عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات اس وقت پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ روس‘ یوکرین تنازع نے دنیا کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ اشیائے خورو نوش، پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 1981ء کے بعد سے اب بد ترین اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یاد رہے کہ 2008ء کے عالمی اقتصادی بحران میں بھی کئی مالیاتی ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی تھیں مگر موجودہ بحران کی شدت زیادہ ہے؛ چنانچہ موجودہ تناظر میں واشنگٹن میں کساد بازاری 40، مغربی ممالک میں 55 جبکہ ایشیا میں 20 سے 25 فیصد کے درمیان ہے۔ امریکی معیشت کے مسلسل سکڑنے سے اقوام عالم پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں جسے دنیا کے کئی ممالک میں کساد بازاری سے عبارت کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق توقع سے زیادہ افراطِ زر‘ خاص طور پر امریکہ اور بڑی یورپی معیشتوں میں‘ عالمی مالیاتی حالات میں سختی پیدا کر رہا ہے۔ بین الاقومی مالیاتی فنڈ کے مطابق جی ڈی پی گزشتہ برس 6.1 فیصد کے مقابلے میں رواں سال 3.2 فیصد رہی؛ چنانچہ موجودہ کساد بازاری کی لہر سے تجارت کو شدید دھچکا لگے گا۔ اقتصادی بحران نے نہ صرف امریکہ بلکہ پورے یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔ امریکہ کی تقریباً 27 سے زائد ریاستوں کے شہری جو بائیڈن کی ناقص پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق واشنگٹن میں بے روزگاری کی شرح 7.9 سے بھی بلند ہو چکی ہے جس کے اثرات ترقی پذیر ملکوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، مزدوروں کی قلت، یوکرین تنازع، سپلائی چین میں کمی اور سود کی شرح بڑھنے کے ساتھ ہر طرف کساد بازاری کے خدشات ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح امریکہ اب بھی ان تمام مسائل کی تردید کر رہا ہے۔ دوسری جانب بینک آف امریکہ کے چیف انویسٹمنٹ مائیکل ہارٹینٹ نے کلائنٹس کو لکھے گئے ایک نوٹ میں خبردار کیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کی مزید جارحانہ سختی معیشت کو کساد بازاری کی جانب دھکیل دے گی۔ یہ صورتحال سرمایہ کاروں کے معیشت پر اعتماد کے فقدان کا اشارہ دے رہی ہے۔ اس وقت امریکہ میں مہنگائی 8.4فیصد تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ کئی برسوں میں سب سے بلند شرح ہے۔ اگرچہ گزشتہ عشروں میں امریکہ بیرونی ممالک سے سرمائے کے حصول اور دوسروں کو منافع ادا کرنے کے ذریعے اپنی معیشت چلانے میں کامیاب رہا ہے؛ تاہم پیدا ہونے والے رخنے سے اب یہ ملک جمود کے خطرناک دور میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک سپر پاور کیلئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ میں اقتصادی بحران ایک کے بعد دوسرے ملک کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے تو یہ پیش گوئی بھی کر رکھی ہے کہ اگلے برس G7ممالک میں مہنگائی اور کم گروتھ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بر طانیہ ہو گا۔ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں 32 لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہیں۔ یورو زون کی چوتھی بڑی معیشت سپین میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے کہ وہاں بیروزگار افراد کی تعداد 60 لاکھ سے متجاوزہو چکی ہے۔ آسان قرضوں کے سبب جو پراپرٹی بوم آیا تھا وہ بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے ختم ہو چکا ہے۔ اقتصادی بحران سے نمٹنے کیلئے عوام پر بھاری بھر کم ٹیکس لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑی کمپنیوں کو بچانے کیلئے عوام کے ٹیکس کا پیسہ ان کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یونان اور اٹلی میں طلبہ کی فیسیں بڑھائی جا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں کرپشن اور فراڈ کے کیسز میں بھی حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ بیروزگاری، عوام کی آمدنی اور قوتِ خرید میں کمی، سٹریٹ کرائمز، بھکاریوں کی بھر مار، فیکٹریوں کی بندش اور بجٹ خسارے کے بڑھنے کی وجہ سے اکثر ممالک عالمی معاشی بحران کے شکنجے میں پھنس چکے ہیں اور فی الحال اس شکنجے سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یوکرین جنگ کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوئی ہے۔ تیل برآمد کرنے والے بیشتر خلیجی ممالک حالیہ ہونے والے نقصان و خسارے کے پیش نظر عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے خواہش مند ہیں۔ قبل ازیں بھی میں اپنے کالموں میں تحریر کر چکا ہوں کہ روس، فرانس، چین اور برازیل کے درمیان ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے حوالے سے بات چیت ہو چکی ہے۔ روس اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کیلئے ڈالر میں تیل بیچنا اس وقت گھاٹے کا سودا ہے جب اصل منڈیوں یعنی ایشیا اور یورپ کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ کووِڈ 19نے پہلے دنیا کے معاشی نظام کو بری طرح متاثر کیا اب روس یوکرین جنگ کے سبب تیل اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافے سے عالمی اقتصادیات پر کساد بازاری کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
بلاشبہ روس یوکرین جنگ مغرب کے لیے ایک سٹریٹیجک دھچکا ہے کیونکہ اس سے جہاں نیٹو کی قا بلیت واضح ہوئی‘ وہیں معاشی بحران میں مبتلا جوہری ہتھیاروں سے لیس امریکہ، فرانس اور بر طانیہ بھی اب اس جنگ سے راہِ فرار اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر توانائی اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں نے اقتصادی ترقی کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ آج اقوام متحدہ نے بھی ''عالمی بھوک کے بحران‘‘ کی وارننگ دے دی ہے۔ یورپی یونین نے ماسکو پر دبائو بڑھانے اور مزید سخت ترین اقدامات کی تجویز دی ہے جن میں روسی خام تیل اور ریفائنڈ مصنوعات کی درآمد کو 6 ماہ کے عرصے میں مر حلہ وار ختم کرنے کے علاوہ جنگی جرائم میں ملوث فوجی افسران پر پابندیاں لگا کر 2022ء کے آخر تک گیس کی درآمد کو 2 تہائی تک کم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی یورپ کی 40 فیصد گیس اور 26 فیصد تیل کی ضرورت ماسکو ہی پوری کر رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ یوکرین کو اربوں ڈالر ز کی فوجی امداد فراہم کر کے خطے میں نئی سرد جنگ والی ذہنیت لاگو کرنے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کو ایک طرف چین اور روس کے خلاف نیا محاذ کھول کر ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کیلئے نت نئے معاہدے کر رہا ہے اور دوسری طرف افغانستان میں ناکام عالمی سپر پاور ایشیا، شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے مسلسل سر گرم ہے اور اس کام کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اسرائیل اس کا معاون ہے۔
عالمی منظر نامے میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیوں کی بدولت پاکستان کو بھی خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے زیادہ تشویشناک جی ڈی پی کا 8.2 فیصد مالی خسارہ اور 5.3 فیصد کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے دبائو اور تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافے سے زر مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر کی حد سے بھی نیچے آ چکے ہیں جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی خاطر عوام کو مہنگائی کی چکی کے دونوں پاٹوں میں پیسا جا رہا ہے، سندھ بلوچستان کے بے بس سیلاب متاثرین کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے، افسوس !ہمارے سیا ستدانوں نے اقتدار کی رسہ کشی میں ملکی سالمیت ہی کو دائو پر لگا دیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ اپنی ناکامیوں اور کو تاہیوں کا ملبہ دوسروں کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس بار بھی سیلاب، بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ حکمرانوں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ گزشتہ دہائیوں میں پاکستان میں تاریخ کے کئی بڑے سیلاب آچکے ہیں۔ ملک پچھلے سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر رہا ہے؟ یہ حکمران‘ جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے‘ کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟ درحقیقت پاکستان میں گزشتہ 75 برسوں میں ایسے سیاست دان مفقود رہے ہیں جو عوام کے دکھ‘ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے۔ سیلاب کی وجہ سے جس طرح کی تباہ کاریاں اب ہو رہی ہیں ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی لیکن آج بھی ہر طرف سیاست ہی چھائی ہوئی ہے، اور اُن علاقوں کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیلاب کی زد میں آئے علاقوں کی دل دہلا دینے والی وڈیوز دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا ہے۔ کاش !کرسی کیلئے باہم دست و گریبان سیاسی رہنما تھوڑی دیر کے لیے ہی ان سیلاب زدگان کا خیال کر لیتے۔ ہمیں آج پھراکتوبر2005 ء والے جذبے و یکجہتی کی ضرورت ہے۔