6 ستمبر کا معرکہ

اہلِ ایمان کا اس بات پر ایمان و تیقن ہے کہ جنگ و جہاد میں اللہ تعالیٰ کی نصرت مومنین کے ساتھ ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث میں غزوات اور جہاد کے دوران کئی ایسے واقعات کی بشارت و شہادت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے جہاد میں اہلِ ایمان کے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہوئے۔ سماوی مدد کے ثبوت ہمیں بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگوں کے دوران متعدد بار دیکھنے کو ملے ہیں۔ پاک افواج نے '' اپنے گھوڑے تیار رکھو ‘‘ کے ارشاد ربانی کو حرزِ جاں بنایا ہوا ہے اور اس ذمہ داری سے ہماری قابلِ فخر افواج کبھی غافل نہیں رہیں۔ دنیا یہ حقیقت تسلیم کرتی ہے کہ جنگیں عددی برتری، اسلحہ کے انبار لگانے اور فوج کی تعداد بڑھانے سے نہیں بلکہ جذبوں سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ یہ جذبۂ ایمانی اورحب الوطنی کی انتہاتھی کہ65ء کی جنگ میں بحری، برّی اور فضائی افواج کے جانبازوں نے نامساعد حالات، محدود جنگی سازوسامان کے باوجود ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ اقوامِ عالم ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو گئیں اور ہمارے جوانوں نے اپنی دلیری‘ شجاعت اور بہادری سے دشمن پر سکتہ طاری کر دیا۔ دنیا بھر کے عسکری ماہرین بھی حیران اورپریشان ہیں کہ پاک افواج ایسے علاقوں میں‘ جہاں عالمی طاقتیں بھی ناکام ہوتی رہیں‘ وہاں فتوحات کیسے حاصل کر لیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 65ء کی جنگ نے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ 6ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان ہماری دفاعی اور عسکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ اس دن شجاعت و خوداعتمادی کی دولت سے مالا مال پاک افواج کے جری جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے بہادر اورغیور پاسبانوں کی فہرست میں اپنا نام رقم کرایا۔ یہ جذبۂ شجاعت ہی تھاکہ قوم کے ساتھ مل کرجدید اسلحے سے لیس دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیاگیا۔ وطن عزیز کی بقا اور تحفظ کے لیے سترہ روزہ جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج نے جرأت و دلیری، عزم و حوصلے، ایمان و یقین اور ایثار و قربانی کے ایسے جذبوں کا مظاہرہ کیا کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہ فی الواقع ایک آزمائش اور قوم کا ایک کڑا امتحان تھا جس میں بحمدللہ ہماری قوم سرخرو ہوئی۔
رَن آف کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی میں ذلت اٹھانے کے بعد چوروں کی طرح پاکستان کے دل لاہور پر حملہ کرنے والی بزدل بھارتی فوج کے خلاف پاکستان کی بری، بحری اور فضائی ا فواج نے اپنی جرأت و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان کبھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جذبۂ ایمانی سے سرشار اور ملی نغموں سے مسحور فوجیوں اور شہریوں نے وہ کارنامے سرانجام دیے کہ بھارت آج بھی انہیں یاد کرکے خوف سے کانپنے لگتا ہے حالانکہ اس جنگ کے دوران امریکہ نے معاہدے کے باوجود پاکستان کی حمایت سے انکار کردیا تھا؛ تاہم جن کا ایمان و توکل خدا کی ذات پر ہو‘ وہ ایسی باتوں کو خاطر میں ہی کہاں لاتے ہیں؟
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
6ستمبر 1965ء کو بھارت نے رات کی تاریکی میں کئی انفنٹری ڈویژنز، ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے لاہور پر تین اطراف سے حملہ کیالیکن ستلج رینجرز کے جوانوں نے بی آر بی نہر کا پل تباہ کرکے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ اس تمام تر صورتحال کو یقینی بنانا کسی طور معجزے سے کم نہ تھا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی کی یونٹ 17 پنجاب 103 بریگیڈ کا حصہ تھی جو 10 ڈویژن کی دفاعی بریگیڈ تھی۔ اس کمپنی کی دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر تعینات تھیں۔ ان حالات میں جب دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری مدد اسے حاصل تھی‘ 10 اور 11 ستمبر کی درمیانی شب کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین (4 سکھ بٹالین)جھونک دی۔ اس صورتحال میں میجر عزیز بھٹی کونہر کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے اس دفاعی پوزیشن میں بھی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔ آپ نے نہر کے کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ بھارتی فوج چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ بارود برسا رہی تھی مگر راجہ عزیز بھٹی نہ صرف دشمن کے شدید دبائو کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔ 12 ستمبر کو دشمن کے ایک ٹینک کا گولہ لگنے سے آپ شہید ہو گئے مگر اس وقت تک نہ صرف آپ نے اپنی یونٹس کا دفاع یقینی بنایا بلکہ دشمن کو بھاری مالی و جانی نقصان بھی پہنچایا۔ بھارت کے لیفٹیننٹ ہربخش سنگھ (Harbaksh Singh) کے مطابق‘ پاکستانی افواج بہادری سے لڑیں اور زمین کے ہر انچ کا خوب دفاع کیا۔ اپنی کتاب میں ہربخش سنگھ نے میجر عزیز بھٹی کی جرأت و بہادری کا بھی ذکر کیا ہے۔
بھارت کا سب سے بڑا اور خطرناک حملہ سیالکوٹ کے محاذ پر ہوا تھاجس کا مقصد لاہور‘ گوجرانوالہ شاہراہ کو کاٹنا تھا۔ طاقت کے نشے میں چور بھارت نے پاک فوج کی توجہ لاہور کے محاذ سے ہٹانے کے لیے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ، باجرہ گڑھی اورنخنال کے مقام پر حملہ کیا۔ عددی برتری کے علاوہ بھارت کے پاس بہت اسلحے کا بھی خاصا بڑا ذخیرہ تھا لیکن پاکستان کے عظیم سپوتوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر بھارتی فوج کے ٹینکوںکو تباہ کیا۔ سیالکوٹ کا قصبہ چونڈہ‘ جہاں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی‘ اب بھی '' ٹینکوں کے قبرستان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں پاکستان ایئرفورس نے بھی کمال فن کا مظاہرہ کیا اور سترہ دن تک لڑی جانے والی اس جنگ میں بری افواج کو بھرپور مدد فراہم کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں دشمن کے 129 لڑاکا طیاروں کو تباہ کیا گیا جبکہ پاکستان کے صرف 19طیاروں کو نقصان پہنچا۔ مایہ ناز مجاہد سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے 7 ستمبر کو سرگودھا میں ایک تاریخ ساز معرکے میں دشمن کے پانچ حملہ آور طیاروں کو ایک ہی وار میں یکے بعد دیگرے مار گرایا اور دنیا بھر کی فضائیہ کی تاریخ میں ایک لازوال مثال قائم کی۔
پاک بحریہ کا کردار بھی ناقابلِ فراموش رہا۔ پاک بحریہ کے جہازوں نے بھارت کے پانیوں میں 200 سمندری میل اندر جا کر بھارتی بحریہ کو ناکوں چنے چبوائے۔ اعلانِ جنگ ہوتے ہی پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس بابر، خیبر، بدر، ٹیپو سلطان، جہانگیر، شاہجہاں اورعالمگیر ''پاکستان فلیٹ‘‘ کموڈور ایس ایم انور کی کمانڈ میں دوارکا کی طرف روانہ ہوئے۔ بھارتی ریاست گجرات میں دوارکے مقام پر قائم ریڈار سٹیشن دشمن کے جہازوں کو فضائی حملوں کے لیے مسلسل رہنمائی فراہم کر رہا تھا‘ جس کو تباہ کرنا از حد ضروری تھا۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ کے جہازوں کو بھارتی پانیوں سے باہر لانے کی حکمت بھی اس آپریشن کا حصہ تھی جن کا سامنا کرنے کے لیے پاک بحریہ کی آبدوز غازی پہلے ہی سے بحرِ ہند میں موجود تھی۔ 6 ستمبر کو کراچی سے روانہ ہونے والے پاک بحریہ کے سات جنگی جہاز 7 ستمبر کو جب دوراکا کے قریب پہنچے تو دفاعِ وطن کے لیے ہر حد سے گزر جانے کا جذبہ لیے آفیسرز اور سیلرز حکم کے منتظر تھے۔ جیسے ہی انہیں حکم ملا‘ انہوں نے منصوبے کے مطابق تمام جہازوں سے 50‘ 50 گولے فائر کیے اور صرف تین منٹ میں دوارکا کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
جنگِ ستمبرمیں پاک افواج کے بہادر سپاہیوں نے اپنے سے10 گنا بڑی طاقت کو ذلت آمیز پسپائی اور شکست پر مجبور کرکے پوری دنیا میں اس کا گھمنڈ اور تکبر خاک میں ملا دیا۔ جنگِ ستمبر میں سامراجی قوتیں اور ان کے ذرائع ابلاغ بھارت کے پروپیگنڈا سیل کا کردار ادا کر رہے تھے جبکہ عالمی رائے عامہ اور مسلم دنیا پاکستان کی ہمنوا تھی۔ بھارت کے معروف عسکری تجزیہ کار ڈاکٹر چکرورتی عمیق تحقیق کے بعد ''دی ہسٹری آف انڈو پاک وار 1965 ء‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ''انڈیا کے لیے رَن آف کچھ کا آپریشن جان لیوا ثابت ہوا اور اسے اپنے سے کئی گنا چھوٹی عسکری قوت کی طرف سے انتہائی صبر آزما اور غیر متوقع مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث 6 ستمبر کو لاہو پر حملے کے بعد بھارت سفارتی سطح پر دنیا میں تنہا ہو کر رہ گیا۔ یواین، افریقہ، غیر وابستہ ممالک اور ایشیائی ممالک میں کوئی اس کا ہمنوا نہ رہابلکہ سب پاکستان کی پشت پر کھڑے ہو کر اس (بھارت) پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالتے رہے۔ 15 ستمبر کو وزیراعظم شاستری نے اپنی عسکری قیادت سے صاف صاف کہہ دیا کہ ''اب میں مزید دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا، دنیا کا کوئی بھی ملک ہمارے جنگی فتح کے دعووں کو گھاس نہیں ڈال رہا، اس لیے مجھے حتمی طور پر بتاؤ کہ تم دو‘ تین دن میں جنگ جیت سکتے ہو یا نہیں‘‘۔ بھارت کی عسکری قیادت نے جیسے ہی مزید مہلت کا تقاضا کیا‘ شاستری نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر خود ہی سرنڈر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور انتہائی مایوسی کے عالم میں یواین کے سیکرٹری جنرل کو جنگ بندی پر اپنی رضامندی کا مراسلہ بھیج دیا جسے تاریخ نویس ''جنگ بندی کی درخواست‘‘ بھی کہتے ہیں۔
کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والا پاکستان دنیاکی ساتویں ایٹمی قوت اور اسلام کا قلعہ ہے جو عالم اسلام کے تحفظ اور استحکام کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور اسی لیے یہ طاغوتی قوتوں کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتا رہتا ہے۔ بے شمار دشمن اس کی سالمیت کے درپے ہیں مگر پاک فوج نے ملکی سرحدوں کا دفاع جس مؤ ثر انداز میں کیا ہے‘ وہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔
یقینا سبھی قوموں کی زندگی میں کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے باعث ان کا تشخص ایک غیور اور جرأت مند قوم کے طور پر ابھرتا ہے۔ لہٰذا وقت کا یہ تقاضا ہے کہ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو زندگی کی سب سے پہلی ترجیح بنا کر اس شعور کو اگلی نسلوں تک پہنچا نے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا جائے۔ یومِ دفاع قومی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سمیت پوری قوم سے اس امر کا متقاضی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے تحت دفاعِ وطن کے تقاضے نبھائے جائیں۔ آج ہر محاذ پر اور چہار جانب سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی سنگین حالات کی اہمیت، حساسیت اور نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات کے بجائے حکومت اور پاک افواج کی پشت پر کھڑے ہوں تاکہ کسی بھی دشمن کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأ ت نہ ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں