15 نومبر 2022ء کو دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو جائے گی اور2057ء تک کرۂ ارض پر انسانی آبادی 10 ارب کا ہندسہ بھی عبور کر جائے گی جبکہ رواں صدی کے اختتام تک زمین پر 11 ارب سے بھی زائد انسان آباد ہوں گے۔ مذکورہ اعدادو شمار کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے انتباہ کرتے ہوئے کہا ''اربوں لوگ زندگی گزارنے کیلئے کڑی جدوجہد کر رہے ہیں، کروڑوں افراد کو بھوک کا سامنا ہے اور ماضی سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگ قرض، مشکلات، جنگوں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے چھٹکارا پانے کیلئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا ''جب تک ہم عالمی سطح پر امیروں اور غریبوں کے مابین پایا جانے والا فرق نہیں ختم کرتے اس وقت تک 8 ارب آبادی پر مشتمل ہماری دنیا کو تناؤ، بداعتمادی، بحرانوں اور جنگوں کا سامنا رہے گا‘‘۔ دنیا بھر کے آبادیاتی و ترقیاتی ماہرین، منصوبہ ساز، پالیسی میکرز، ماہرینِ اقتصادیت، سیاستدن اور لیڈران سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ہماری زمین میں اتنی صلاحیت باقی ہے کہ قدرتی آفات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور حضرتِ انسان کی خود ساختہ تباہیوں کے ساتھ وہ اس بے ہنگم انداز سے بڑھتی ہوئی آبادی کا بو جھ سہہ سکے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پیدا ہونے والے مسائل میں خوراک کی کمی اور تعلیم و صحت عامہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی نمایاں ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آنے والی نسلیں کس طرح ان لاتعداد مسائل کے انبار کے درمیان اپنے لیے بہتر طرزِ زندگی تشکیل دے سکتی ہیں اور اپنے بنیادی حقوق سے لطف اندوز ہو سکتی ہیں ؟
یقینا جدید علمی و سائنسی ترقی نے دریافتوں اور ایجادات سے معاشرے میں ایک ترقیاتی انقلاب کی بنیاد رکھی جس سے دیہی آبادی شہروں میں کارخانوں‘ فیکٹریوں اور ملوں وغیرہ میں کام کر کے اپنی روزی کمانے پر مائل ہوئی۔ اس سے شہر آباد ہوئے اور شہری آبادی بڑھتی چلی گئی۔ میڈیکل کے شعبے میں انقلاب سے کئی لا علاج اور پیچیدہ بیماریوں کا حل تلاش کر لیا گیا جس سے آبادی و عمر میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ آبادی میں اضافے سے متعلق حقائق پر نظر ڈالیں تو اس صورتحال کی گمبھیرتا مزید واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 1804ء میں دنیا کی کُل آبادی نے ایک ارب کا ہندسہ عبور کیا۔ 123 سال بعد یہ آبادی ایک سے دو ارب ہوئی۔ پھر 33 سال بعد ہی دو سے تین ارب ہو گئی۔ تین سے چار ارب ہونے میں 15 سال لگے۔ چار سے پانچ ارب ہونے میں 13 سال۔ 1987ء میں دنیا کی آبادی 5 ارب تھی اور محض 35 سالوں میں اس میں مزید تین ارب کا اضافہ ہو گیا۔ دنیا کی آبادی کو 7 سے 8 ارب تک پہنچنے میں 12 سال سے کچھ زیادہ عرصہ لگا لیکن اب 2037 ء میں 9 ارب تک پہنچنے میں تقریباً 15 برس کا عرصہ درکار ہو گا جبکہ 9 سے 10 ارب ہونے میں لگ بھگ 20 سال لگیں گے۔ چونکہ بلند شرحِ پیدائش والے ممالک میں فی کس آمدنی کی شرح کم ترین سطح پر ہے اس لیے عالمی سطح پر آبادی میں زیادہ اضافہ دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں ہو رہا ہے۔
آبادی میں اضافے سے ماحولیاتی مسائل میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی غیرمستحکم پیداوار اور کھپت کے مسائل بھی بڑھا دیتی ہے۔ البتہ اگلی کئی دہائیوں تک آبادی میں سست رو اضافے سے ماحولیاتی نقصان کو محدود رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہمارا ملک پاکستان ان 8 ممالک میں شمار ہوتا ہے جو2050ء تک دنیا کی متوقع آبادی کا لگ بھگ نصف ہوں گے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے موجودہ حالات معیارِ زندگی، عوامی فلاح بہبود اور خوشحالی کے حوالے سے ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی شرح آبادی 1.9 فیصد کی سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت ملک میں شرحِ پیدائش 3.6 فیصد ہے جو عالمی شرح سے 157 فیصد سے زائد ہے۔ اس سے قدرتی وسائل، معیشت، سماجی اتار چڑھائو کے ساتھ ساتھ شہریوں کو آئین اور متفقہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت تفویض کردہ حقوق کی فراہمی پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ اوسط عمر کے حوالے سے بھی پاکستان باقی دنیا سے کافی پیچھے ہے۔ دنیا میں اس وقت اوسط عمر لگ بھگ 73 برس ہے جو پاکستانیوں کی اوسط عمرسے سات سال زیادہ ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر 10 فیصد آبادی 65 برس سے زائد العمر ہے جبکہ اکثر پاکستانی اس سے قبل ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے سے جو مسائل جنم لیتے ہیں ان میں ایک نقل مکانی بھی ہے۔ پاکستان میں یہ شرح بھی باقی دنیا کی نسبت زیادہ ہے۔ اس وقت لگ بھگ 90 لاکھ افراد‘ جو مجموعی آبادی کا چار فیصد ہیں‘ دیارِ غیر میں مقیم ہیں۔
اگرچہ ایک جانب آبادی میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب یورپ خاص طور پر مشرقی یورپ کے 17 ممالک ایسے بھی ہیں جہاں انسانوں کی تعداد کمی کا شکار ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے چند ممالک میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ عالمی آبادی کا بڑا حصہ کم آمدنی والی ریاستوں سے تعلق رکھتا ہے اور اگلے عشرے میں 92 کروڑ افراد انہی کم آمدنی والے ملکوں سے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ آٹھ عشروں میں مختلف براعظموں میں انسانی آبادی میں تبدیلی کی شرح بھی مختلف رہے گی۔ اس بات کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سب سے کم ترقی یافتہ براعظم افریقہ میں‘ جہاں آج بھی عام انسانوں کو بے تحاشا غربت کا سامنا ہے‘ آبادی میں اضافے کی شرح مسلسل زیادہ رہے گی۔ صحارا کے جنوب میں واقع ریاستوں کی آبادی تو 2050ء تک دوگنا تک بڑھ جائے گی۔ اس وقت بھی افریقہ آبادی کے لحاط سے دنیا کا دوسرا گنجان آباد خطہ ہے، اس کی آبادی 2038 ء تک دو ارب ہو جائے گی۔ یہ بھی خیال کیا جا رہا ہے کہ 2023-24ء میں بھارت آبادی کے اعتبار سے چین کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ اس وقت دنیا کی 8 ارب کی آبادی میں سے نصف یعنی قریباً چار ارب افراد30 سے65 برس کی عمر کے ہیں مگر جب یہ آبادی 9 ارب ہو گی تو 40 کروڑ سے زائد افراد 65 برس سے زائدالعمر ہوں گے۔ 2018ء میں دنیا میں 80 سال سے زائد العمر افرادکی مجموعی تعداد 14.3 کروڑ تھی جو اگلے تین عشروں میں تین گنا ہو کر 42.6 کروڑ ہو جائے گی جو کافی ہولناک منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔ جب دنیا میں بوڑھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو گی تو اس سے نہ صرف معیشت اور اقتصادیات بلکہ سماجی نظام بھی درہم برہم ہو جائے گا۔ یہ معاملہ پریشان کن تو ہے ہی‘ غیر مستحکم سماج کے خطرے کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت انسانی آبادی ہر دن ڈھائی لاکھ سے بھی زائد شرح سے بڑھ رہی ہے، جس سے وسائل میں کمی واقع ہو رہی ہے اور انسانی مسائل شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے سے دنیا کو قلتِ آب کا بھی سامنا ہے، آلودگی میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ جنگلات کی کٹائی میں بھی تیزی آئے گی۔ خراب معاشی صورتحال کی پیشگوئی نے بھی توانائی، بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور عالمی غذائی تحفظ پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مذکورہ عالمی تناظر کو وسوسوںا ور اندیشوں نے گھیر رکھا ہے کہ کیا مستقبل قریب میں پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل ہے یا نہیں ؟صرف وطن عزیز میں آبادی کے کنٹرول پر توجہ مرکوز کرنے سے کیا تمام مصائب سے چھٹکارا مل جائے گا؟ اس کا جواب ہے :ہرگز نہیں! کیونکہ آبادی کا گھٹنا یا بڑھنا بنیادی مسئلہ نہیں‘ آبادیاتی استحکام اور پائیدار تعمیر و ترقی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی تولیدی صحت بھی ایک خوشحال معاشرے کی بنیادی ضروت ہے۔ دنیا کی نسبت پاکستان میں لوگوں کی اوسط عمر، صحت و نگہداشت کے حقوق تک رسائی میں واضح فرق ہے۔ تعلیم و صحت پر سرمایہ کاری کرکے بڑھتی ہوئی آبادی سے معاشی ترقی کے مواقع کشید کیے جاسکتے ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی وفاقی و صوبائی‘ دونوں سطحوں کے عوامی بہبود کے منصوبوں میں سر فہرست ہو نی چاہیے جسے تمام طبقوں کی حمایت و تعاون بھی حاصل ہو تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ زچہ وبچہ کی زندگیاں محفو ظ رہیں اورقوم کا ہرنوجوان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا قابلِ قدر کردار ادا کر سکے۔ یہی خوشحالی اور امن کا راستہ ہے اور اسی میں قوموں کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔