"MMC" (space) message & send to 7575

پاکستان کا ازکار رفتہ عدالتی نظام …(حصہ دوم)

جسٹس منیر احمد سے لے کر جسٹس عمر عطا بندیال تک ہماری عدالتی تاریخ ناخوشگوار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ نے جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کی توثیق کی اور انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ اسی طرح آگے چل کر جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں ایک بار پھر سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے'' coup d'tat‘‘ کی توثیق کی اور انہیں بن مانگے تین سال تک آمرانہ حکومت کے ساتھ ساتھ آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دیا۔ ''کُو دیتا‘‘ سے مراد مسلح گروہ کا قانونی طور پر قائم حکومت کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لینا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سزائے موت کو آج بھی ''عدالتی قتل‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، پہلے جسٹس مولوی مشتاق احمد کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ صادر کیا اور بعد میں چیف جسٹس انوار الحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے منقسم فیصلے سے اس کی توثیق کی۔ پی سی اے کا حلف اٹھانے والوں کی تو طویل فہرست ہے۔
2007ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو پرویز مشرف نے معزول کیا تو عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں جسٹس افتخار محمد چودھری اپنے منصب پر بحال ہوئے۔ اس تحریک کے سرخیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا: ''ججز بحالی تحریک نے ہمیں متکبر جج اور متشدد وکلا دیے‘‘۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے فرض کر لیا کہ اُن کے پاس خدائی اختیارات آ گئے ہیں، (معاذ اللہ) پس انہوں نے ہر حکومتی منصب دار اور عہدیدار کی تحقیر، توہین اور تذلیل کو اپنا من پسند مشغلہ بنا دیا، جو کسی نہ کسی انداز میں تاحال جاری ہے۔ انہوں نے اُس وقت کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو چند سیکنڈ کی سزا دے کر اپنے منصب سے معزول کر دیا، یہ بھی پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک منفرد تجربہ تھا، جو وراثت میں عدلیہ کو منتقل ہوا اور پھر اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز انداز میں منتخب وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کر دیا گیا جو آج بھی عدلیہ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ نہ کوئی اس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ کسی کے پاس اس کا جواز ہے‘ یہ سب ایک انجینئرڈ عدالتی تجربہ تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزول جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس پر سے پردہ اٹھایا کہ ہماری معزز اعلیٰ عدالتیں کہاں سے کنٹرول ہو رہی تھیں، فیصلے کہاں لکھے جا رہے تھے، کوئی کرنل لیاقت علی نامی منصب دار تحریر شدہ فیصلے ججوں کو پہنچاتے تھے اور وہ اس پر مہرِ تصدیق ثبت فرما دیتے تھے، اس کے اور بھی کئی شواہد بعد میں سامنے آئے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیل کی پرائیویٹائزیشن، رکوڈک اور کارکے رینٹل کے بین الاقوامی معاہدوں کو از خود اختیار کے تحت دخل اندازی کر کے ختم کیا اور اس کی پاداش میں ملک پر اربوں ڈالرجرمانے ہوئے۔ یہی نتیجہ براڈشیٹ معاہدے کا برآمد ہوا۔ لیکن ہماری سپریم کورٹ کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ کم از کم تاریخی ریکارڈ کی درستی کی حد تک ان تمام فیصلوں پر نظر ثانی کرتی تاکہ قانون، سیاست اور تاریخ کے طلبہ کو معلوم ہوتا کہ ہمارے ملک کے عدالتی نظام کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ ہوتا رہا ہے۔ بعض ذرائع سے معلوم ہوا: ممکنہ طور پر سعودی عرب نے پاکستان میں ایک بڑی انویسٹمنٹ کا وعدہ کیا ہے، لیکن اُس کی شرط یہ ہے کہ تنازع کی صورت میں معاملہ پاکستانی عدالت میں نہیں جائے گا، بلکہ عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا جائے گا، یہ ہماری عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔
آرمی چیف کی توسیع کی بابت تو سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ طاقت کا کرشمہ ہے، لیکن اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ سودے بازی کر کے اپنی توسیع کے لیے سازش کر رہے تھے، لیکن جب وہ ناکام ہو گئے تو چیف کی توسیع کو تماشاگاہِ عالم بنا دیا۔ پھر اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے سے بڑھ کر توسیع کے اس ''اعزاز‘‘ کی ''دستارِ فضیحت‘‘ کو اپنے اپنے سر باندھنے کے لیے تیار ہو گئے۔ نوٹ: ''فضیحت ‘‘کے معنی ہیں:''رسوائی اور بے آبروئی‘‘۔
جسٹس ثاقب نثار نے تو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب کو پنجابی فلموں کے ''مولا جٹ‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ موصوف تفتیشی پولس کی طرح چھاپہ مار کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے تھے، پھر ان کو ڈیم بنانے کی سوجھی اور چندہ مہم شروع کر دی، حالانکہ دنیا میں قومی منصوبے چندوں سے نہیں بنا کرتے۔ آج یہی چیزیں اُن کا مذاق بن کر رہ گئی ہیں، لیکن یہ لوگ ' ''چکنا گھڑا‘‘ بن جاتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگوں کے نزدیک عزت اور ذلّت کے معنی بدل جاتے ہیں، پستی کو رفعت سمجھ لیا جاتا ہے اور تنزّل کو عروج گمان کیا جاتا ہے۔ ولی دکنی نے کہا تھا:
پہلے جو ''آپ‘‘ کہہ کر بلاتے تھے‘ اب وہ ''تُو‘‘ کہتے ہیں
وقت کے ساتھ ''خطابات‘‘ بدل جاتے ہیں
پہلے تھے میخانہ میں‘ اب ہیں مسجد میں ''ولیؔ‘‘
عمر کے ساتھ مقامات بدل جاتے ہیں
ایسے لوگوں کو تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود اپنے چہرے سے شرم آنی چاہیے، لیکن جب حیا کی کوئی رمق باقی نہ رہے تو بے شرمی افتخار بن جاتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: لوگوں نے کلامِ نبوت سے جو دانش پائی، اُس کا نچوڑ یہ ہے: جب تم میں حیا نہ رہے، تو جو چاہو کرتے پھرو‘‘ (صحیح بخاری: 3484)۔ فارسی کا مقولہ ہے: ''بے حیا باش! ہرچہ خواہی کُن‘‘۔ حیا ہی انسانیت کا وہ جوہر ہے، اَخلاق کا وہ ملکہ ہے، شرافت کا وہ عنوان ہے، نجابَت کا وہ اعزاز ہے کہ اگر انسان کے ضمیر میں اُس کی کوئی رمق ہو تو وہ اُس کے لیے ہر شر کے راستے میں سدِّراہ بن جاتی ہے، بے حیائی اور انسانی وقار کے منافی باتوں سے اور کاموں سے روکتی ہے، اُسے خَلقِ خدا کے سامنے رُسوا ہونے کا خوف لاحق رہتا ہے، اُس کے نزدیک اُس کی ساری متاعِ حیات وکائنات انسانی شرف، عزت و وقار اور افتخار ہوتی ہے۔
پھر جسٹس عمر عطا بندیال نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ سپریم کورٹ جیسے مؤقّر، معزّز اور معتبر ادارے کو تقسیم کرکے رکھ دیا، اُن میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہ رہی کہ فل کورٹ کا کوئی اجلاس منعقد کرتے اور اپنے ساتھی ججوں کا سامنا کرتے، مگر کیسے کرتے، اُن کے اپنے کرتوت اُن کے سامنے تھے۔ جب ایک جسٹس صاحب کی چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ آڈیو لیک آئی تو عدالتی وقار کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس کی تحقیق مکمل ہونے تک جسٹس صاحب اپنے آپ کو منصبِ عدالت سے الگ رکھتے،مگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں بنچ میں اپنے ساتھ بٹھا کر کہا: ''میں انہیں اپنے ساتھ بٹھاکر پیغام دینا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ پیغام یہی تو تھا کہ منصب عدالت اور اخلاقیات دو متضاد چیزیں ہیں، کوئی اخلاقی برتری اور افتخار کے بغیر بھی جج بن سکتا ہے۔ پھر جب ان آڈیو لیکس کی انکوائری کے لیے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے اُس وقت کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ اور اسلام آباد و بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیشن بنایا، تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بنچ بنا کر اُسے معطل کر دیا اور کام کرنے سے روک دیا، کیونکہ اس میں چیف جسٹس کا خاندان بھی ملوث تھا۔ غلاظت پر مٹی ڈالنے سے اُس کی حقیقت بدل نہیں جاتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر لازم ہے کہ وہ اُس کمیشن کا اِحیا کریں اور تحقیقات کا رکا ہوا سلسلہ مکمل کریں تاکہ آنے والے ادوار میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے لیے کوئی اخلاقی معیار متعین ہو۔ وہ عزت و وقار جو منصب کا مرہونِ منّت ہو، محض عارضی چیز ہے، منصب سے معزول ہونے کے بعد عزت و وقار کا مصنوعی خول اتر جاتا ہے اور حقیقت سامنے آ جاتی ہے، پھر معاشرہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسی شخص کا مقام کیا ہے۔ جسٹس بابر ستار نے بھی جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک پر حکمِ امتناع جاری کیا۔ منصبِ عدالت کا تقاضا تو یہ ہے: ''کھرے کو کھوٹے سے، سچ کو جھوٹ سے اور نور کو ظلمت سے ممتاز کیا جائے‘‘۔ حبیب جالب نے کہا تھا:
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گُہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
یہ اہل حَشم، یہ دارا و جم، سب نقش بر آب ہیں، اے ہم دم!
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب‘ اے اہل وفا! رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو، معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا، کیا لکھنا
لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری، کی ہم نے ہی انہی کی غم خواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم، شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی، اے دوست! ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا، کیا لکھنا
ہر شام یہاں شامِ ویراں، آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے، وہ شہر دلِ برباد کہاں
صحرا کو چمن، بَن کو گلشن، بادل کو رِدا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا، کیا لکھنا
اے میرے وطن کے فن کارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں