آج کشمیر ہے مجبور و محکوم و فقیر

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے مظلوم مسلم بھائیوں کی مدد کی جانب متوجہ کرتے ہوئے سورۃ النسا میں فرمایا ''اور تم کو کیا ہوا (کہ) لڑتے نہیں اللہ کی راہ میں اور ان کے واسطے جو مغلوب ہیں‘ مرد اور عورتیں اور بچے‘ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں یہاں کے لوگ اور کر دے ہمارے واسطے اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور کر دے ہمارے واسطے اپنے پاس سے کوئی مددگار‘‘۔ (4:75) کشمیر کے مرد، عورتیں اور بچے مغلوب ہیں اور بھارت وہ بستی ہے جس کے ظالم لوگوں اور فسطائی حکومت نے اپنے شکنجۂ استبداد میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو جکڑا ہوا ہے۔
آج وہ کشمیر ہے مجبور و محکوم و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
بی جے پی کی فسطائی حکومت نے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کیلئے مقبوضہ کشمیر میں قابض ا فواج کے ذریعے خوف اور جبر کی ایک فضا پیدا کر رکھی ہے۔ ہر روز محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں جاری ہیں، مقبوضہ علاقوں میں آبادی کا تناسب بدلنے اور مسلمانوں کو اقلیت بنانے کے لیے بھارت بھر سے ہندوئوں کو لا کر کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے، لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈومیسائل بانٹے جا رہے ہیں، سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے نام پر بھارتی کمپنیوں کو مقبوضہ وادی کی زمینیں اور جائیدادیں کوڑیوں کے بھائو فروخت کی جا رہی ہیں۔ اسے عالمی طاقتوں کی اشیرباد کہیں یا مجرمانہ غفلت کہ بی جے پی مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت بھر میں دہشت گردی کے الزامات لگا کر مسلم نوجوانوں، بچوں اور لڑکیوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کی ایک تحقیقاتی ایجنسی نے 10 ریاستوں میں کریک ڈائون کرتے ہوئے ''پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘‘ نامی ایک تنظیم سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد مسلمانوں کو گرفتارکیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہر دہشت گردی حتیٰ کہ سری لنکا میں ہوئے دھماکوں کا الزام بھی اس تنظیم پر لگا دیا گیا ہے۔ اس تنظیم پر‘ جو سیاسی طور پر بھی خاصی مضبوط اور جنوبی ہند کے مسلمانوں کی نمائندہ آواز ہے‘ اب پابندی لگا دی گئی ہے۔نریندر مودی کی مسلم دشمنی، ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب بھارتی جارحیت نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کو عقوبت خانے میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ 'بنیے‘ کی اس مذموم حرکت پر یو این او اور او آئی سی نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ انہیں کشمیری خواتین، بچوں اور بوڑھوں کی چیخیں کیوں سنائی نہیں دے رہیں؟ بہادر و غیور کشمیریوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے روزِ اول سے بھارتی غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کا سفر تاحال جاری و ساری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ کشمیر تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی جعلی اور خود ساختہ دستاویزِ الحاق‘ جس کا خود بھارتی حکومت کے پاس بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے‘ کی آڑ میں 27 اکتوبر 1947ء کو فوجی یلغار کے ذریعے جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی تھی جس کے جواب میں کشمیری مجاہدین نے سخت مزاحمت کی۔ پاکستان کے قبائلی لشکروں نے کشمیریوں کی حمایت میں پیش قدمی کی۔ جب بھارت نے دیکھا کہ سری نگر کا ہوائی اڈا بھی اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو سیز فائرکی بھیک مانگنے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جا پہنچے۔ نہرو نے اقوام متحدہ اور سری نگر میں کھڑے ہو کر کشمیریوں سے ریفرنڈم کا وعدہ کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمران نہرو کے وعدے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکرتے چلے گئے۔ 31 اکتوبر 1947ء کو پنڈت نہرو نے لیاقت علی خان کو بھیجے گئے تار میں یہ پیغام دیا تھا: میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جیسے ہی کشمیر میں امن قائم ہوا‘ وہاں سے ہماری فوجیں نکل جائیں گی۔ اس کے بعد کشمیری عوام ہی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ میں یہ ضمانت حکومت پاکستان ہی نہیں‘ کشمیر کے عوام اور پوری دنیا کو بھی دیتا ہوں۔ بھارتی وزیراعظم نے سری نگر کے لال چوک میں بھی کھڑے ہو کر کہا تھا کہ ہم کشمیری عوام کو حق خودارادیت دیں گے۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ نہ رہنا چاہیں تو اگرچہ ہمیں اس پر دکھ ہوگا‘ لیکن ہم یہ فیصلہ قبول کریں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے الحاق کی جعلی دستاویزات کی تحقیقات کا مطالبہ اقوام متحدہ سے کیا جائے اور کشمیر میں ریفرنڈم کا وعدہ پورا کیا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو سے عظیم انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔ اگست 2019ء سے کشمیری بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں مگر ہمارے حکمران طبقے پر مکمل سکوت طاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے مسئلہ کشمیر کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا ہے۔ سابق حکومت 5 اگست کے اقدام پر عملاً 30 منٹ کی خاموشی و احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ افسوس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ سالانہ اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھانے کے باوجود بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی؛ چنانچہ اس تناظر میں یو این اجلاس کی نوعیت نشستند‘ گفتند‘ برخاستند سے زیادہ نہیں۔ ہم تو اتنا بھی نہ کرسکے کہ مقبوضہ کشمیر کا5 اگست 2019ء سے پہلے والا سٹیٹس ہی بحال کرا لیتے۔ چین نے لداخ جنگ کے دوران ہمیں بھرپور موقع دیا تھا لیکن ہماری کمزور خارجہ پالیسی نے یہ موقع گنوادیا۔ بھارتی میڈیا پہ نشر ہونے والے مختلف پروگروموں میں کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کیا جاتا رہا کہ چین لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بھارت کے خلاف جو بھی کچھ کر رہا ہے وہ پاکستان کے کہنے پر کر رہا ہے۔ اب تو آزاد کشمیر کی قیادت بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی بات نہیں کر رہی، کیا واقعی تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو پس پشت ڈال کر اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے؟ آزاد کشمیر کے حکمران طبقے کو بھی سیاسی جنگ سے ہی فرصت نہیں کہ وہ عالمی سامراج کے سامنے کشمیر کا مقدمہ لڑ سکے۔ تمام لیڈروں کو چاہئے کہ جماعتی سیاست کے خول سے باہر نکلیں اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور قوت سے پوری دنیا کے سامنے اجاگر کریں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیریوں کی تحریک کو سخت نقصان پہنچا ہے لیکن یہ خوش آئند امر ہے کہ مودی حکومت کے اقدامات کے بعد بھارت نواز کٹھ پتلی کشمیری رہنما محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ کی عقل ٹھکانے پر آ گئی ہے۔ اب انہیں پاکستان کے خواب دکھائی دینے لگے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھارتی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میںمودی سرکار کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور بھارتی یونین میں ضم کرنے کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''مجھے اور دیگر کشمیری رہنماؤں کو پابندِ سلاسل کر کے پوری وادیٔ کشمیر کو بھارتی افواج نے عملاً جیل میں تبدیل کردیاہے لیکن چین نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو تسلیم نہیں کیا اور اب چین کی مدد سے نہ صرف یہ آرٹیکل بحال ہوگا بلکہ مودی حکومت کو کشمیر کی تقسیم اور بھارتی یونین کا حصہ قرار دینے کا اقدام بھی منسوخ کرنا پڑے گا‘‘۔ محبوبہ مفتی نے حکومتی نظربندی سے رہا ہونے کے بعد یہاں تک کہاتھا کہ ''کشمیر کا معاملہ اب آرٹیکل 370 کی بحالی سے بھی حل نہیں ہوسکے گا، بھارتی قیادت نے کشمیریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر جو زخم لگائے ہیں‘اب ان کی رفو گری کیلئے ہمارے پاس چین اور پاکستان کی جانب دیکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا‘‘۔ اب پوری کشمیری قیادت بھارت سے بد ظن ہو چکی ہے۔ اس وقت میر واعظ عمر فاروق، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ،مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر عبدالحمید فیاض اور آسیہ اندرابی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں،جہاں ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو دنیا کے سامنے اٹھایا جائے۔ کشمیر کمیٹی کے غیر متحرک ہونے کے بعد کشمیر کی آزادی کے حصول کیلئے کشمیر کونسل تشکیل دی جائے۔ ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان بھی ادھورا اور نامکمل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں