وزیراعظم شہباز شریف کا کسانوں کے لیے 1800 ارب روپے کا پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ وزیراعظم صاحب کے مطابق‘ ڈی اے پی کی فی بوری قیمت 2500 روپے کم کی گئی ہے جبکہ گندم کے بیج کے 12 لاکھ بیگ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کی 25 فیصد ادائیگی وفاق اور 25 فیصد صوبہ دینے کا پابند ہوگا جبکہ اس کے لیے 13 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بے زمین کاشت کاروں کے لیے پانج ارب روپے کے سبسڈائزڈ قرضوں سمیت زرعی شعبے میں سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مذکورہ پیکیج کے تحت متاثرہ علاقوں میں چھوٹے کسانوں کے قرضے معاف اور پانچ سال تک پرانے ٹریکٹر کی درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ تین لاکھ ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ کسانوں کو 13روپے فی یونٹ فکسڈ قیمت پر بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ ٹن یوریا درآمد کیا جائے گا جس میں سے دو لاکھ ٹن یوریا درآمد کیا جا چکا ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لیے زرعی شعبے میں جو 50 ارب روپے کے قرضے رکھے ہیں‘ ان کی شرحِ سود میں حکومت 6 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی دے گی اور نوجوانوں کو سستا قرضہ مہیا کیا جائے گا۔
بے زمین کسانوں کو بلاسود قرضے نہیں‘ زرعی زمینیں چاہئیں۔ ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ لگ بھگ 24 فیصد ہے، لیکن اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ حکومتیں زراعت کے شعبے کو وہ ترجیح اور مراعات دینے میں ناکام رہی ہیں جن کی اسے ضرورت تھی۔ دنیا کے ایک بڑے نہری نظام کی موجودگی کے باوجود ملکی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ہماری زراعت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے‘ ہماری سونا اگلنے والی اراضی بنجر ہو گئی ہیں، آبی ذخائر کی تعمیر و توسیع پر توجہ نہیں دی جا رہی، کالا باغ ڈیم کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے‘ ادھر ہمارے ازلی دشمن نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیڑتے ہوئے پاکستان کے حصے کے پانی پر سینکڑوں چھوٹے‘ بڑے ڈیم تعمیر کر لیے ہیں۔
رواں سال صدی کے بدترین سیلاب سے ملک بھر کی زرعی پیداوار سخت متاثر ہوئی ہے جس کے باعث کسانوں کی معاشی حالت پر نہایت برا اثر پڑا ہے اور ان کی مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت تباہ حال کسانوں کی کھاد اور بیج کی خریداری کی استطاعت نہیں ہے اور گندم کی بوائی کا وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو حکومت نے کسان پیکیج کے اعلان اور اس پر عملدرآمد میں کافی تاخیر سے کام لیا ہے؛ تاہم اب بھی سیاسی طفل تسلیوں کے بجائے اس زرعی منصوبے پر درجہ بدرجہ اور ترجیحات کا تعین کرکے تسلسل کے ساتھ عملدرآمد شروع کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں جلد سے جلد قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہونا چاہئے‘ ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم صاحب نے جو زرعی آلات سمیت دیگر زرعی ضروریات کی فراہمی اور اس ضمن میں مدد فراہم کا اعلان کیا ہے‘ اس پر بھی فوری عملدرآمد پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اس کے ثمرات بروقت کسانوں کو مل سکیں اور کسان اس کا فائدہ اٹھا کر بہتر فصلیں حاصل کر سکیں کیونکہ اس طرح کے اعلانات پر مکمل سنجیدگی اور پوری رفتار کے ساتھ عمل کرنے ہی سے زرعی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔
کسان پیکیج میں کاشتکاروں کی تعلیم و تربیت کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ کسانوں نے کس وقت فصلوں کو کس قدر پانی دینا ہے، فصلوں کا بیج کس طرح لگانا ہے، زمین کی تیاری کس قدر کرنی ہے، ان چیزوں پر بھی بات ہونا ضروری ہے۔ گاؤں‘ دیہات کی سطح پر زرعی سکولوں کا قیام ناگزیر ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں زراعت جدتوں کی نئی منزلیں طے کرتی جا رہی ہے اور ادھر ہمارے کسان ابھی تک کاشت کاری کے روایتی طریقوں کو ہی ترک نہیں کر سکے ہیں۔ روایتی کاشت کاری سے صرف علاقے کے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کسانوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے انقلابی اقدامات کیے جائیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی لازم ہے کہ زرعی پالیسیاں بناتے ہوئے چھوٹے کاشت کاروں کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور تحقیقاتی منصوبوں کی تیاری کے عمل میں بھی انہیں شریک کیا جائے۔
اربوں روپے کے سالانہ بجٹ استعمال کرنے والے زرعی تحقیقاتی اداروں سے بھی باز پرس کی جانی چاہئے کہ آخر یہ فنڈز کہاں استعمال ہوتے ہیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ گزشتہ 75 سالوں میں وطن عزیز کے عام کسان کی حالتِ زار میں ذرہ بھر بھی کوئی بہتری نہیں آ سکی ہے۔ ایک جانب حکومتی ایوانوں پر قابض وڈیروں، جاگیرداروں نے مزارعوں کو نسل در نسل اپنا غلام بنا رکھا ہے تو دوسری جانب ساہوکاروں اور کھاد مافیا نے کاشت کاروں کو قرضوں کے جال میں سختی سے جکڑ رکھا ہے۔ قدرتی آفات، بارشوں اور سیلابوں نے ان کی بچی کھچی زرعی اراضی کو نگل لیا ہے۔ صدی کے بدترین سیلاب سے زراعت اور لائیو سٹاک کے شعبے میں لگ بھگ631 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ملک بھر میں کُل فصلوں کے لگ بھگ 40 فیصد کو نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں 79 فیصد، بلوچستان میں 53 فیصد، آزاد کشمیر میں 25 فیصد، پنجاب میں 15 فیصد اور خیبر پختونخوا میں تقریباً 14 فیصد فصلیں حالیہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے سبب تباہ ہوئی ہیں۔ تقریباً 50 لاکھ 98 ہزار 963 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، جس سے لگ بھگ 529 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں فصلوں کو 394 ارب، پنجاب میں 82 ارب، بلوچستان میں 63 ارب، خیبر پختونخوا میں 17 ارب نقصان ہوا ہے جبکہ آزاد کشمیر میں لگ بھگ ایک ارب روپے کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ کپاس کی فصل تباہ ہونے سے 2 کھرب 29 ارب روپے، چاول کی سل خراب ہونے سے 73 ارب، 35 ارب روپے کا پیاز، 13 ارب روپے کے ٹماٹر، 16 ارب کی مرچ جبکہ 23، 23 ارب روپے کی کھجور اور گنے کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ سیلاب سے اب تک 11 لاکھ 58 ہزار سے زائد مویشیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار یہ غمازی کر رہے ہیں کہ کسانوں پر قیامتِ صغریٰ گزر گئی ہے اور حالیہ المناک تباہی و بربادی سے وہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب کسان تو کوئی بچا ہی نہیں بلکہ دو وقت کی روٹی اور چھت کے متلاشی بے آسرا نسان باقی رہ گئے ہیں۔
سیلاب کے سبب کپاس کی نصف فصل تباہ ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی کپاس دنیا بھر میں مشہور تھی اور اسے سفید سونا کہا جا تا تھا۔ پھر یہ سفید سونا ہمارے مفاد پرست جاگیر داروں اور زمینداروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تباہ حال زرعی انفراسٹرکچر کو دوباہ بحال کرنا اکیلے کاشت کاروں اور کسانوں کے بس کی بات نہیں۔ پوری ریاستی مشینری کو سیلاب کے پانی سے برباد ہونے والی زرعی زمینوں اور کھیتوں کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے متحرک ہونا پڑے گا۔ وگرنہ آئندہ چند ماہ میں ہمیں گندم سمیت خوراک کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا خدشہ گزشتہ کئی ماہ سے ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ سیلابی پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے اس موسم خزاں میں گندم کی بوائی میں تاخیر کا بھی خدشہ ہے جس سے اگلے سال اشیائے خوراک کی پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بطور زرعی ملک پاکستان کا بیشتر انحصار گندم کی پیداوار پر ہے مگر یہ قلت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گندم کی عالمی سپلائی غیر یقینی کا شکار ہے۔ ایسے میں وطن عزیز میں فوڈ سکیورٹی یعنی غذائی تحفظ کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے۔
ملک کے بیشتر حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد بھوک کے شکار افراد کی تعداد 45 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ جہاں پہلے 59 لاکھ 60 ہزار لوگ خوراک کی ہنگامی قلت سے دوچار تھے، اب ان کی تعداد بڑھ کر 86 لاکھ 20 ہزار ہو گئی ہے اور ان میں سے اکثریت کا تعلق سیلاب زدہ علاقوں سے ہے۔ اس سرد موسم میں بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافے سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ غذائی امداد مہیا کرنے والے ایک عالمی ادارے کے مطابق روس‘ یوکرین جنگ کے باعث بین الاقوامی تجارت میں خلل آنے، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ ہونے، امدادی رسائی محدود ہو جانے اور لوگوں کے بے گھر ہونے سے انتہائی غیر محفوظ اور کمزور آبادیاں تباہ کن بھوک کا شکار ہو رہی ہیں جبکہ کسان ضرورت کے مطابق خوراک پیدا کرنے کے لیے درکار کھادوں اور دیگر زرعی اشیا کی کمی کے مسئلے سے دو چار ہیں۔
میں اپنے شوز اور کالموں میں بھوک کے شدید بحران کے حوالے سے متعدد بار تنبیہ کر چکا ہوں کہ یہ سب سے بڑا چیلنج بن کر ہمارے سامنے ابھر رہا ہے کیونکہ دنیا میں آبادی کے 8 ارب ہو جانے، موسمیاتی تبدیلیوں، قدرتی آفات اور عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب عالمی سطح پر بڑھنے والے مسائل میں غربت، افلاس اور بھوک سرفہرست ہیں۔ چنانچہ قومی سطح پر غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے گندم کے متبادل و ثانوی ذرائع مثلاً چاول‘ مکئی‘ باجرہ اور جوار پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ اس کے علاوہ ہمیں بنجر و بے آباد اور دور افتادہ اراضی کو قابل کاشت بنا کر غذائی پیداوار میں اضافہ کرنے کی بھی سبیل کرنا ہو گی اور اس کے لیے فوری طور پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔