں پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 13567)۔ واضح رہے: جن صحابۂ کرام کا نام عبداللہ ہے، اُن کو یکجا ذکر کیا جائے تو عربی زبان میں ''عِبادِلَہ‘‘ کہا جاتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کے راویوں میں چار صحابۂ کرام کے نام میں ''عبداللہ‘‘ آتا ہے۔
علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ''اور (احادیث میں مذکور) اس قسم کے وعیدیں حرام کے ارتکاب پر ہی لاحق ہوتی ہیں اوراس لیے بھی کہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) ظلم کے باب سے ہے، کیونکہ شہر میں جو سامان فروخت ہوتا ہے، اس کے ساتھ عوام کا حق متعلق ہوتا ہے، پس جب عوام کی شدید ضرورت کے وقت کوئی شخص خریدار کو وہ چیز بیچنے سے انکار کر دے تو (درحقیقت) اس نے حق داروں سے ان کا حق روک لیا اور حق دار سے حق کا روکنا ظلم ہے، خواہ روکنے کی مدت قلیل ہو یا زیادہ، ہر صورت میں ظلم ثابت ہو گیا‘‘ (بدائع الصنائع، ج: 5، ص: 129)۔
اَلْمَوْسُوْعَۃُ الْفِقْہِیَّۃُ الْکُوَیْتِیّۃ میں ہے: ''فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے: احتکار کے حرام ہونے کی حکمت عوام الناس کو ضَرر سے بچانا ہے اور اسی لیے علماء کا اس پر اجماع ہے: اگر کسی شخص نے لوگوں کی شدید ضرورت کے باوجود کسی چیز کی ذخیرہ اندوزی کی، جبکہ لوگوں کو مارکیٹ میں وہ چیز دستیاب نہیں ہے تو اُس شخص کو ذخیرہ کی ہوئی چیز کو بیچنے پر مجبور کیا جائے گا تاکہ لوگوں سے ضَررکو دور کیا جائے(یعنی لوگوں کوضروریاتِ زندگی دستیاب ہوں)‘‘ (ج: 2، ص: 91)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے: جب کوئی مافیا منصوبہ بندی کے ساتھ اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت پیدا کرے تو حکومت کو مداخلت کر کے بازار کو معمول کے مطابق رکھنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ عوام کو استحصالی عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ نوٹ: زینت و زیبائش اورعیش وعشرت کی اشیا پر ذخیرہ اندوزی کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ ان کے بغیر انسان گزارا کر سکتا ہے اور جو لوگ ان آسائشوں کے دلدادہ ہوتے ہیں، اُن کے پاس اس کے وسائل بھی ہوتے ہیں۔
کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرنا اور لوگوں کو ضرر میں مبتلا کرنا بالاتفاق حرام ہے۔ علامہ ابن حجر الہیتمی لکھتے ہیں: ''یہ کبیرہ گناہ ہے، کیونکہ احادیث میں ایسے لوگوں پر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے، نیز احادیثِ مبارکہ میں ذخیرہ اندوز کے کوڑھ اور افلاس میں مبتلا ہونے کی شدید وعیدیں بھی آئی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی گناہ کبیرہ ہے‘‘ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج: 1، ص: 388)۔
ذخیرہ اندوزی کی مختلف صورتیں ہیں: (1) کوئی شخص اپنی زمین کا غلّہ روکے رکھے اور فروخت نہ کرے، جبکہ وہ اُس کی ضرورت سے زائد ہو، یہ جائز ہے، کیونکہ اگر اشیائے ضرورت کا ذخیرہ کرنا مطلقاً معیوب ہو، تو معمول کا کاروبار بھی چل نہیں سکتا۔ چنانچہ جب کسی غذائی جنس کی پیداوار کھیت اور کھلیان میں تیار ہو جاتی ہے تو کاشتکار اور زمیندار بھی اپنی سال بھر کی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں اور کاروباری حضرات بھی خریداری کرتے ہیں تاکہ اُسے مارکیٹ میں فروخت کرکے نفع حاصل کریں، یہ کاروبار کا فطری طریقہ ہے۔ لیکن اگر تاجرضرورت کے باوجود اپنا مال عوام الناس کو فروخت نہ کرے تاکہ قیمتیں مزید بڑھیں تو یہ گناہ ہے، کیونکہ جب لوگ تنگی میں مبتلا ہو جائیں تو اُس کو اپنی ضرورت سے زائد غلّے کو فروخت کرنا چاہیے، اگر ایسا نہ کرے تو اسے اس پر مجبور کیا جائے گا۔
(2) کوئی شخص غلّہ، چینی، دالیں اور دیگر غذائی اجناس خرید کر ذخیرہ کرکے روک لیتا ہے، پھر مارکیٹ میں اُس جنس کی طلب بڑھتی چلی جاتی ہے اور طلب کے مقابلے میں رسد کم ہونے کی وجہ سے اجناس اور اشیائے ضرورت کی انتہائی قلّت ہو جاتی ہے، پھر مارکیٹ پر ایسے ذخیرہ اندوزوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں قیمتوں میں غیر فطری طریقے سے غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ جب لوگ قحط اور قلّت کا شکار ہو جائیں تو اُن کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مال بازار میں لاکر منہ مانگے داموں فروخت کرے اور زیادہ منافع کمائے، یہ صورت حرام ہے۔ رسول اللہﷺ نے ایسے شخص کو ملعون قرار دیا ہے، ایسے ہی استحصالی طبقات کو آج کل ''مافیا‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ قلّت مصنوعی ہوتی ہے اور اس میں ذخیرہ اندوز لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر غیر معمولی نفع حاصل کرتے ہیں۔
(3) بازار میں کسی جنس کی فراوانی ہے اور لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلت کا سامنا نہیں اور نرخ بڑھانے کی غرض سے اس جنس کو سٹاک نہیں کیا جاتا، ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، لیکن اگر کوئی گرانی کے انتظار میں غلے کو روکے رکھتا ہے، یہ عمل کراہت سے خالی نہیں۔ شریعت نے لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں: ہمارا مال ہے ہم جس طرح چاہیں خریدیں اور جس طرح چاہیں فروخت کر دیں، ان کو اس حدیث سے عبرت حاصل کرنا چاہیے: ''فروخ کہتے ہیں: اپنے دورِ خلافت میں ایک دن حضرت عمر فاروقؓ مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں اُنہیں جگہ جگہ غلّہ نظر آیا، اُنہوں نے پوچھا: یہ غلّہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا: یہ درآمد کیا گیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: اللہ اِس میں برکت دے اور اُس شخص کو بھی جس نے اِسے درآمد کیا ہے۔ لوگوں نے کہا: امیر المومنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے۔ آپؓ نے پوچھا: کس نے ذخیرہ کر کے رکھا تھا؟ لوگوں نے بتایا: امیرالمومنین! آپ کے آزاد کردہ فلاں غلام اور حضرت عثمانؓ کے آزادہ کردہ غلام فروخ نے ذخیرہ کیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اُن دونوں کو بلوا بھیجا اور فرمایا: تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی؟ اُنہوں نے عرض کیا: امیر المومنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگ دستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کر دیتا ہے۔ فروخ نے یہ سن کر اُسی وقت کہا: امیرالمومنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمرؓ کا آزاد کردہ غلام اپنی بات پر اَڑا رہا۔ ابو یحییٰ کہتے ہیں: بعد میں جب میں نے حضرت عمرؓ کے غلام کو دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو چکا تھا‘‘ (مسند احمد: 135)۔ (جاری)