زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے پاکستان کاعزمِ صمیم

اس وقت ترکیہ اور شام میں چار سو آہیں‘ سسکیاں اور چیخ و پکار بلند ہو رہی ہے۔ سکینڈوں اور منٹوں کے یہ زلزلے کتنے آفت بداماں ہوتے ہیں‘ ان ہولناکیوں اور قہر سامانیوں کا اندازہ مذکورہ مسلم ممالک کے ہولناک مناظر سے لگا یا جا سکتا ہے۔ ایسے عبرت انگیز زلزلے کے واقعات سے دل دہل کر رہ گیا ہے۔ بے شک حالیہ ہولناک زلزلے نے تباہی کا سو سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس سلسلے کے سبب ہزاروں جانیں جا چکی ہیں، لاکھوں زخموں سے چور و نجور ہو چکے ہیں۔ ہزاروں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں، فلک بوس عمارتیں زمین بوس اور چم چم کرتی سڑکیں زمین دوز ہو گئی ہیں۔ لاکھوں کار خانوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ہزاروں لوگ ملبے تلے دبے ہیں۔ متاثرین برف باری اور ٹھٹھرتی سردی میں کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔ لاکھوں اپنے عزیز و اقارب، احباب، ساتھیوں، اور غمگساروں کے فراق میں ہلکان و پر یشان ہیں۔ 20 ہجری میں حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں مدینہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے زمین پر ایڑی مار کر فرمایا کہ زمین تُو کیوں ہلتی ہے‘ کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟
اکیسویں صدی میں اتنی ریسرچ کرنے کے بعد بھی سائنس اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ا ٓگے فیل ہے۔ ترکیہ کے جنوب اور شمالی شام میں آئے زلزلے کی شدت 7.8 بتائی گئی ہے۔ اس کی گہرائی تقریباً 17.9 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز شام کی سرحد کے قریب ترکیہ کے جنوب میں غازی انتپ کا مقام تھا۔ جنوب مشرقی ترکیہ میں اور دنیا بھر میں یہ شہرقدیم ترین سمجھا جاتاہے۔ یہ شہر حلب (شام) سے 97 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہ ترکیہ کا چھٹا سب سے گنجان آباد شہر ہے۔ تادم تحریر 28 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ 6500 سے زائد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ غازی انتپ‘ جو زلزلے کا مرکزی مقام تھا‘ میں ان دنوں درجہ حرارت منفی چھ سے منفی چار تک رہتا ہے اور رات کے اوقات میں یہ گر کر منفی سات تک پہنچ جاتا ہے جبکہ پہاڑی علاقوں کی طرف یہ منفی 15تک چلا جاتا ہے۔ اگرچہ ملک شام میں موسم اس قدر سرد نہیں ہے۔ دن کے اوقات میں درجہ حرارت 10 سے 11 ڈگری سیلیئس تک ہے‘ تاہم رات کو یہاں بھی درجہ حرارت منفی تین تک گر جاتا ہے۔ اس موسم میں امدادی سرگرمیوں میں بڑی مشکل پیش آ رہی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس زلزلے کو ترک تاریخ کا بدترین سانحہ اور 1939ء کے بعد سب سے ہولناک زلزلہ قرار دیا ہے۔ شام جو گزشتہ 11 برس سے خانہ جنگی کا شکارہے‘ پہلے ہی ہسپتالوں کی تباہ حالی، معیشت کی بربادی اور بجلی، ایندھن اور پانی کی قلت جیسے مسائل سے دوچارہے، وہاں کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ پورے شام میں مختلف عسکری گروہ فعال ہیں۔ ایسے بھی واقعات پیش آئے کہ متاثرہ علاقوں میں جانے والا امدادی سامان راستے ہی میں چھین لیا گیا۔ اقوام متحدہ اس ضمن میں آخر کب اپنا کردار ادا کرے گا؟ اقوام متحدہ کے مطابق زلزلے سے 10 لاکھ سے زائد شامی متاثر ہوئے ہیں جن کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔ زلزلے کے علاوہ شام میں انسانی بحران برسوں سے جاری تنازعات اور عالمی برادری کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدت اختیار کر گیا ہے۔ شام پر پابندیاں خاص طور پر ''سیزر ایکٹ‘‘ جسے ٹرمپ دور میں امریکہ نے قانون کی شکل دی تھی‘ نے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ بیچارے اور بے بس شامی عوام ایک بار پھر مغرب کی بے عملی اور ہچکچاہٹ کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
بلاشبہ اس وقت پاکستان سمیت مسلم ممالک کا ترکیہ اور شام کے ساتھ انسانی ہمدردی کا جذبہ اسلامی اخوت کی عمدہ مثال ہے۔ آقائے نامدار، انبیاء کے تاجدار، سرورِ کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت مسلمہ کو ایک جسم سے تعبیر فرمایا ہے۔ حدیث شریف ہے کہ سب مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر ایک عضو میں بھی تکلیف ہو تو سارا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ مثال مسلمانانِ عالم کو باہمی دکھ درد میں غمگساری و ہمدردی اور تعزیت و تسلی کے حوالے سے واضح پیغام ہے۔ پوری قوم کی دعائیں دکھ کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔
شام وہ ملک ہے جہاں اسرائیل کے خلاف جنگ میں پاکستان ایئر فورس کے ہیروز کی مدد کو وہاں نصاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ شامی پاکستانیوں سے بہت محبت رکھتے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کا ترک سرزمین سے بھی عقیدت کا رشتہ ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے دورمیں بھی برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ ترک عوام کی مشکل کے وقت میں مدد کی۔ خلافت کے ختم کر دیے جانے کے بعد بھی عقیدت اور محبت دلوں سے نہ جا سکی۔ صدر ضیاء الحق نے ایک دفعہ یہ قصہ سنایا تھا کہ ان کے دورۂ ترکی کے دوران ترک قوم نے باقاعدہ طور پر پاکستانیوں کے نام پر بکروں کا صدقہ دیا تھا۔ میں جب 2015 ء میں سرکاری مہمان کی حیثیت سے ترکیہ گیا تووہاں ایک ایسے سیاحتی مقام پرگیا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حکومتی ارکان‘ جو میرے ہمراہ تھے‘ انہوں نے کہا کہ ان کیلئے جگہ بنائی جائے۔ وہاں کا منیجر میرے پاس آیا اور میرے کوٹ پر لگے پاکستان کے جھنڈے کو چوما اور مجھے ایک سپیشل ٹیبل لگوا دی۔ بلاشبہ ترکیہ کا ہم سے پیار و محبت کا رشتہ ہے اور یہی موقع ہے کہ آج آزمائش کی اس گھڑی میں اسی طرح ان کے ساتھ کھڑے ہوں جس طرح 2005ء میں وہ ہمارے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ ترک وزیر اعظم طیب اردوان پہلے غیر ملکی رہنما تھے جنہوں نے 2005ء کے پاکستان کے زلزلے سے تباہ شدہ علاقے کا دورہ کیا تھا۔ ترکی نے 75000 زلزلہ متاثرین کے لیے خوراک اور کپڑے فراہم کیے، مظفر آباد اور مانسہرہ میں دو فیلڈ ہسپتال قائم کیے، 4 لاکھ افراد کے لیے ویکسی نیشن کا انتظام کیا اور تقریباً ایک لاکھ افراد کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ امدادی سامان کے 15 طیارے، پینے کے صاف پانی پر مشتمل 12 جہاز اور امدادی سامان کے 111 ٹرک بھیجے۔ کنکریٹ کے بڑے سلیبوں کے نیچے سے زندہ بچ جانے والوں کو نکالنے سے لے کر شاندار انفراسٹرکچر کی تعمیر اور خوراک کی فراہمی تک ترکیہ نے زلزلہ زدگان کی تکالیف کو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 2010 اور 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران بھی ترکیہ نے فراخدلی سے پاکستان کی مدد کی تھی۔ یہ سیاست کو ایک طرف کرکے شام اورترکیہ کیلئے یکجا ہونے کا وقت ہے۔
ترکیہ اور پاکستان ثقافتی اور اسلامی روابط سے جڑے ہوئے ہیں۔ ترکیہ ان اولین ممالک میں سے ایک ہے جن کے ساتھ سب سے پہلے پاکستان نے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ قائداعظم کی خصوصی ہدایات پر ملک فیروز خان نون نے دسمبر 1947 ء میں ترکی کا دورہ کیا تھا اور 1948ء میں پاکستان میں ترکی کا پہلا سفیر بھی تعینات ہو گیا تھا۔ 1954 ء میں انقرہ اور کراچی میں ترک پاکستان مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مندرجات میں کہا گیا کہ دونوں ممالک ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں قریبی تعاون کو یقینی بنانے کے لیے مزید قابل عمل طریقہ کار اپنائیں گے۔اکتوبر 1966 ء میں ترک وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ صدر رجب طیب اردوان نے بھی متعدد بار اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ تنازعِ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر اردوان کا یہ بیان پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی مضبوطی کی نشاندہی کرتا ہے، لہٰذا اس وقت پوری پاکستانی قوم سے التماس ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کیلئے حسبِ سابق اپنی میسر طاقت و قوت کے ذریعے مدد کریں۔ دعائوں کیلئے رب کریم کی طرف اپنے ہاتھ اٹھائیں اور التجا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مصیبت دور فرما دیں اور ہلاک ہونے والوں کو شہدا کا درجہ عطا فرمائیں۔ ترکیہ میں زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے پاک فوج ہروال دستے کا کر دار ادا کر رہی ہے۔چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ترک بھائیوں کے لیے مشکل کی اس گھڑی میں ہر ممکن مدد کاعزم ظاہر کیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں