مندرجہ بالا عنوان کے تحت چھ اقساط شائع ہو چکی ہیں، اسی سلسلے کی ساتویں قسط درج ذیل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ‘، بہت حرام خور (رشوت کھانے والے)‘‘ (المائدہ: 42)، 'سُحت‘ میں وہ تمام صورتیں آ جاتی ہیں جن کے ذریعے حرام طریقہ سے دوسرے کا مال حاصل کیا جائے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا: 'سُحت‘ کا کیا معنی ہے، انہوں نے کہا: رشوت، پھر سوال کیا: فیصلے پر رشوت لینے کا کیا حکم ہے، انہوں نے کہا: یہ کفر ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ (احکام) کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں‘‘ (سنن کبریٰ للبیہقی: ج: 10، ص: 234)، یہاں کفر کو 'کفرانِ نعمت‘ پر محمول کیا جائے گا۔
احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘ (ابن ماجہ: 2313)، (2) ''رشوت دینے والے‘ رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان دلالی کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے‘‘ (مستدرک: 7068)، (3) ''فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘ (ترمذی: 1336)۔ ہمارے عرف میں رشوت لینے والے کو 'راشی‘ کہا جاتا ہے حالانکہ درحقیقت رشوت دینے والا 'راشی‘ اور رشوت لینے والا 'مُرتشی‘ کہلاتا ہے۔ نوٹ: اپنے جائز حق کو لینے یا اپنی جان و مال کو ظلم سے بچانے یا حاکم وقت کے ساتھ اپنے کسی جائز حق کے حصول کی خاطر رابطہ استوار کرنے کیلئے رشوت دینا ہرگز عزیمت اور پسندیدہ بات نہیں ہے، یہ جواز اس اضطراری صورت کیلئے ہے کہ جائز طریقے سے اپنے حق کی مقدور بھر جدوجہد کی ہو، مگر یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئی ہوں، جیسے: بعض سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پنشن وصول کرنے کیلئے مہینوں یا برسوں دفتروں کے چکر لگاتے ہیں مگر اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں‘ بعض اوقات وفات پا جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں وہ اضطراری صورت پیدا ہو جاتی ہے جہاں فقہائے کرام نے اپنا غصب شدہ یا دبایا ہوا جائز حق لینے کیلئے رشوت دینے کی اجازت دی ہے مگر جو لوگ میرٹ کے خلاف منصب حاصل کرنے یا فائدے کے حصول کیلئے یا کسی کا حق مارنے کیلئے رشوت دیتے ہیں‘ یہ تمام صورتیں ناجائز ہیں۔
علامہ قاضی خان اوزجندی لکھتے ہیں: ''جب قاضی رشوت دے کر منصبِ قضا کو حاصل کرے تو وہ (درحقیقت) قاضی نہیں ہو گا اور قاضی اور رشوت لینے والے دونوں پر رشوت حرام ہو گی۔ رشوت کی چار قسمیں ہیں: پہلی قسم یہی ہے یعنی منصِبِ قضا کو حاصل کرنے کیلئے رشوت، اس کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ (2) کوئی شخص اپنے حق میں فیصلہ کرانے کیلئے قاضی کو رشوت دے‘ یہ رشوت جانبین سے حرام ہے۔ خواہ وہ فیصلہ حق پر ہو یا ناحق ہو، کیونکہ فیصلہ کرنا قاضی کی ذمہ داری اور فرض ہے، (اسی طرح کسی افسر کو اپنا کام کرانے کے لیے رشوت دینا بھی دونوں طرف سے حرام ہے کیونکہ وہ کام کرنا اس افسر کی ڈیوٹی ہے)۔ (3) اپنی جان اور مال کو ظلم اور ضررسے بچانے کیلئے رشوت دینا، یہ لینے والے پر حرام ہے، دینے والے پر حرام نہیں ہے (یہ اُس صورت میں ہے کہ اپنا حق حاصل کرنے کے تمام جائز طریقے اختیار کرنے کے باوجود ناکام رہا ہو)، پس اس صورت میں اپنے جائز مال کو حاصل کرنے کے لیے بھی رشوت دینا جائز ہے اور لینا حرام ہے۔ (4) کسی شخص کو اس لیے رشوت دی کہ بادشاہ (یا حاکم) کے ساتھ اس کا معاملہ استوار ہو جائے‘ تو اس رشوت کا دینا جائز ہے اور لینا حرام ہے‘‘ (فتاویٰ قاضی خان: ج: 2، ص: 200)۔
رشوت کی ایک قسم حکام کا ہدیے اور تحفے لینا ہے۔ مختلف محکموں میں رشوت کے مختلف نام ہوتے ہیں۔ کہیں پررشوت کو ہدیہ اور تحفے کا نام دیتے ہیں اور کہیں پر 'چائے پانی‘ بلکہ بعض ادوار میں اس کا نام ''اکرام‘‘ رکھا گیا تھا۔ نام بدلنے سے رشوت کی حقیقت نہیں بدلتی۔ حدیث میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو (عشر و زکوٰۃ کی وصولی کیلئے) عامل بنایا سو جب وہ عامل اپنے کام سے فارغ ہو گیا تو اس نے آ کر کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ (مال) آپ کیلئے ہے اور یہ (مال) مجھے ہدیہ میں دیا گیا ہے، پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھ گئے‘ پھر تم دیکھتے کہ تمہیں کوئی ہدیہ پیش کرتا ہے یا نہیں۔ پھر رسول اللہﷺ شام کو نماز کے بعد کھڑے ہو گئے، پس آپﷺ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعا لیٰ کی ایسی حمد و ثنا کی جو اس کے شان کے لائق ہے، پھر فرمایا: اس عامل کا کیا حال ہے جس کے سپرد ہم کوئی عمل کرتے ہیں، پھر وہ ہمارے پاس آتاہے اور کہتا ہے: یہ بیت المال کا حصہ ہے اور یہ وہ ہے جو مجھے ہدیہ کیا گیا ہے، پس وہ کیوں نہ اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر میں جا کر بیٹھا رہا، پھر دیکھتا کہ کون اس کو یہ ہدیہ دیتا ہے۔ پس اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں محمد کی جان ہے ! تم میں سے کوئی شخص (عشر، زکوٰۃ، صدقات) کے مال میں جو بھی خیانت کرے گا، وہ (سزا کے طور پر) قیامت کے دن وہ مال اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا، اگر وہ اونٹ ہو تووہ بڑبڑاتا ہوا آئے گا، اگر وہ گائے ہو تو وہ ڈکراتی ہوئی آئے گی اور اگر وہ بکری ہو تو وہ ممیاتی ہوئی آئے گی، پس میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے‘‘ (بخاری: 6636)۔
شمس الائمہ علامہ سرخسی لکھتے ہیں: ''قاضی ہدیے اور تحفے قبول نہ کرے، ہرچند کہ (اسلام میں) تحائف لینا اور دینا نہایت اچھی خصلت ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا: ''ایک دوسرے کو ہدیے دیا کروتاکہ تمہارے درمیان محبت پیدا ہو‘‘، لیکن ہدیہ لینے کا یہ جواز اُس شخص کیلئے ہے جو مسلمانوں کے حکومتی نظم میں کسی ذمہ داری پر فائز نہ ہو اور جو شخص کسی سرکاری ذمہ داری پر فائز ہو‘ جیسے قاضی اور حاکم وغیرہ، ان پر لازم ہے کہ یہ کسی سے ہدیے قبول کرنے سے احتراز کریں کیونکہ ہدیہ دینے والا کسی کا م یا فیصلے کو اپنے حق میں کرنے کیلئے ہدیہ دیتا ہے اور یہ بھی رشوت اور سُحت کی ایک قسم ہے‘‘ (المبسوط للسرخسی، ج: 16، ص: 82)۔
جب کسی سرکاری ملازم پر بدعنوانی کا الزام لگتا ہے تو اس کے خلاف انکوائری کمیٹی بنتی ہے اور انکوائری آفیسر مقرر ہوتا ہے۔ انکوائری آفیسرز کیلئے کسی سے کوئی ہدیہ لینا یا جس کی انکوائری ہو رہی ہے‘ اس کے گھر میں کھانا کھانا رشوت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت محمد بن مسلمہؓ کو حضرت عمرو بن العاصؓ کی انکوائری کیلئے بھیجا تاکہ ان کے مال کو گن لیں۔ حضرت ابن العاصؓ نے بہترین کھانا تیار کرایا مگر محمد بن مسلمہؓ نے کھانے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمروؓ نے ان سے کہا: کیا تم ہمارے کھانے کو منع کرتے ہو، انہوں نے فرمایا: اگر تم مجھے مہمان کا کھانا پیش کرتے تو میں ضرور کھاتا، لیکن تم نے مجھے وہ کھانا پیش کیا ہے جو برائی کا نذرانہ ہے۔ خدا کی قسم! میں تمہارے ہاں پانی بھی نہیں پیوں گا‘‘ (العقد الفرید لابن عبدربہ، ج: 1، ص: 46)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خدمت میں ان کے چچا زاد کی طرف سے ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ نے لینے سے نکار کردیا۔ ہدیہ پیش کرنے والے نے کہا: نبیﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے، تو آپؒ نے فرمایا: وہ آپﷺ کیلئے ہدیہ تھا لیکن آج ہمارے لیے رشوت ہے‘‘ (احیاء علوم الدین، ج: 2، ص: 156)۔اس میں ان سرکاری ملازمین کیلئے عبرت ہے جو اپنے افسرانِ بالا کی خدمت میں اس امید پر ہدیے پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کو ترقی یا مراعات سے نوازیں، یہ بھی رشوت ہی کی ایک قسم ہے۔ نبیﷺ نے رشوت کا معاملہ طے کرنے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ اکثر دفاتر میں کسی منصب پر فائز شخص خود رشوت کے معاملات طے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے ماتحتوں سے یہ کام کراتا ہے اور معاملات طے کرنے والا بھی اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ایسے لوگوں کے نام سامنے آئے جو معمولی عہدے پر ہوتے ہوئے کثیر سرمائے کے مالک نکلے۔