ترکیہ کا غیرتمندانہ اقدام اورمغرب کی ذہنی پستی

یورپ سے لے کر بھارت اور آسٹریلیا تک اسلام، اسلامی شعائر، الہامی کتب اور مقدس ہستیوں کی شانِ اقدس میں گستاخی کا ارتکاب معمول بن گیاہے۔ الحادی قوتیں پینترے بدل بدل کر ہر آن اسلام پر حملہ آور ہیں۔ عالمی سامراج کا مقصد فقط یہ ہے کہ امتِ مسلمہ عضو معطل بن کر رہ جائے۔ دراصل سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ میں یکے بعد دیگرے قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات مغرب کی ذہنی پستی اور گھٹیا سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں'' آزادیٔ اظہارِ رائے اور جمہوریت‘‘ کا مظہر نہیں بلکہ بے شرمی اور اشتعال انگیزی کا سبب ہیں جن کا مقصد مذاہب کے درمیان نفرت اور تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کوہوا دینا ہے۔ پولیس و حکومت کی سر پرستی میں کھلے عام سویڈن کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت '' ہارڈ لائن‘‘ پارٹی کے سر براہ راسموس پالوڈن کی جانب سے‘ ڈنمارک اور ہالینڈ میں ''پیگیڈا تحریک ‘‘کے لیڈر ایڈون ویگنز ویلڈ کی طرف سے قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے مذموم عمل نے ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کو مذہبی آزادی، رواداری اور اعتدال پسندی کا درس دینے والے دینِ اسلام کی مقبولیت سے خائف مغرب اسلام دشمنی میں بد ترین، انتہا پسندی اور ' اسلامو فوبک دہشت گردی‘ پر اتر آیاہے۔ بد بخت راسموس پالوڈان نے گزشتہ سال سویڈن میں پُرتشدد مظاہروں کو بھی ہوا دی تھی۔
اس وقت نفرت انگیز گروپوں جیسے ''پیٹریاٹک یورپین اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دی آکسیڈنٹ‘‘ (پیگیڈا )کی مسلم مخالف مہم عروج پر ہے اور اس کا دوسرے یورپی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیوں میں بھی اہم کردار ہے۔ ' پیگیڈا ‘کی بنیاد ڈریسڈن (جرمنی) میں 2014 ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ اور اسی طرح کے دوسرے انتہا پسند گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پروان چڑھانے میں مسلسل سر گرم ہیں۔ حالیہ برسوں میں اسلام دشمنی کے پے درپے وواقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ مغرب میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا مطلب اجتماعی طور پر اسلام، اسلامی تعلیمات، اسلامی شعائر اور مقدسات کا تمسخر اڑا نا اور مسلمانوں کی تذلیل ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ یہ ناپاک جسارتیں پورے یورپی معاشرے کی اجتماعی سوچ کی مظہر ہیں جو ایک نئی صلیبی جنگ کا پیش خیمہ ہیں۔ قبل ازیں فرانس میں ایک گھنائونی سازش کے تحت فرانسیسی جریدے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کو سراہتے ہوئے یہ خاکے ریاستی سطح پر دیواروں پر آویزاں اور چسپاں کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس سے مسلم برادری کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتوں کے جذبات بھی مشتعل ہوئے تھے۔ اسلامی شعائر کی گستاخیوں میں یہود و ہنود و نصاریٰ کوئی کسر نہیں چھوڑرہے۔ آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں مقدس ہستیوں کے توہین آمیزخاکے تہذیبوں کے تصادم کی راہ ہموار کر رہے ہیں‘ لہٰذا ایسے میں اسلام مخالف مواد کے خلاف اسی نوعیت کی پابندی لگائی جائے جیسے ''ہولوکاسٹ‘‘ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ در حقیقت گوانتا نامو بے کے عقوبت خانے سے لے کر امریکی و یورپی انتہا پسندوں نے کتابِ مقدس کی بے حرمتی کاسلسلہ ایک منصوبہ بندی سے شروع کیا۔
حالیہ گستاخانہ واقعات کا رونما ہونامحض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش کے تحت یہ سوقیانہ مہم جاری ہے اور اسے کئی یورپی حکومتوں کی سر پرستی بھی حاصل ہے۔ اس کا واحد مقصد مسلمانوں کو ذہنی اذیت سے دو چار کرنا ہے۔ درحقیقت نائن الیون کے ڈرامے کے بعداسلام کی مقبولیت میں اضافہ ان اسلام دشمنوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے اور یہ اسلام کی بڑھتی مقبولیت اور قبولیت سے خائف ہیں۔ قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے خلاف پورا عالمِ اسلام سراپا احتجاج ہے۔ کیا او آ ئی سی سے یواین او تک کوئی طاقت نہیں جو اس فتنے کا تدراک کر سکے؟ افسوس او آئی سی کی رکن مسلم معاشی طاقتوں کا رِسپانس انتہائی کمزور ہے۔ سلام ہے اس 'مردِ حر‘ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان پر جنہوں نے سویڈن سے دو ٹوک کہا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے دوران نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی کوشش میں انقرہ کی حمایت کی توقع نہ رکھی جائے۔ بلاشبہ انہوں نے جارحانہ مؤقف اپنا کر صحیح معنوں میں عالمِ اسلام کی ترجمانی کی ہے۔ ترکیہ نے احتجاجاً سویڈن کے وزیر دفاع کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کر دیا اور غیرتِ ایمانی کا ثبوت دیا ہے۔ ترکیہ جیسا دلیرانہ اقدام دوسرے مسلم ممالک کب کریں گے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم امہ کا انتشار ہی ایسے فتنوں کی پیدائش کا سبب ہے۔ آ ج مسلمان اتحاد کر لیں تو مغرب اور مشرق میں اسلام کا بول بالا ہو گا۔ سویڈن، ڈنمارک کا اقتصادی بائیکاٹ کریں۔ قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے خلاف بیانات اور مذمتی قراردادوں سے اس طرح کے مکروہ افعال کا سدباب ممکن نہیں ۔ دنیا ' Might is right‘کے اصول کو مانتی ہے۔ جب تک عالمِ اسلام اپنی طاقت مجتمع نہیں کرے گا‘ استعماری قوتوں کے سامنے چیلنج بن کر نہیں ابھرے گا۔ اصل مسئلہ ہے دو ارب مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی کا، ان کے اتحاد اور فکر وعمل کا۔ تار یخ گواہ ہے کہ طاقتِ بازو کے بجائے جب مسلمان زبانی باتوں پر اتر آئے تو فاتحین نے انہیں نشانِ عبرت بنا دیا۔
یور رپ میں حالیہ برسوں میں انتہائی دائیں بازو کی کامیابیاں اور عروج ایک خطرناک اشارہ ہے اور اس کے بعد سے اسلامو فوبیا میں بھی خاصا اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے سال مئی میں یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے قابلِ ذکر پیشرفت دیکھنے میں آئی۔ فرانس میں مارین لی پین کی سربراہی میں انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی نے 23 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے صدر ایمانوئل میکرون کی پارٹی کو شکست دی۔ برطانیہ میں ''بریگزٹ‘‘ پارٹی نے 30 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اٹلی میں پاپولسٹ اور انتہائی دائیں بازو کی لیگ پارٹی نے 34 فیصد ووٹوں کے ساتھ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ان تینوں ممالک کے علاوہ جرمنی اور ہالینڈ جیسے یورپی ممالک میں بھی انتہائی دائیں بازو کا واضح عروج دیکھا گیا جو ایک خطرناک اشارہ ہے اور جو اس بارے میں سنگین سوالات اٹھاتا ہے کہ آیا یورپ دائیں بازو کی انتہا پسندی کے نئے دور میں داخل ہو گیا ہے؟ یقینا اب یورپی یونین کی پالیسی اور مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ ان جماعتوں کے درمیان کچھ اختلافات بھی ہیں لیکن ان میں کچھ مشترک خصوصیات بھی ہیں، جیسے یورپی یونین سے نکلنے کی خواہش، امیگریشن اور تارکین وطن کو واضح طور پر مسترد کرنا، اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی یعنی ''اسلامو فوبیا‘‘ کا رجحان۔ ان ممالک کے علاوہ بھارت اور اسرائیل میں بھی انتہاپسند اور مسلم مخالف جماعتیں برسرِ اقتدار ہیں۔ ان دونوں ممالک میں برسرِ اقتدار حکومتی اتحاد کے رہنما اپنے مختلف بیانات میں مسلمانوں سے زندگی تک کا حق چھین لینے کے بیانات دے چکے ہیں۔ یہ سب بھی اسلامو فوبیا کا نتیجہ ہے۔
' اسلامو فوبیا‘ نامی بیماری کا آغاز کسی نہ کسی شکل میں اسلام کے ظہورکے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ مشرکینِ مکہ نے خدا کی وحدانیت، غلاموں کی آزادی، سماجی طبقہ بندی کے خاتمے اور عدل و مساوات کا مطالبہ کرنے والے ایک نئے مذہب کو ظہور پذیر ہوتے دیکھا تو انہیں اپنی قدیم اجارہ داری کو لے کر خوف محسوس ہونے لگااور یہ اندیشہ دامن گیر ہوگیا کہ کہیں ہم اپنے ٹھاٹ باٹ اور آبائو اجداد کے رسوم ورواج سے محروم نہ کردیے جائیں۔ یہ خوف رفتہ رفتہ بڑھتا گیا اور جب اللہ کے رسولﷺ نے مدینہ منورہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیاتو کفار و مشرکین کے دلوں کا خوف نکل کر باہر آگیا۔ آج بھی دنیا بھر کے کفار کواسلام کی حقانیت اورصداقت معلوم ہے۔ تاریخ پر ان کی نظر ہے۔ یہ قرآن وحدیث کامطالعہ کرتے ہیں لیکن ان پر خوف طاری ہے کہ ایک دن اسلام کوضرورغلبہ حاصل ہوگا جس کی وجہ سے ان کے پیشوا اورمفکرین ' اسلامو فوبیا‘ کے مریض بن گئے ہیں۔ یورپ میں بڑھتا ہوا اسلامو فوبیا مستقبل میں ایک بڑے بحران سے خبردار کر رہا ہے۔
ہالینڈ اور سویڈن میں قرآنِ پاک کی بے حرمتی کے ڈانڈے یورپ کی تحریک استشراق سے بھی ملتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اوائل میں استشراق کا مقصد علومِ اسلامیہ کی یورپی زبانوں میں منتقلی تھی لیکن صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد تحریکِ استشراق کو مسلمانوں کو شکست دینے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔ لوئی نہم نے 1250ء میں منصورہ میں شکست کھانے کے بعد اپنی وصیت میں لکھا تھا ''مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا ناممکن ہے کیونکہ وہ جہاد، جاں نثاری اور قربانی کے جذبے سے سر شار ہیں لہٰذا جنگ کے طریقے چھوڑ کر علوم کے راستے سے مسلمانوں پر حملہ کیا جائے‘‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے اسلامی علوم کے اندر نقب زنی شروع کر دی اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ مشہور مستشرقی رہنما کارل بروکلمین (Carl Brocklemann) کی کتاب The history of Arabic Litrature تاریخِ عربی کا مر جع و مآخذسمجھی جاتی ہے لیکن جب بات اسلام کی آتی ہے تو یہ محقق زہر گھولتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسلام کی مقبولیت سے خائف لبرل و سیکولر اور سرمایہ دار یہود و ہنود اسلام دشمنی میں صف آرا ہیں۔ آخرمسلمان کب تک جرمِ ضعیفی کی سزا بھگتے رہیں گے؟ کیا مسلم ممالک اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ مغرب سے اسلام دشمنی لٹریچر کو ختم کیا جائے؟ یقینا پاکستان میں بھی ' استشراق ‘جیسے اہم موضوع کیلئے ایک قومی ادارے کی تشکیل نا گزیر ہو چکی ہے۔ لہٰذ اب وقت کا تقاضا ہے کہ عالمِ اسلام کے حکمران خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور دنیا بھر میں الحادی قوتوں کو روکنے سمیت مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے مؤثر حکمت عملی اپنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں