کون جانتا ہے کہ گزشتہ 75 برسوں میں لیا گیا سینکڑوں ارب ڈالر کا قرضہ کہاں گیا؟ کہاں خرچ ہوا اور کہاں خرچ ہو رہا ہے ؟مقروض ملکوں میں قرضوں اور امداد کے نام پر من پسند حکومتیں بھی بنائی جاتی ہیں اور ان قرضوں کے عوض ایسی اقتصادی پالیسیاں بھی بنائی جاتی ہیں جن سے غریب‘ غریب تر اور امیر‘ امیر تر ہو۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ عالمی استعماری و طاغوتی قوتوں کا اصل ہدف ہماری ایٹمی صلاحیت اور جری و نڈر پاک فوج ہے۔ موجودہ خوفناک حالات اس خدشے کی طرف اشارے دے رہے ہیں کہ لوگوں کو روٹی کے چکر میں اس قدر پھنسا دیا جائے گا کہ بالآخر ان سے پوچھا جائے کہ تمہیں روٹی چاہئے یا ایٹمی صلاحیت۔ مہنگائی کے عفریت کے شکار عوام کا جواب کیا ہو گا‘ یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ خدا کبھی یہ وقت نہ لائے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے ہم نے اپنی خود مختاری، سالمیت، اپنی خودی اور قومی آزادی کا سودا کرتے ہوئے وطن عزیز کو عالمی ساہوکا روں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ اب ہماری پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی عالمی اداروں کی منشا سے ہوتی ہے۔ قومی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں بھی ان کے سامنے پیش کرنے کے ہم پابند ہیں اور بجٹ سمیت معاشی پالیسیوں میں ردوبدل کی منظوری اور نامنظوری کا دارومدار بھی ان اداروں کی منشا کا مرہونِ منت ہے۔ چنانچہ حاکمِ وقت سے سوال تو بنتا ہے کہ پھر ہم کہاں کے آزاد ہیں؟ کسی ایک پارٹی یا کسی ایک فرد نے نہیں بلکہ تمام جماعتوں اور پوری سیاسی قیادت نے مل کر ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالاہے۔ ہماری حکومتوں کے شاہانہ اخراجات کی وجہ سے ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس چکا ہے اور ہم عالمی قرض دہندگان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس وقت معاشی حالات ابتری کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اس امید سے وابستہ ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط کی منظوری کے بعد سب کچھ درست سمت میں چلنے لگے گا۔ جو ملک پہلے ہی قرضوں کے بوجھ میں دھنسا ہوا ہو‘ مزید قرضوں کا مطلب اس
پر مزید بوجھ لادنا ہے۔ اگر ملکی وسائل سے اس معاشی بحران کا حل تلاش نہ کیا گیا تو معیشت جلد یا بدیر تباہ ہو سکتی ہے۔
1960 ء کی دہائی میں پاکستان ایشیا کا معاشی ٹائیگر بننے جا رہا تھا‘ اس کی اقتصادیت درست سمت میں تھیں۔ ہمارا ملک کوریا، تھائی لینڈ ودیگر مشرقی ایشیائی ممالک سے آگے تھا، اب مگر وقت بدل گیا ہے اور بدقسمتی سے بیشتر مشرقی ایشیائی ممالک معاشی اور سماجی میدان میں ہم سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ یہ بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی آبادی، دھرتی کو سرسبز وشاداب بنانے اور سیراب کرنے والے پانچ دریا اور تاریخ کے قدیم ترین تہذیبی ورثے کا امین پاکستان سیاسی عدم استحکام، نااہلی، غیر مسابقتی تجارتی نظام اور فرسودہ ریاستی نظام کا شکار ہے۔ متضاد ٹیکس، ٹیرف اور ناقص اقتصادی پالیسیوں کے نتیجے میں اداروں کی ناقص کارکردگی، بڑھتی ہوئی بدعنوانی، کمزور حکومتی اصول و ضوابط اور قواعد‘ جن میں ہم آہنگی کی قلت پائی جاتی ہے‘ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ ہیں۔ اس وقت سیاسی و معاشی استحکام، مستقل مزاجی سے ٹیکسیشن، نجکاری، خصوصی اقتصادی زونز، آئی ٹی انڈسٹری اور فارماسیوٹیکلز سمیت قومی دھارے میں شامل تمام سٹیک ہولڈرز پرفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وطن عزیز کے لیے مذکورہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شمیم احمداپنی کتاب ''The Equitable Tax‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ''خود غرضی، قلیل مدتی فوائد اور بصیرت کی کمی ہمیں مستقبل کو دیکھنے اور اس کے عکس کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیتی ہے‘‘۔ نئے کاروبار اور صنعتوں کی ترقی اور ان کے ذریعے بے تحاشاپیسہ بنانے کے لیے ان کی پذیرائی اور تعاون ہی روزگارکے مواقع کے فروغ کا بہترین طریقہ ہیں۔ بدقسمتی سے ہم میں قومی ومقامی سطح پر ایک مضبوط گورننس ماڈل کی کامیابی کی حمایت کرنے کے بجائے اس پر تنقید کرنے اور اس میں کیڑے نکالنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ انہی تعصبات اور جانبدارانہ تجزیوں کے باعث ایک فعال اور مؤثر ٹیکس نیٹ وجود میں نہیں لایا جا سکا اور اشرافیہ کے ٹیکسوں کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا گیا۔ 23 کروڑ سے زائد آبادی میں سے صرف 30 لاکھ ٹیکس فائلرز ہیں۔ غیر رجسٹرڈ لیکن پھیلتا ہوا خوردہ سیکٹر سوائے زراعت کے‘ کارپوریٹ فارمنگ اور ڈیری انڈسٹری ٹیکس سے مستثنیٰ ہے۔ افسوس ! کرپشن کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے میگا ریونیو پیدا کرنے والے طبقے بھی ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ میں ایف بی آر کے اس بیان سے سکتے میں ہوں کہ ایف بی آر کا ٹیکس وصولی خسارہ 300 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 5156 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہو سکا جبکہ آئندہ سہ ماہی میں 2484 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف ہے۔ عوام پر بے انتہا ٹیکسز لگا کر بھی وصولی کا ہدف پورا نہیں کیا جا سکا۔ یہ سارا فرق سلیکٹو ٹیکسیشن سسٹم کی وجہ سے ہے‘ لہٰذازراعت خصوصاً زرعی زمینوں کی ملکیت کو شامل کرکے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پہلے سے ٹیکس کے بوجھ تلے دبے صارفین پر مزید ٹیکس لگانے سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گا۔ غیر ملکی سرمایہ کار باقاعدہ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی‘ دونوںسطح پر ٹیکسز کے ضوابط پر عمل کرنا مشکل ہے، نیز ٹیکس کے جائزے قابلِ اعتراض اور غیر شفاف ہوتے ہیں۔ 2013ء کے بعد سے حکومت نے کمپنیوں سے ایڈوانس ٹیکس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جس نے کاروباری آپریشنز کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ 10 فیصد ''سپر ٹیکس‘‘ کاروبار میں بہت بڑی مندی کا باعث بنے گا اور شایدیہ معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دے۔
مقامی طور پر مستحکم اور مضبوط معاشی پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی اوران کے آگے بڑھانے کا راستہ ہے اور یہ عمل بنا کسی تکلیف کے اور کسی سرخ فیتے کے بغیر ہونا چاہیے۔ ذاتی مفادات یا محض قوتِ ارادی کے فقدان نے پاکستان کی معیشت کو آخری سانس لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن شفافیت ہی وقت طلب منظوری کے عمل کو ختم کر سکتی ہے؛ چنانچہ جب ہم سپیشل اکنامک زونز کی بات کرتے ہیں تو سی پیک سب سے اوپر ہے۔ سی پیک بڑی آمدنی والی صنعتوں، سڑکوں کی نقل و حمل اور پڑوسی علاقوں کے ساتھ آئی ٹی کاریڈورز کے لیے ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ مزید برآں ایگری زونز بھی خصوصی توجہ کے منتظر ہیں۔ یہ سرمایہ کاری کے حوالے سے سونے کی کانیں ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غذائی تحفظ تقریباً تمام خلیجی ممالک کی ترجیحات پر ہے اور پاکستان ایک طاقتور باہمی تجارتی شراکت دار بن سکتا ہے۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی نجکاری سے قلیل مدت میں فوری معاشی بحالی اور طویل المدتی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یقین جانیے ہمیں آئی ایم ایف یا دوست ممالک سے چند بلین ڈالر کے قرضوں کے حصول کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ہمارے پاس اس سے کہیں زیادہ آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوگی اور ان تمام مواقع کے ثمرات سے مستفید ہونے میں درپیش سب سے بڑی رکاوٹ اشرافیہ اور وژن سے عاری سیاسی قیادت ہے۔ ٹیکس نیٹ سے باہر اشرافیہ کی گرفت وقت کی پکار ہے۔ صنعتی، کارپوریٹ اور پبلک سیکٹرز کا فوری تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مرتے ہوئے یا بیمار یونٹوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نجی ملکیتی اداروں سے مزید مواقع فراہم کیے جاسکیں۔پی آئی اے کا روزویلٹ ہوٹل‘ نیویارک مین ہٹن میں واقع یہ دلکش پرپراٹی اپنی شان و شوکت کے مطابق احیا کی التجا کر رہی ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی پرائیویٹائزیشن اس سنگین معاشی صورتحال سے نکلنے کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتی ہے؛ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں بعض اداروں کی نجکاری نے کارپوریٹ انڈسٹری کو مضبوط کیا۔ پیٹرو کیمیکل پالیسی پر گزشتہ سال اپریل میں دستخط ہوئے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ پالیسی ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لائے گی۔ آج ہم اپریل2023 ء میں پہنچ گئے ہیں‘ ابھی تک کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ بے شک ہم نے بار بار مواقع ضائع کیے ہیں۔ حکومتوں کی معیشت کے حوالے سے ایک ہی پالیسی رہی ہے کہ زمینی حقائق نظر انداز کریں اور پھر بھاری سود پر مبنی غیر ملکی قرضوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیں۔ یا توہم کسی معاشی ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھاتے یا پھر اس کے فروغ کے لیے ایک سے زیادہ راستے بنالیتے ہیں، جس سے اختیارات کا تصادم ہوتا ہے اور وقت ومعیار اوورلیپنگ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری کے لیے سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کا قیام اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ ذمہ داریاں اب عدم توجہ کا شکار اور منقسم ہیں۔ آئی ٹی سے متعلقہ مختلف اتھارٹیزکو ٹیلی کام کی وزارت کا ذیلی ادارہ ہونا چاہیے تاکہ درجہ بندی کی پیشرفت اور مفادات کے تصادم کے بغیر کام کے تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمارے سامنے نائیجیریا اور سری لنکا کی مثالیں موجود ہیں جو سود کی ادائیگیوں کی زد میں ہیں۔ کیا ہم نے بھی ایسی کوئی پلاننگ تو نہیں کر رکھی؟ بلاشبہ پاکستان اپنے ذمہ واجب الادا قرضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ایک ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے جس سے نکلنے کے لیے فوری طور پر ہمہ جہت قومی تدبیر ناگزیر ہے جو ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔