پشاور پو لیس سول لائنز کی مسجد میں ہولناک دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں 100 سے زائد شہادتوں نے پوری قوم کو ہلا کررکھ دیاہے۔ پورے ملک میں قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے حوالے ہر طبقۂ زندگی بے چینی کاشکار ہے۔ گزشتہ برس کے آخری ایام سے وطن عزیز ایک بارپھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ بلاشبہ کے پی کے ضلع بنوں میں سی ٹی ڈی کے دفتر پر حملہ اور قبائلی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں نے سنگین صورتحال پیدا کر دی ہے۔ حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے تانے بانے کالعدم ٹی ٹی پی کے الٹی میٹم سے جڑے ہوئے ہیں؛ چنانچہ موجودہ حالات کے تناظر میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ناگزیر ہو چکا ہے۔ حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے قلع قمع اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ملک میں امن وامان کے قیام میں ملکی سکیورٹی اداروں اورعساکرِ پاکستان کی کاوشیں اورقربانیاں بے مثال ہیں۔ آج اس پُر آشوب گھڑی میں 47 ء کے جذبے، قومی یکجہتی اور اتحاد کی ضرورت ہے مگر ہمارے سیاسی رہنمائوں اور سیاسی قیادت کا یہ عالم ہے کہ انہیں الیکشن‘ الیکشن کھیلنے سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ پہلے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ اب انتخابات کی تاریخ کا شور و غوغا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر کے نیا شوشہ چھوڑدیا ہے۔ پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں دو بار متواتر حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن سی ٹی ڈی کی کار کردگی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ صوبے کے انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کا 96 فیصد بجٹ توتنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور باقی کا محض 4 فیصد کارروائیوں اور آپریشنز پر صرف ہو تا ہے جو نہایت قلیل اور ناکافی ہے۔ نہ ہتھیار ہیں نہ جدید ٹریننگ، انٹیلی جنس نیٹ ورک کا بھی فقدان ہے جس کی مدد سے دہشت گردوں پر قابو پایا جا سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سال کے عرصے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو 417 ارب روپے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دیے گئے تھے۔ وہ پیسہ کہاں گیا؟ اس کابہرصورت احتساب ہونا چاہیے۔
پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملہ آور کا آسانی کے ساتھ آنا سکیورٹی انتظامات اور اداروں کی کارکردگی پربھی سوالیہ نشان ہے۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں نیکٹا، سی ٹی ڈی اور پولیس کی اَپ گریڈیشن، تربیت، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور دیگر ضروری سازوسامان کی فراہمی کے حوالے سے تجاویز کی منظوری خوش آئند ہے۔ ہمارا ملک اس وقت حالتِ جنگ میں ہے۔ دوسری جانب معاشی حالات بھی دگرگوں ہیں۔ حکومت کے معاشی جادوگر اپنا جادو دکھانے میں بری طرح نا کام رہے ہیں۔ افسوس! ہوسِ اقتدار، لوٹ مار اور بدعنوانیوں نے قوم و ملت کو عالمی ساہو کاروں کے شکنجے میں پھنسا رکھا ہے۔ آج آئی ایم ایف اپنی سخت ترین شرائط پر عمل درآمد چاہتا ہے اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے عام آ دمی کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھینا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ ملک کیلئے مشکل فیصلے کر نا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ سارے مشکل فیصلوں کا بوجھ غریب عوام پر کیوں ڈالا جارہا ہے؟ ملک کیلئے قربانیوں کاآغاز حکومتی ایوانوں سے کب کیا جائے گا؟ حکومت خود بھی کفایت شعاری اپنائے اور اپنے طرزِ عمل سے ثابت کرے کہ وہ سادگی اور ملک کی معاشی حالت کو درست کرنے کیلئے سنجیدہ ہے۔ ایک طرف آئے روز مہنگائی سے کچلے، دبے ہوئے عوام پر 'مرے کو مارشاہ مدار‘ کے مصداق پٹرول بم گر ا دیا جا تا ہے۔ بجلی مہنگی اور گیس نایاب کر دی جاتی ہے، زرعی ملک میں گندم کا بحران شدید تر ہو تا جاتا ہے کہ اب آٹا بھی غریب کی دسترس سے باہر ہوچکا ہے اور عوام کو کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔ بھوک، افلاس اور غربت کے گہرے ہوتے سائے ہیں اور دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان نے حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ ہمارے جانباز مادرِ وطن پر جانیں قربان کر رہے ہیں۔ افغان بارڈر پر سکیورٹی اہلکاروں کی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کا انخلا تو ہو گیا لیکن اب بھی پاکستان ہی نشانہ ہے۔ یہ پاک فوج اور ہمارے جوہری اثاثے ہیں جو عالمی استعمار کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتے رہتے ہیں۔ ہنود و یہود گٹھ جوڑ نے عساکرِ پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ نیکٹا کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 11 سالوں میں صرف پشاور میں14 خودکش حملے ہوئے ہیں۔ اے پی ایس سانحے کے بعد آپریشن ضربِ عضب میں تیزی آئی اور پاک فوج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ قبل ازیں ان کی سرکوبی کیلئے 2007ء اور2009 ء میں سوات میں اور 2011-12 ء میں جنوبی وزیر ستان میں آپریشنز کیے گئے۔ علاوہ ازیں 2015-16ء میں کیے گئے آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو ئے۔ دہشت گردوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا ہماری بہادر آرمی کا عظیم کار نامہ ہے کہ نامساعد حالات اور محدود وسائل میں بھی وہ ملکی سرحدوں اور اندرونِ ملک پاسبانی و نگہبانی کے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ اس جذبۂ ایمانی کے سامنے دشمن کا اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی ہتھیار ہیچ ہیں۔
موجودہ علاقائی اورخطے کی صورتحال کے تناظر میں یہ عیاں ہوچکا ہے کہ اگرچہ افغان سر زمین سے امریکہ جا چکا ہے لیکن اس کی باقیات اب بھی وہیں موجود ہیں۔ اب ایک بارپھر دہشت گردوں کے بچے کھچے عناصر کو وطن عزیز کے خلاف اکٹھا کیا جارہا ہے۔ اس میں نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ ملوث ہے بلکہ مغربی سازشیں بھی کار فرما ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان اور بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کو غیر ملکی اشیر باد حاصل ہے۔ انہیں ملک کی سلامتی و امن کو تباہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ دنیا کو یہ پیغام پہنچا یا جائے کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے اور وہ اپنی حفاظت کے قابل نہیں لہٰذا اس کے جوہری اثاثے خطرے میں ہیں تاکہ خراب امن و امان کی آڑ میں غیر ملکی فوجوں کو یہاں اترنے کا موقع مل جائے۔ خطے کے موجودہ حالات میں امریکی عزائم سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی بھارت کی آزاد کشمیر پر ٹکی گندی نظروں سے غفلت برتی جا سکتی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں ملی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان پر دبائو ڈالا جائے کہ انہیں پاکستان پر حملہ کرنے سے روکیں یا انہیں افغان سرزمین سے بے دخل کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ملکی صفوں میں اتحاد پیدا کیا جائے اورعساکرِ پاکستان کے شانہ بشانہ قومی سالمیت کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے اے پی سی کی طلبی خوش آئند ہے۔ ملک کو درپیش سلامتی کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی، ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اس نے 7 فروری کو بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک نامعقول رویہ ہے جس کی کسی طور حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اب دیکھنا ہے کہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہماری قومی سیاست میں ہر ایک نے ''بھان متی کا کنبہ‘‘ بنا رکھا ہے۔ قوم و ملت سے بیگانگی اور کرسی کے حصول نے ایک اٹیمی طاقت کو معاشی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں برسرِ اقتدار سبھی حکمرانوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ افسوس بابائے قوم کے بعد ملک کو مخلص قیادت میسر نہ آسکی اور دوسری جانب پاکستانی قوم بھی ایک ہجوم میں تبدیل ہو گئی اور ایک قوم نہ بن سکی۔ آج ہمیں ضرورت ہے کہ بحیثیت قوم اپنے ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر یں۔ دشمن کو دندان شکن جواب دینے کیلئے ہمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا وگرنہ سامراج مکارانہ وعیارانہ چالیں چل رہا ہے کہ یہاں فرقہ واریت اور عصبیت کی آگ بھڑکانے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو ملکی اداروں کے خلاف کھڑا کر دیا جائے۔ سیاسی جلسوں میں اداروں کے خلاف نعرے اسی سلسلے کی مذموم کڑی ہیں۔ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہو گا۔