حضرت امام جعفرصادقؓ حکامِ وقت سے اُلجھنے کو پسند نہیں کرتے تھے‘ اُنہوں نے خلافت کے مسئلے پر کسی سے بھی تنازع و مخاصمت کی اور نہ اپنی خلافت کیلئے بیعت کا مطالبہ کیا‘ اس معاملے میں وہ اپنے والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے رہے‘ جوارِ رسول کو اپنے اوپر لازم کر لیا اور اپنے عہد کی سیاست سے کنارہ کش رہے۔ اس شِعار کو صرف ان کے عم محترم حضرت امام زید بن علیؓ نے حالات سے مجبور ہو کر ترک کیا‘ اُنہیں اتنا ستایا اور پریشان کیا گیا کہ خروج کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ نہ تھا۔ اہلِ عراق نے بڑی شدومد اور چاہت کے ساتھ انہیں بلایا‘ لیکن رسمِ وفا نباہ نہ سکے‘ انہوں نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور نصرت و اعانت سے گریز کیا۔ یہی روش اس سے قبل اُنہوں نے حضرت امام عالی مقام سیدنا حسین اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی اختیار کی اور شاید یہی وہ تجربہ اور مشاہدہ تھا‘ جس نے امام جعفر صادقؓ کو مدینہ منورہ سے باہر نکلنے نہ دیا۔ وہ اس حقیقت کے شناسا تھے کہ کسی مستحکم حکومت کے خلاف جو سرگرمیاں شروع کی جائیں اور تحریکیں چلائی جائیں‘ وہ اقامتِ حق اور ابطالِ باطل کیلئے مفید و معین نہیں ہو سکتیں‘ کیونکہ حکومت و اقتدار کی حرص و طمع میں انسان نفسانی خواہشات کا اسیر ہو جاتا ہے‘ تفہیم و تفہم میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے‘ اوہام چھاجاتے ہیں اور حقیقت چھپ جاتی ہے۔ ان سب باتوں سے ماورا امام صادق سمجھتے تھے کہ خروج اور بغاوت کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ فتنے اور مظالم بڑھ جاتے ہیں‘ ان فتنوں سے معاملات اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں اور انارکی پھیلتی ہے‘ سو آپ نے ان تحریکات کا حصہ بننے کے بجائے فروغِ علم کو اپنا مشن بنایا اور اُن لوگوں کے لیے منبعِ علم بن گئے تھے جو کسبِ فیض اور تحصیلِ علم کیلئے آپ کے آستانے پر حاضر ہواکرتے تھے اور یہی وہ شعار ہے جس کے ثمر بخش نتائج ایک حقیقتِ ثابتہ کی طرح نمایاں ہیں۔
امام جعفر صادقؓ کے اقوالِ زریں: مروّت جھوٹے کیلئے‘ راحت حاسد کیلئے‘ اُخوت تنگ دل کیلئے اور سرداری بداخلاق لوگوں کیلئے نہیں ہوتی ٭اللہ کے حرام کیے ہوئے کاموں سے رُکے رہو‘ مدبر بن جائو گے‘ اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی رہو‘ اطاعت گزار بن جائو گے ٭لوگوں کے ساتھ اُسی اخلاق سے ملو جس کی توقع تم دوسروں سے کرتے ہو‘ ایمان والے بن جائو گے ٭فاجر کی صحبت میں نہ بیٹھو کہیں وہ تمہیں اپنی بدکاریاں نہ سکھا دے۔ نبی کریمﷺکا فرمان ہے: ''آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘ لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے: وہ دیکھے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے‘‘ ( ترمذی: 2378) ٭اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والوں سے مشورہ کیا کرو ٭مجھے میرے والدِ گرامی نے تین باتیں سکھاتے ہوئے فرمایا: بیٹے! جو برُے آدمی کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ سلامت نہیں رہتا‘ جو برائی کی جگہ جاتا ہے اس پر تہمت لگتی ہے اور جو اپنی زبان قابو میں نہیں رکھتا وہ نادم ہوتا ہے۔ چند لوگوں کی صحبت اختیار نہ کرو: بہت جھوٹا شخص‘ ورنہ تم اس سے دھوکا کھائو گے‘ بے وقوف آدمی‘ اُس سے تمہیں فائدے کے بجائے نقصان پہنچے گا‘ بخیل شخص‘ کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا‘ بزدل شخص‘ کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں پیٹھ دکھاکر بھاگ جائے گا (احیاء علوم الدین‘ ج: 2، ص: 214)۔
مزید فرماتے ہیں: علم مسلمان کا دوست‘ بردباری اس کا وزیر‘ عقل اس کا سپہ سالار‘ نرم دلی اس کا بھائی اور نیکی اس کا باپ ہے ٭جو یہ چاہتا ہے کہ سب سے زیادہ متقی ہو جائے‘ اُسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے۔ جو اس پر خوش ہو کہ لوگوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہو‘ اُسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے اور جو چاہتا ہو کہ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہو‘ اُسے چاہیے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور جو اس بات پر خوش ہو کہ لوگوں میں سب سے زیادہ غنی ہو جائے‘ اُسے چاہیے کہ جو دولت اُس کے ہاتھ میں ہے اُس سے زیادہ اُس انعام پر بھروسا کرے جو اللہ کے دستِ قدرت میں ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ قطعی اور یقینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''جو کچھ تمہارے پاس ہے‘ وہ ختم ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے وہ لازوال ہے‘‘ (النحل: 96) ٭جسے دعا کی توفیق نصیب ہوتی ہے اُسے قبولیت بھی عطا کی جاتی ہے‘ جسے شکر کی توفیق نصیب ہوتی ہے اُسے مزید نعمت بھی عطا ہوتی ہے‘ جسے توکل کی خصلت نصیب ہوتی ہے اُس کیلئے اللہ کافی ہے۔
افضل عبادت اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی قدرت میں مسلسل غور و فکر کرتے رہنا ہے٭عدل اس پانی سے زیادہ شیریں ہے جو کسی پیاسے کو مل جائے‘ عدل کم بھی ہو تو اُس کے ثمرات وسیع ہوتے ہیں ٭اپنا محاسبہ خود کرو‘ قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے ٭روزے دار کا سونا عبادت‘ اس کی خاموشی تسبیح‘اس کا عمل اور اس کی دعا مقبول ہے ٭تمہارے ہر ہر انگ پر‘ بلکہ ہر پلک جھپکنے‘ ہر بُنِ مُو اور ہر سانس پر زکوٰۃ واجب ہے‘ اس سے مراد نعمتوں کا شکر بجا لانا اور ان نعمتوں کو اللہ کی بندگی میں استعمال کرنا ہے‘ آنکھ کی زکوٰۃ عبرت کی نظر سے دیکھنا اور خواہشاتِ نفس سے آنکھیں بند کر لینا ہے‘ کان کی زکوٰۃ علم‘ حکمت‘ قرآنِ کریم اور مواعظِ حسنہ کو توجہ سے سننا ہے‘ غیبت اور اس جیسے امور سے بچنا واجب ہے۔ زبان کی زکوٰۃ ہر مسلمان کیلئے خیرخواہی‘ غافلوں کو خوابِ غفلت سے جگانا‘ کثرت سے تسبیح و ذکر میں مشغول رہنا‘ ہاتھ کی زکوٰۃ سخاوت کا مظہر بن کر اللہ کے دیے ہوئے مال اور اُس کی نعمتوں کو اُس کی راہ میں خرچ کرنا ہے‘ ہاتھوں کو علمی باتیں لکھنے اور ایسے فائدہ بخش کام کرنے کیلئے حرکت دینا جن سے مسلمان اللہ کی اطاعت کر کے نفع اٹھائیں‘ پائوں کو اللہ کے حقوق ادا کرنے میں استعمال کرنا‘ نیک لوگوں سے ملنے جانا ٭تمہیں اپنے نفس کا طبیب بنایا گیا ہے‘ تمہارا مرض بھی واضح کر دیا گیا ہے‘ صحت کی علامات بھی تمہیں بتا دی گئی ہیں‘ دوا تک تمہاری رہنمائی بھی کردی گئی ہے‘ پس دیکھو کہ تم اپنے نفس کا کس طرح خیال رکھتے ہو ٭ انسان کیلئے سب سے نفع بخش چیز یہ ہے کہ لوگوں کے عیوب کی پردہ دری کے بجائے اپنے عیبوں پر نظر رکھے۔
اہلِ عقل و خرد اخوانِ باصفا اور وفادار دوستوں کی قلت کی وجہ سے گوشہ نشینی اختیار کرتے ہیں‘ ورنہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اَبرار و صالحین اور اَخیارِ متقین سے میل جول تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر ہے اور جو شخص نکوکاروں کی صحبت کو ترک کرتا ہے تو وہ لازمی طور پر بروں کی صحبت میں مبتلا ہو جاتا ہے ٭جو شخص اپنا غصہ ضبط کر لے‘ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اُس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے‘ جس شخص نے انتقام پر قدرت کے باوجود اپنے غصے کو ضبط کیا‘ اللہ تعالیٰ اُس کے قلب کو قیامت تک امن و ایمان سے بھر دے گا‘ نیز فرمایا: صبر و ضبط کر کے غصے کو پی جانا‘سب سے اچھا گھونٹ ہے ٭حیا ایمان کا جز ہے اور ایمان جنت کا سبب ہے‘ ریاکاری جفا ہے اور جفا جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہے ٭(دنیا سے بے رغبتی کی بابت) فرمایا: زاہد وہ ہے جو دنیا کی حلال چیزوں کو حساب کے خوف سے چھوڑ دے اور حرام چیزوں کو عذاب کے خوف سے ترک کر دے ٭اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ترین وہ ہے: جو اپنے قول میں زیادہ سچا‘ اپنی نمازوں کا پابند اور ادائے امانت کے ساتھ اپنے اوپر عائد فرائض کو ادا کرنے والا ہے ٭جس کوکسی چیز پر امین بنایا گیا‘ پھر اس نے امانت ادا کر دی تو اُس نے اپنی گردن سے نارِ جہنم کے ہزار طوق اتار دیے‘ پس تم ادائے امانت میں جلدی کرو ٭اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو‘ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی اور تم دوسروں کی عورتوں کے سامنے نظریں نیچی رکھو‘ تمہاری عورتوں کی عفَّت بھی محفوظ رہے گی۔
نوٹ: چونکہ ادارے کی پالیسی کے تحت کالم کا حُجم کم ہو گیا ہے‘ اس لیے آئندہ ہمارے کالم ماضی کی بہ نسبت اٹھارہ سو الفاظ سے کم ہوکر تیرہ سو الفاظ تک محدود ہوں گے۔