Short Sight کو ہم اردو میں ''کوتاہ نظری‘‘ اور ''کوتاہ بینی‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ Short Sighted کو عربی میں ''قَلِیْلُ التَّبَصُّر‘‘کہتے ہیں، یعنی جو دور اندیش نہ ہو، عاقبت نااندیش ہو، وقتی چمک دمک اور وقتی فائدے کو دیکھے، دیرپا فوائد کو سمجھنے کی بصیرت وصلاحیت سے محروم ہو، ایسے لوگوں کو بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑتا ہے۔ یہ ضرب المثل اسی ذہنی ساخت کے لیے استعمال ہوتی ہے: ''اَب پَچھتائے کیا ہووت جَب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔
یہ تمہیدی کلمات ہم نے اس لیے لکھے ہیں کہ ہمارے ہر دور کے حکمران کوتاہ نظر اور کوتاہ بیں (Short Sighted) ہوتے ہیں۔ وہ وقتی اور عارضی مفادات و خواہشات کے اسیر ہوتے ہیں اور دور اندیشی کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ دور اندیش (Visionary) ایسے شخص کو کہتے ہیں جو وقتی مفادات و خواہشات کا اسیر نہ ہو، طویل المقاصد اور دیرپا مفادات اُس کے پیشِ نظر ہوں، وہ ملک و قوم کو اپنی ذات سے بالاتر سمجھے، وہ ایسے اقدامات اور ایسے فیصلے کرے، جس کے فوائد و ثمرات ملک و قوم کو عشروں تک ملتے رہیں، خواہ اس کا اقتدار رہے یا نہ رہے، لیکن ملک کے دیرپا مفادات دائوں پر نہ لگیں۔ افسوس اور صد افسوس! ہم ایسی صاحبِ بصیرت قیادت سے محروم ہیں، اسی لیے علمِ سیاست کے ماہرین نے عارضی مفادات کے اسیر سیاسی رہنما اور مدبّر سیاست دان (Statesman) میں فرق کیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایسے ہی مدبّر سیاست دان تھے، جن کی قیادت میں برصغیر کے محکوم مسلمانوں نے پاکستان کی صورت میں ایک آزاد وطن حاصل کیا۔ اگرچہ ہمارے بعد کے حکمرانوں کی بے تدبیری اور کوتاہ نظری کی وجہ سے 16 دسمبر1971ء کو ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا۔ جون ایلیا نے کہا تھا:
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
یہاں ''مَیں‘‘ سے پاکستانی قوم مراد لے لی جائے تو یہ شعر ہماری قومی اور ملّی بے حسی کی صحیح تصویر ہے، کیونکہ آج تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ آدھے ملک کو گنوانے کا ذمہ دار کون ہے۔ حمود الرحمن کمیشن بنا، لیکن نہ اس کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی، نہ اُس کی سفارشات پر عمل کیا گیا اور نہ کسی قومی مجرم کا تعیّن کیا گیا۔ حیرت کا مقام ہے: ملک دو لخت ہو جائے اور کوئی عدالتِ انصاف بھی نہ لگے، نہ کسی کو سزا ملے اور نہ کوئی مجرم قرار پائے، بلکہ اُس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو‘ جن پر بظاہر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا اور جو وطن کی حفاظت کی خاطر جان کے نذرانے پیش کرتے رہے، اُن کا مرثیہ فیض احمد فیضؔ کے ان اشعار میں صحیح طور پر بیان کیا گیا ہے:
''کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سُراغ ٭ نہ دست و ناخنِ قاتل، نہ آستیں پہ نشاں ٭ نہ سرخیِ لبِ خنجر، نہ رنگِ نوکِ سِناں ٭ نہ خاک پر کوئی دھبہ، نہ بام پر کوئی داغ ٭ کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سراغ ٭ نہ صَرفِ خدمتِ شاہاں، کہ خوں بہا دیتے ٭ نہ دیں کی نذر، کہ بیعانۂ جزا دیتے ٭ نہ رَزم گاہ میں برسا، کہ معتبر ہوتا ٭ کسی عَلم پہ رقم ہو کے، مشتہر ہوتا ٭ پکارتا رہا بے آسرا، یتیم لہو ٭ کسی کو بہرِ سَماعت، نہ وقت تھا، نہ دماغ ٭ نہ مُدَّعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا ٭ یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا‘‘
یہ عنوان اس لیے ہمارے ذہن میں آیا کہ پی ٹی آئی نے ''القادر ٹرسٹ‘‘ کے رجسٹرڈ نہ ہونے کی بابت اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے۔ پی ٹی آئی دور میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے ایک ہی دن میں تینتیس قوانین منظور کیے گئے تھے، اُن میں وقف (Trust) کا قانون بھی شامل تھا۔ اُس وقت اِس قانون پر شدید احتجاج کیا گیا تھا کہ یہ وقف کے اسلامی اور مسلّمہ عالَمی قوانین کے خلاف ہے، وقف کا قانون برطانوی استعمار کے دور میں بھی موجود تھا اور پاکستان کو وراثت میں ملا۔ وقف صرف مساجد و مدارس ہی کے نہیں ہیں، بلکہ ارب کھرب پتی گروپوں اور خاندانوں کے درجنوں ٹرسٹ ہوتے ہیں، وہ سب اس سے متاثر ہوئے۔ اُس وقت قومی اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر نے ہم سے وعدہ کیا: آپ لوگ اس قانون میں ترامیم کرکے لے آئیں، ہم قومی اسمبلی سے منظور کرا دیں گے، اُن کو ترامیم بھیجی گئیں، پھر انہوں نے کہا: ان ترامیم کو ایک باقاعدہ ''ترمیمی بل‘‘ کی قانونی شکل میں مرتّب کر کے بھیجیں، یہ کام بھی کر دیا گیا، لیکن پھر انہوں نے وعدہ وفا نہ کیا۔ اُس وقت کی حکومت نے کہا: ہم اس قانون کے نفاذ پر زور نہیں دیں گے اور معاملات جس طرح چل رہے ہیں، چلتے رہیں گے۔
پھر بعض صوبائی حکومتوں نے سابق اوقاف کی تنسیخ کے اشتہارات شائع کر دیے، اللہ کی قدرت دیکھیے: آج جنابِ عمران خان کا اپنا ''القادر ٹرسٹ‘‘ اُن کے اپنے بنائے ہوئے قانون کی زد میں ہے، کیونکہ اس قانون کے تحت سابق اوقاف منسوخ ہو چکے ہیں اور اُن کی تجدید کو دسیوں محکموں کی تصریح (Clearance) اور سندِ عدمِ اعتراض (No Objection Certificate) کے ساتھ مشروط کر دیا گیا تھا۔ نیز وقف دائمی ہوتا ہے، جبکہ اُس متنازع قانون کے تحت اس پر ہر سال دو سال بعد وقتاً فوقتاً تجدید (Renewal) کی شرط لگا دی گئی تھی، آج خان صاحب خود اُسی کو بھگت رہے ہیں۔ فارسی کہاوت ہے: ''چَرا کارے کُنَد عاقِل کہ باز آیَد پَشیمانی‘‘ یعنی اے مردِ دانا! ایسا کام کرتے ہی کیوں ہو کہ جس پر بعد میں نَدامت اٹھانی پڑے۔ اسی طرح وقف کا متولّی بننے کا شرعی و قانونی استحقاق اُسی کا ہے جس نے وقف قائم کیا ہے یا جسے وہ مقرر کرے۔ ہماری فقہ کی کتابوں میں ہے، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''واقف کی شرط مفہوم، دلالت اور وجوبِ عمل میں نصِّ شارع کی طرح مؤثر ہوتی ہے‘‘ (ردالمحتار علی الدر المختار، ج: 4، ص: 433)۔
چنانچہ خان صاحب اپنے القادر ٹرسٹ کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، مگر کسی نے سچ کہا ہے: ''اے بادِ صبا! ایں ہمہ آوردۂ تُست‘‘، یعنی یہ قانون آپ ہی کا عطا کردہ تحفہ ہے، جس کی زد میں اب آپ خود بھی آچکے ہیں۔
خان صاحب نے اپنے پیروکاروں کا ایسا گروہ تیار کیا ہے جن کے نزدیک اُن سے خطا کا صدور ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی کسی خطا کی نشاندہی کرے گا، تو اُسے طعن و تشنیع اور ملامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے نزدیک عصمت انبیائے کرام علیہم السلام کا خاصّہ ہے اور اُن کے بعد اللہ تعالیٰ کے وہ مقرب اور محبوب بندے ہیں، جنہیں وہ اپنے فضل و کرم سے فکری اور عملی لغزش سے محفوظ فرما دے، ورنہ مشہور مقولہ ہے: ''انسان خطا کا پتلا ہے‘‘ اور تمام انسانیت کے جدِّ اعلیٰ وجَدّۂ عُلیا حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی سنتِ مبارکہ یہ ہے کہ خطا ئے اجتہادی کا بھی صدور ہو جائے تو اس کا اعتراف کر کے رب تبارک وتعالیٰ سے توبہ کے لیے رجوع کرنا چاہیے، چنانچہ جب وہ ممنوعہ درخت کے قریب چلے گئے اور پھر اپنے کیے پر نادم ہوئے تو قرآنِ کریم میں فرمایا: ''پھرآدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے (توبہ کے) کلمات سیکھ لیے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی بہت توبہ قبول فرمانے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ:37)، نیز فرمایا: ''دونوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تونے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارے میں ہوں گے‘‘ (الاعراف: 23)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: ''اور مچھلی (کے پیٹ میں جانے) والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کیجیے، جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہوکر نکلے تو انہوں نے گمان کیا کہ ہم ہرگز ان پر تنگی نہیں کریں گے، پھر انہوں نے (تہہ در تہہ) ظلمتوں میں پکارا: (اے اللہ!) تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے، بے شک میں (ہی) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا، تو ہم نے ان کی دعا قبول کر لی اور ان کو غم سے نجات دی اوراسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں‘‘ (الانبیاء: 87 تا 88)۔
نیب کا ادارہ سیاست دانوں کو دبائو میں لانے اور بلیک میلنگ کے لیے قائم کیا گیا تھا، اس کی ساخت ہی میں بدنیتی کارفرما تھی، اس سے قوم کی صَلاح و فلاح کبھی بھی مقصود نہیں رہی۔ فارسی شاعر نے کہا ہے:
خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تابہ اوجِ ثریا می رود دیوار کَج
مفہومی ترجمہ: ''جب معمار کسی بلند و بالا عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی رکھے تو وہ عمارت ثریا کی بلندیوں تک ہی کیوں نہ اٹھالی جائے، اُس کی کجی نہیں جائے گی‘‘۔ چنانچہ باری باری سب حکمران جماعتیں نیب کا شکار ہوئیں، لیکن سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے لیے بدنیتی کا شاخسانہ ہے کہ جب ایک نشانہ بنتا ہے تو دوسرے لطف اٹھاتے ہیں اور جب دوسرے کی باری آتی ہے تو پہلے لطف اٹھاتے ہیں کہ ہم تو بھگت چکے، اب یہ بھی بھگتیں، لیکن ایک دوسرے کے بارے میں بدنیتی اور بدخواہی کے سبب یہ سب متفق ہو کر آئینی ترمیم کے ذریعے اس ادارے کو ختم نہیں کرتے، جس پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے رہے اور حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ بلکہ اس کے بجائے ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے محکموں کو بااختیار اور آزاد بنا کر یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ ہر دور کی حکومت اپنا کام کرے اور یہ ادارے آزادانہ طور پر اپنا کام کرتے رہیں، جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے، بشرطیکہ ہر دور کے حکمران ان محکموں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال نہ کریں، نیب چیئرمین جاوید اقبال کا دور بلیک میلنگ کی بدترین مثال تھا۔
پس ہماری نظر میں ملک و ملّت کے مفاد میں یہی ہے کہ ایک قومی میثاق مرتّب کیا جائے، اُسے سب سیاسی جماعتیں تسلیم کریں، انتخابی و احتسابی نظام کو بااعتبار بنائیں، قوم آزادانہ انتخاب کے ذریعے جس کو زمامِ اقتدار سونپے، اُسے سب تسلیم کریں، لیکن وہ بھی اقتدار کو ذاتی انتقام اور دوسروں کو نیست و نابود کرنے کے لیے استعمال نہ کرے۔ یہ ملک سب کا ہے اور سب نے یہیں رہنا ہے، پس ''جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی اپنانی چاہیے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب مل بانٹ کر کھائیں، بلکہ سب مل کر اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں۔