فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ عالمی سطح پر ایک سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غذائی عدم تحفظ کے ابھرتے ہوئے چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پاکستان نے کون سی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ موجودہ بگڑتے عالمی حالات بالخصوص روس یوکرین جنگ نے پوری دنیا کو خوارک کی قلت سے دوچارکیا ہے۔ اب انسانیت کی بقا اور غریب ملکوں میں انسدادِ بھوک و خوراک کی کمی سے تحفظ کے لیے ماہرین کا وسیع پیمانے پر فوڈ سکیورٹی اور اس سے متعلقہ معاملات سمیت اس مشکل سے نکلنے کے لیے بحث و مباحثہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ ماسکو‘ کیف تنازع نے خوراک کی پیداوار اور سپلائی پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ بے شک گلوبل معیشت کو انسان کے ہاتھوں بھی تباہی کا سامناہے جیسا کہ علاقائی تنازعات۔ موسمیاتی تبدیلیاں، قدرتی آفات اور کووِڈ19 کا بھی خوراک کی قیمتیں بڑھانے میں اہم کردار ہے۔ یوکرین‘ جسے دنیا بھر میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے ''بریڈ باسکٹ‘‘ کہا جاتا تھا‘ روس کے ساتھ تنازع کے آغاز کے بعد سے فوڈ سکیورٹی کے متعدد چیلنجز میں گھر چکا ہے۔ اس جنگ نے غذائی عدم تحفظ کے تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خوراک کے بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کووِڈ19 جیسی مہلک عالمی وبا کی بدولت پہلے ہی خوراک کی سپلائی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ افراطِ زر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ 2020ء سے گلوبل فوڈ پرائس میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور عالمی سطح پر فوڈ مارکیٹ میں سپلائی اور خوراک کے ذخائر‘ دونوں ہی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دنیا کی معاشی لحاظ سے سکڑتی مارکیٹوں کا مطلب ہے کہ روس‘ یوکرین جنگ نے خوراک کی بڑھتی قیمتوں اوراس کی دوسرے ممالک میں برآمد و درآمد کو ہی پٹڑی سے اتار دیا ہے۔ مثال کے طورپر بحرِ احمر میں آپریشنل بحری جہازوں کی پریمیم انشورنس آسمان کو چھونے سے تمام پیک کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے تو متبادل ذرائع ڈھونڈ لیے لیکن یہ اشیا غریب ملکوں کی استطاعت سے باہر ہوگئی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ‘ روس اور یوکرین کی جانب سے برآمد کردہ خوراک کینیڈا سے آسٹریلیا تک مزید مہنگی ہو گئی ہے۔ البتہ اس میں طویل فاصلے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ اس میں کچھ بعید نہیں کہ یوکرین میں جاری جنگ نے غذائی عدم تحفظ جیسے ایشوز کو ابھارا ہے مگر سوال یہاں خوراک کی رسائی اور اس کے حصول کا ہے۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل ادارہ جاتی لیول پر بھی فوڈ سکیورٹی چیلنجز پر قابو پانے کے لیے متعدد پروگرامز اور سٹڈیز کا انعقاد کیا جاتا رہاہے۔ ان مطالعاتی پروگرامز کامرکز منافع، ماحولیاتی مسائل، فوڈ سسٹم کی بحالی کے لیے ضروری اجزا، ذرائع کو یقینی بنانا ہے تاکہ ان اقدامات سے اقوام عالم مستفید ہو سکیں اورمحفوظ خوراک کے نظام سے دنیا کی آبادیوں کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے۔
موجودہ عالمی بدلتے منظر نامے اور بڑھتے ہوئے غذائی عدم تحفظ کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں۔ پاکستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی آبادی کا حامل ہے‘ جس کو دن میں تین وقت کھانا کھلانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 43 فیصد پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 18 فیصد کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے پانچ دریائوں کی دھرتی، تاریخ کے قدیم ترین تہذیبی مرکز اور زراعت و خوراک میں خود کفیل خطے کوسیاسی عدم استحکام، نااہلی، غیر مسابقتی تجارتی نظام، افسر شاہی اور اقربا پروری نے بھوک و قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ خود غرضی، قلیل مدتی فوائد اور بصیرت کی کمی نے ہمیں مستقبل کی صحیح تصویر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیاہے۔ افسوس! ہمارے پاس اس کے حل کے لیے نہ کوئی منظم پلاننگ ہے نہ ہی دیگر متبادل ذرائع اور نہ ہی کوئی اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ غذائی تحفظ تقریباً تمام خلیجی ممالک کی ترجیحات پر ہے اور پاکستان ایک طاقتور باہمی تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے۔
وطن عزیز کودرپیش چیلنجز میں ایک زرعی اراضی کا کم ہونا ہے۔ دور دراز پسماندہ علاقوں اور دیہات سے شہروں کی جانب ہجرت و منتقلی ایک عالمی وبائی مرض بن چکی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں لوگ بہتر مستقبل، روزگار اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور اس رجحان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات دیہات میں لوگوں کے پاس کم زرعی زمین، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کا محدود اور قلیل مقدار میں ہونا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کی طلب میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے اور جس سے غیر صحت بخش خوراک کی پیداوار بڑھ گئی ہے۔ دیہات سے شہروں کی جانب منتقلی کا دوسرا بڑا سبب بیماریوں کا پھیلنا ہے۔ دور‘ دراز قصبوں میں شرحِ اموات کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے۔ شہروں کی طرف آبادی کے ایک بڑے حصے کی ہجرت کے اسباب میں بڑھتی ہوئی آبادی، بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی، گھروں کی قلت، سیلاب، قدرتی آفات، آلودگی، گندگی کا پھیلائو، کچی آبادیاں، جرائم اور غربت نمایاں ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان انہی حالات کی منظر کشی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں نواحی علاقوں میں زمیندار اپنی زرعی اراضی کو فروخت کرکے کمرشل و رہائشی منصوبے تشکیل دے رہے ہیں۔ فارمنگ وزراعت کی زمین پر بڑے بڑے رہائشی پروجیکٹس کے قیام کا مطلب قومی سطح پر غذائی بحران میں اضافہ ہے۔ ایک عشرہ قبل پاکستان ایک زرعی ملک اور خوراک میں خودکفیل تھا۔ بدقسمتی سے زرعی اراضی پر دھڑا دھڑ بڑے بڑے ہائوسنگ پروجیکٹس کی تکمیل نے ہمیں خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گندم و دیگر زرعی اجناس امپورٹ کرنے پر مجبور کردیا جس نے ہمارے امپورٹ ایکسپورٹ بیلنس، فارن ایکسچینج اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ دوسری جانب گزشتہ سال کے بدترین سیلاب نے بھی پاکستان کو قحط و بھوک کے دہانے پر پہنچا دیا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق دنیاکے 116 ممالک میں پاکستان 92ویں نمبر پر ہے۔ امریکی انٹرنیشنل فوڈ سکیورٹی اسیسمنٹ آف ایگریکلچرل کے مطابق آنے والے سالوں میں پاکستان کی 38 فیصد آبادی خوراک کی قلت کا شکار ہوگی۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی و فضائی آلودگی بھی پاکستان کے بڑے شہروں پر ایک بڑے خطرے کی صورت میں منڈلا رہی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق لاہور اور کراچی بڑھتی فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوگئے ہیں جس کے انسانی صحت اور معیشت پر پڑنے والے مہلک اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیہی آبادی کی شہروں میں ہجرت میں تیزی، ناقص پالیسیوں، شعور و آگاہی کی کمی، ناکافی قوانین اور بیروزگاروں کی بڑھتی تعداد نے مجموعی طور پر ماحولیاتی سسٹم کوایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے اٹھنے والے دھویں اور گیسوں اور کھیتوں میں فصل کی باقیات کو جلانے جیسے واقعات ملک میں آلودگی بڑھنے کی بڑی وجوہات ہیں۔
اس وقت سکڑتی زرعی اراضی کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے‘ علاوہ ازیں کاشتکار وں کی مارکیٹوں تک رسائی میں سہولت کے لیے ذرائع آمد و رفت کی ترقی کے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایک صحت مند معاشرے کے قیام میں نہ صرف غذائی تحفظ بلکہ قومی سیاسی و معاشی طور پر استحکام بھی ناگزیر ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان فی الوقت سیاسی اشرافیہ کی بدولت اقتصادی بحران میں گھرا ہوا ہے۔ اقتدار کے حصول اورذاتی مفادات کے لیے باہم دست وگریبان ہماری قومی لیڈر شپ زرعی اصلاحات، آبپاشی کی ترقی، ترقی یافتہ ممالک سے سبز ٹیکنالوجی کی منتقلی اور کسان دوست زرعی پالیسیوں کی تشکیل پر اپنی توجہ مرکوز کرنے سے گریزاں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک سے گرین ہائوسز گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ترقی پذیر دنیا کو تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان نے اس معاملے کو یواین او میں اٹھایا ہے۔ پاکستان کو اپنی کوششوں کے ثمرات سمیٹنے کے لیے اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں پر دبائو جاری رکھنا چاہیے۔