"MMC" (space) message & send to 7575

پوپ کا انتخاب

ایک ارب 40کروڑ نفوس پر مشتمل ''کیتھولک‘‘ مسیحیوں کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ یہ کُل مسیحیت کا تقریباً نصف ہے اور عالمی آبادی کے اٹھارہ فیصد کے برابر ہے۔ پوپ فرانسس کے انتقال کے بعد آنے والا پوپ 267واں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سینٹ پیٹر پہلا پوپ تھا‘ ہماری طرح مسیحیت میں بھی روایات میں اختلاف موجود ہے۔ رومن کیتھولک چرچ میں پوپ کے نیچے کارڈینلز ہوتے ہیں جن کا انتخاب وقتاً فوقتاً پوپ کرتے ہیں اور ان کے مشورے سے پوپ رومن کیتھولک چرچ کا نظام چلاتے ہیں۔ جب ایک پوپ استعفیٰ دیدے یا اس کا انتقال ہو جائے تو نئے پوپ کے انتخابی نظام کو''پاپَل اِنکلیو‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس وقت دنیا میں کیتھولک مسیحیت کے 133 کارڈینلز ہیں۔ ان میں ایک جوزف کٹس پاکستان سے ہے۔ نئے پوپ کے انتخاب سے پہلے کارڈینلز رازداری کا حلف اٹھاتے ہیں‘ پھر غیر متعلقہ لوگوں کو نکال دیا جاتا ہے اور وہ پوپ کا انتخاب کرتے ہیں۔ پوپ کے انتخاب کیلئے کارڈینلز کی دو تہائی سے زیادہ اکثریت درکار ہوتی ہے اور یہ تعداد 89 بنتی ہے۔ جب تک کسی ایک پوپ کو مطلوبہ حمایت نہ ملے تو چمنی سے کالا دھواں نکلتا ہے جو اس کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب تک اتفاقِ رائے سے پوپ کا انتخاب نہیں ہو سکا اور جب کسی پوپ کوکارڈینلز کی کل تعداد یا مطلوبہ تعداد کی حمایت مل جاتی ہے‘ تو چمنی سے سفید دھواں نکلتا ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ قواعد کے مطابق نئے پوپ کا انتخاب ہو چکا ہے۔ باہر لاکھوں لوگ اپنے مذہبی پیشوا کے انتخاب کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ انتخاب کے بعد پوپ اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور خطاب بھی کرتا ہے۔ ''کانکلیو‘‘ لاطینی زبان کے الفاظ کم کلیو سے نکلا ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''ایک چابی کے ساتھ‘‘۔ یہ اُس طریقۂ کار کا عکاس ہے جس کے تحت کارڈینلز کو ایک علیحدہ جگہ بند کر دیا جاتا ہے تاکہ رازداری کے ساتھ پوپ کا انتخاب ہو سکے۔ یہ پوپ اپنے سابق کا جانشین ہوتا ہے‘ وہ بشپ آف روم اور دنیا بھر میں کیتھولک چرچ کا مذہبی پیشوا بن جاتا ہے۔ پوپ کے انتخاب کیلئے کارڈینلزصبح شام دو دوبار ووٹنگ کرتے ہیں‘ جب تک قواعد کے مطابق پوپ کا فیصلہ نہ ہو جائے‘ ان بیلٹ پیپرز کو جلا دیا جاتا ہے تاکہ اختلافِ رائے کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ یہ سارا عمل ویٹیکن سٹی میں ہوتا ہے‘ جو اٹلی میں کیتھولک مسیحیت کا ایک آزاد مذہبی وروحانی مرکز ہے ۔
جب پوپ کا انتخاب ہو جاتا ہے تو ''ہبے مَس پاپام‘‘ بولا جاتا ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''سینٹ پیٹر کی مستطیل عمارت سے پوپ کا انتخاب ہو چکا ہے‘‘۔ ''بیسیلیکا‘‘ مستطیل عمارت میں ایک چرچ ہے‘ جس کا کیتھولک مسیحیت میں ایک خاص مقام ہے‘ اسے پوپ نے مخصوص اختیارات دے رکھے ہیں‘ اس کی تاریخی اہمیت ہے اور یہ اُن کی عبادت گاہ ہے۔ اس کی اصل یونانی لفظ رائل کورٹ ہے۔ سسٹن چیپل ویٹیکن کا ایک گرجا ہے جس میں مائیکل اینجلو اور دوسرے نقاشوں کے جداری نقش بنے ہوئے ہیں اور یہ عمارت رازداری کیلئے استعمال ہوتی ہے تاکہ بیرونی دبائو سے آزاد رہ کر فیصلہ کیا جائے۔ تاریخی طور پر یہ نظام تیرھویں صدی میں بنایا گیا تھا‘ جب لمبے عرصے تک پوپ کی نشست خالی رہنے کے بعد اصلاحات کی گئیں۔ 1274ء میں پوپ گریگوری ایکس کے ماتحت سخت قواعد اور طریقۂ کار بنایا گیا‘ اس میں رازداری بھی شامل ہے تاکہ پوپ کا جلد انتخاب ہو سکے۔ موجودہ طریقۂ کار ''اپاسٹولک کانسٹیٹیوشن یونیورسی ڈومینیک گریگس 1996‘‘ کے تحت ہے‘ اسے پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم (XVI) نے 2013ء میں نئی شکل دی‘ یہ کانکلیو کیتھولک چرچ کی مذہبی پیشوائیت کے تسلسل اور خالص روحانی ماحول کو یقینی بناتا ہے۔ سینٹ پیٹر پہلا پوپ تھا‘ کیتھولک روایت کے مطابق وہ مسیح علیہ السلام کا پیامبر تھا اور اُسے مسیح علیہ السلام نے خود چُنا تھا۔ پہلے اُس نے یروشلم میں کام کیا‘ پھر روم میں اور وہاں اُسے قتل کر دیا گیا۔ پوپ لاطینی زبان کے لفظ پاپا سے بنا ہے اور پاپائے اعظم سے مراد کیتھولک مسیحیت کا روحانی باپ ہے۔ سینٹ پیٹر کے بارے میں تو مسیحیت کا نظریہ یہ ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام کا الہامی انتخاب تھا‘ لہٰذا وہ کسی چنائو سے پوپ نہیں بنے تھے۔ اُن کے جانشین سینٹ لوئس تھے‘ لیکن اُن کے بعد چنائو کا طریقۂ کار اختیار کیا گیا اور بتدریج موجودہ شکل تک پہنچا۔ پوپ فرانسس کے انتقال کے بعد موجودہ امریکی پوپ رابرٹ فرانسس پریووسٹ دوسرے دن چوتھی رائے شماری میں منتخب ہوا‘ اُس نے اپنے آپ کو ''پوپ لوئی چہاردہم‘‘ کا لقب دیا ہے اور اپنے پہلے پیغام میں امن اور اعتماد سازی کیلئے پُل بننے کا کہا ہے۔
ہم نے پوپ کے انتخاب کا طریقۂ کار اس لیے لکھا کہ پوپ کی جانشینی کوئی نسبی وراثت نہیں ہے‘ وہ تو غیر شادی شدہ راہب ہوتے ہیں اور نہ اپنے جانشین کی نامزدگی کی کوئی روایت ہے۔ کیتھولک مسیحیت ہماری پیری مریدی کے تصور سے ملتی جلتی ہے‘ گویا یہ اُن کا ''پیرِ پیراں‘‘ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اُن کے ہاں جانشینی یا خلافت کیلئے کوئی قابلیت‘ اہلیت‘ علمیت اور تجربہ چاہیے‘ جو ہمارے ہاں اب مفقود ہو چکا ہے۔ امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری محدِّث بریلی نوّراللہ مرقدہٗ نے مُرشدِ طریقت کیلئے ایک معیار مقرر کیا ہے‘ آپ نے چار بنیادی شرائط رکھی ہیں: (1) مسلکِ اہلسنّت وجماعت کے مطابق صحیح العقیدہ ہو۔ (2) اپنے عقائد کے دلائل کو جانتا ہو‘ ظاہر ہے جو عقائد کے دلائل کو جانے گا تو وہ ثقہ اور مستند عالمِ دین ہوگا‘ پس اس شرط سے کسی بے علم کیلئے طریقت کا مقتدیٰ بننے کی گنجائش نہیں رہتی۔ (3) عالمِ باعمل ہو اور اپنے علم کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو‘ لہٰذا کسی بے عمل یا بدعمل کیلئے مرشدِ طریقت بننے کی گنجائش نہیں رہتی۔ (4) اس کی نسبت متصل ہو‘ نسبت کے انقطاع سے روحانی فیض کا تسلسل جاری نہیں رہتا۔ امامِ اہلسنّت کا یہ معیار ہم نے آسان الفاظ میں عوامی رہنمائی کیلئے لکھا ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا ہے: شیخِ طریقت بنانا احسن ہے‘ لیکن شریعت کی رُو سے یہ ضروری نہیں ہے‘ لہٰذا انہوں نے کہا: ''عوام کا امام کلامِ علماء‘ علماء کا امام کلامِ رسول اور رسول کا امام کلام اللہ ہے‘‘۔
آپ کیماڑی سے خیبر تک اور واہگہ سے چمن تک جائزہ لیجیے‘ کتنے پیر ہیں جو اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ جانشینی کی موروثیت نے بھی اس ادارے کو بے فیض اور بے اثر کر دیا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی پیر کی ایک سے زائد نرینہ اولاد ہو تو وہ سب خودکار طریقے سے اپنے باپ کے جانشین بن جاتے ہیں اور اس طرح عرفان‘ احسان‘ تربیت‘ تزکیہ اور تعلیمِ کتاب وحکمت پر مبنی یہ ادارہ روحانی جاگیرداری میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ اَعراس کے علاوہ اس کی کوئی دینی مصروفیت نہیں رہی۔ اس طرح کے شواہد موجود ہیں کہ پیر کی جانشینی کے مسئلے پر قتل بھی ہوئے‘ لڑائی جھگڑے بھی ہوئے‘ ایک دوسرے کی تجہیل وتفسیق بھی کی گئی۔ علامہ اقبال نے اسی کا مرثیہ ان اشعار میں پڑھا تھا: ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی؍ گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن ٭شہری ہو‘ دہاتی ہو‘ مسلمان ہے سادہ؍ مانندِ بُتاں پُجتے ہیں کعبے کے برہمن ٭نذرانہ نہیں‘ سُود ہے پیرانِ حرم کا؍ ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن ٭میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد؍ زاغوں کے تصرُّف میں عقابوں کے نشیمن
پس لازم ہے کہ علمی معیار پر پورا اترنے والے پیر صاحبان شرعی معیار کے حامل خلفا کا تقرر کریں اور اس ادارے کو نسبی اور موروثی نہ بنائیں۔ اگر کسی کا نسبی وارث شرعی معیار پر پورا اترتا ہے تو اُسے یقینا ترجیحِ اول ملنی چاہیے ورنہ شرعی معیار کے حامل خلفا کاملِ اتفاقِ رائے یا دو تہائی یا تین چوتھائی اکثریت سے اپنے شیخِ طریقت کا جانشین مقرر کریں اور اس کیلئے دبائو اور ترغیب وتحریص کے حربے استعمال نہ کیے جائیں تو ایسی صورت میں یہ ادارہ ایک بار پھر فیض رسانی‘ دینی اور روحانی تعلیم وتربیت اور تزکیہ کا مرکز بن جائے‘ کیونکہ اس کا بنیادی مقصد یہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں