زمانۂ امن ہو یا جنگ‘ عساکرِ پاکستان ہمہ وقت وطنِ عزیز کو اندرونی و بیرونی خطروں سے محفوظ رکھنے کیلئے مصروفِ عمل ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قوتِ ایمانی کے جذبہ سے لبریز پاک فوج کے چاک و چوبند جوان مادرِ وطن کی خاطر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم کے سنہری قول اتحاد‘ ایمان‘ تنظیم کی روشن مثال پاک افواج سیاچن کے گلیشیر سے لے کر سندھ کے ریگستانوں تک عزم و حوصلے کے ساتھ ملکی سالمیت کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ قیامت خیز زلزلہ ہو یا تباہ کن سیلاب یا کورونا‘ ہماری فوج نے ہمیشہ ہر اول دستے کے طور پر قوم کو ان قدرتی آفات و مصائب سے محفوظ رکھنے میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز میں سیلاب اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے جس سے سب سے زیادہ صوبہ سندھ اور بلو چستان متاثر ہوئے ہیں۔ بالخصوص صوبہ بلوچستان کے دور دراز کے دشوار گزار پسماندہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر جانی و مالی نقصان سے مقامی افراد مشکلات کا شکار ہیں۔ موجودہ ابتر صورتحال کا بخوبی اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ صوبے میں بارش اور سیلاب سے سینکڑوں افراد جان گنوا چکے اورمتعدد زخمی ہوئے ہیں۔ 700سے زیادہ مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ کئی سڑکیں اور رابطہ پل بہہ گئے ہیں۔ بلوچستان میں 300 سے زائد ڈیم ہیں‘ جن میں سے بہت سے آبپاشی کے میدانی علاقوں میں چیک ڈیم اور تاخیری ایکشن ڈیم کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ چیک ڈیم زیر زمین پانی کو ری چارج کرتے ہیں اور آس پاس کے علاقوں کے لیے پینے کے پانی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ شدید بارشوں کے باعث ڈیم ٹوٹنے سے بہت سے رہائشی علاقے زیر آب آگئے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 4 جولائی سے اب تک بلوچستان کے اضلاع کو شدید طوفانی بارشوں نے متاثر کیا ہوا ہے۔ متاثرہ اضلاع میںصوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت بولان‘ ژوب‘ دکی‘ قلعہ سیف اللہ‘ خضدار‘ کوہلو‘ کیچ‘ مستونگ‘ ھرنائی‘ لسبیلہ اور سبی شامل ہیں۔ سیلاب سے مکانات‘ کھڑی فصلوں‘ باغات‘ مویشیوں اور واٹر سپلائی سکیموں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا بلکہ روزگار و املاک کی تباہی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بلوچستان‘ جو پاکستان کے کل رقبے کے 42فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مسلسل ماحولیاتی خطرات جیسا کہ زلزلے‘ سیلاب‘ گرمی اور سردی کی شدید لہروں اور خشک سالی کی زد میں ہے۔ موسلا دھار بارشیں تقریباً ہر سال بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے صوبے میں جہاں پہلے ہی پسماندگی‘ تعلیم‘ صحت و آمدورفت اور روز گار کے وسائل بہت کم ہیں۔ بلوچستان‘ جو مسلسل ملک دشمن عناصر کی دہشت گردی کا شکار رہتا ہے یہاں کے باشندوں کو قدرتی آفات سے بچانے کیلئے کسی بھی حکومت کی طرف سے کوئی ایسے انتظامات و اقدامات نہیں کیے گئے جس سے بروقت یہاں کے پسماندہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔ واضح رہے کہ حکمرانوں کی لاپروائی کی وجہ سے ہی احساسِ محرومی جنم لیتا ہے جو بعدازاں نوجوانوں کو گمراہی کی طرف مائل کرتا ہے۔ جبکہ پاک فوج ان متاثرہ علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو اور بحالی کے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیلاب متاثرین کو سیلابی ریلوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کے لیے دن رات انسانی ہمدردی کی خاطر امدادی کارروائیوں میں پاک فوج کی بھرپور شمولیت قابلِ تحسین ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں بارشوں سے متاثرہ افراد کے لیے پاک فوج کے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ ان فری میڈیکل کیمپس میں متاثرہ افراد کے علاج معالجے اور مفت ادویات کی فراہمی کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ بارشوں سے متاثرہ افراد کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات مل سکیں۔ رہائشی علاقوں سے پانی نکالنے سے لے کر دور دراز علاقوں میں متاثرہ آبادی کو پینے کے پانی اور راشن کے تھیلوں سمیت ضروری امداد کی فراہمی فوج کی امدادی کارروائیوں میں شامل ہے۔ فوج نے سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والوں گھروں کے اندر پھنسے ہوئے مقامی لوگوں کو بچانے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں سول انتظامیہ کی مدد بھی کی۔ بلاشبہ پاک افواج قدرتی آفات کے دوران ہر ممکن انسانی امداد فراہم کرنے میں ہمیشہ پیش پیش ہیں۔
اس سے قبل شیرانی کے علاقے میں پہاڑی جنگلات میں لگنے والی آگ سے ہزاروں چلغوزے اور صنوبر کے قیمتی درخت جل کر خاکستر ہوگئے تھے۔ اس آگ پر بڑی مشکل سے ایران سے خصوصی فائر فائٹر جیٹ منگوا کر قابو پایا گیا۔ اسی طرح چند ماہ قبل ڈیرہ بگٹی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کی وبا پھیلی تو اس سے بھی ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ اس دوران بھی پاک فوج کے طبی عملے نے دن رات ایک کر دیا۔ ماضی قریب میں اس صوبے میں کئی تباہ کن آفات آچکی ہیں جن میں 2000ء، 2010ء، 2011ء اور 2012ء میں سیلاب؛ 2007ء میں طوفان اور آواران کا زلزلہ شامل ہیں۔
محتاط منصوبہ بندی‘ وسائل کے بہترین استعمال‘ دور اندیشی جو کہ پاک فوج کا خاصہ ہے‘ کی وجہ سے ہی بڑی حد تک نقصان پر قابو پانے میں مدد ملی اور پاک فوج کی جرأت مندانہ قیادت کی بدولت ہی پاکستان تمام بڑے سانحات سے بخوبی نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاک آرمی نے ملک میں سیلاب کے نتیجے میں کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع تنظیمی سیٹ اَپ آرمی فلڈ پروٹیکشن اینڈ ریلیف آرگنائزیشن تیار کیا ہوا ہے۔ آرمی فلڈ پروٹیکشن اور ریلیف آرگنائزیشن کا ڈھانچہ کچھ یوں ہے: جنرل ہیڈ کوارٹر فلڈ ریلیف سنٹر 1977ء میں قائم کیا گیا تھا اور تب سے یہ جنرل سٹاف برانچ (انجینئر ڈائریکٹوریٹ) کے تحت کام کر رہا ہے۔ کور فلڈ کنٹرول سینٹرز کور ہیڈ کوارٹرز کے تحت کام کرتے ہیں۔ جبکہ سیلاب کا موسم شروع ہونے سے پہلے‘ کچھ احتیاطی اور پیشگی اقدامات کا آغاز کر دیا جا تا ہے۔ آرمی کی سطح پر سول انتظامیہ کے ساتھ مختلف پہلوؤں کو مربوط کرنے کے لیے ہر سال انجینئر ڈائریکٹوریٹ میں آرمی پری فلڈ سیزن کوآرڈی نیشن کانفرنس منعقد کی جاتی ہے۔ کانفرنس کی صدارت انجینئر اِن چیف کرتے ہیں اور اس میں تمام کمانڈرز کور انجینئرز‘ چیئرمین فیڈرل فلڈ کمیشن‘ صوبائی آب پاشی کے سیکرٹریز‘ پاور ڈیپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ سیلاب سے بچاؤ کے تمام کاموں کا معائنہ کور ہیڈ کوارٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے اور متعلقہ سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر ہنگامی منصوبے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ یہ کارروائیاں ہر سال 30 مئی تک مکمل ہو جاتی ہیں۔ کمانڈرز کور انجینئرز کی طرف سے سول حکام کے ساتھ ان کی ذمہ داری کے علاقے میں ضروری رابطہ یا کوآرڈی نیشن کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سیلاب کے موسم کے آغاز سے پہلے متعلقہ کارروائیاں مکمل ہیں یا نہیں۔ بلوچستان میں فوجی ریلیف آپریشن اس عزم کا عملی مظہر ہے کہ فوج نہ صرف دہشت گردوں کی سرکوبی بلکہ سیلاب‘ طوفان‘ زلزلوں و دیگر قدرتی آفات کی صورت میں‘ مشکل کی گھڑی میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنی درخشندہ روایات پر عمل کرتے ہوئے ریلیف سرگرمیوں میں سب سے آگے ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک فوج کے جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اندرون ملک آنے والی قدرتی آفات میں بھی عوام کی امداد و بحالی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔