اسرائیل کو تسلیم کرنا قبلۂ اول سے غداری

30 مارچ کو امریکی جیوئش کانگریس کے ایک خط نے پاکستان بھر میں تہلکہ مچا دیا اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ شور مچنے لگا کہ پاکستانی مصنوعات تل ابیب (اسرائیل) کی مارکیٹوں میں بیچی جا رہی ہیں۔ امریکن جیوئش کانگریس کے مطابق اس لین دین میں کراچی میں مقیم ایک پاکستانی یہودی تاجر فیشل بن خالد سمیت یروشلم اور حیفا کے تین اسرائیلی تاجر شامل تھے۔ فیشل نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر کھجوروں، خشک میوہ جات اور مسالا جات کی ایک وڈیو بھی شیئر کی جنہیں پاکستان سے اسرائیل ''برآمد‘‘ کیا گیا تھا۔ پاکستان کی تجارتی آئٹمز کی اسرائیل میں موجودگی سے ایک لرزہ طاری ہو گیا کہ آخر یہ پروڈکٹس وہاں کیسے پہنچیں؟ انہیں کون لے کر گیا؟ اور کس نے اجازات دی؟
ان تمام سوالوں کے تانے بانے گزشتہ حکومت اور 2005ء کی پرویز مشرف حکومت سے جا کر ملتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی صہیونی وزیر خارجہ سے ترکیہ کے ایئر پورٹ پر ایک خفیہ ملاقات ہوئی تھی؛ تاہم اس ملاقات کے پس پردہ محرکات اور مقاصد آج تک صیغۂ راز میں ہیں۔ خورشید قصوری متعدد بار اپنے انٹرویوز میں اس ملاقات کی تصدیق کر چکے ہیں۔ یکم ستمبر 2005ء کو یہ ملاقات ہوتی ہے اور 12 ستمبر کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے پاکستانی مصنوعات پر عائد 96 فیصد پابندیاں اٹھا لی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ایک سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں نومبر 2018ء میں ایک بار پھر اسرائیل کی گونج سنائی دیتی ہے اور ایک اسرائیلی طیارہ براستہ عمان اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترتا ہے جسے پوری دنیا کے میڈیا میں ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ بی بی سی نے اس حوالے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی جبکہ پاکستانی حکومت نے اس کو چیلنج کرنے کے بجائے اسرائیلی جہاز کی پاکستان میں آمدکو ماننے سے انکار کر تے ہوئے عوام میں اس یقین کو پختہ کر دیا کہ ایسا کوئی جہاز پاکستان نہیں آیا۔
5 جنوری 2019ء کو ایک اور اسرائیلی جہاز سرزمینِ پاک پر اترتا ہے جس میں اسرائیلی نژاد مسافر سوار ہوتے ہیں اور جس کی تصدیق وزارتِ داخلہ کی دستاویزات سے ہوتی ہے جہاں ان مسافروں کی رجسٹریشن سب سے بڑا ثبوت ہے۔ بعد ازاں24 جنوری کو‘ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق‘ پاکستان کے واحد یہودی شہری فیشل بن خالد کو بطور پاکستانی شہری یہودی
تسلیم کرتے ہوئے مذہب کے خانے میں یہودیت درج کرانے کے ساتھ ساتھ اسرائیل جانے کی اجازت بھی مل جاتی ہے۔ ایک امریکی این جی او کی سربراہ انیلہ علی کا اس حوالے سے ایک وڈیو بیان ریکارڈ پر ہے کہ کس طرح وہ فیشل بن خالد سے ملی اور اسے اسرائیل جانے کی اجازات دلانے کیلئے بین المذاہب ہم آہنگی کے وزیر کو پاکستان میں منعقدہ ''ریلجیئس فریڈم کانفرنس‘‘ میں مد عوکیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کے اس یہودی شہری کی مدد کریں۔ انیلا علی کے مطابق مذکورہ وزیر نے اسے خوش آئندقرار دیا اور پھر فیشل بن خالد نے سٹیزن پورٹل پر درخواست دی اور اسے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں مذہب کے خانے میں یہودیت لکھنے کی اجازت مل گئی۔ فیشل بن خالد کا نام اس سے قبل شناختی کارڈ پر ''فیصل بن خالد‘‘ درج تھا۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اسلام آباد میں اپنا کیمپ لگائے رکھا اور ایک ہفتے تک پاک سر زمین پر اسرائیلی جھنڈا لہراتا رہا۔ افسوس کہ اس دوران کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس کا نوٹس نہ لیا۔ بالآخرایک پاکستانی جوان نے اس جھنڈے کو پھاڑ دیا۔
پاکستان کے ریاستی ٹی وی کے اینکر احمد قریشی مئی 2022ء میں ایک گروپ کے ساتھ نہ صرف اسرائیل گئے بلکہ اس وفد نے اسرائیلی پارلیمنٹ کا دورہ کیا اور اسرائیلی صدر سے بھی ملاقات کی۔واضح رہے کہ اسرائیل کے ایک اخبارنے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر زلفی بخاری نے بذریعہ لندن اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ زلفی بخاری کے مطابق انہوں نے ''مڈل ایسٹ مانیٹر‘‘ نامی اخبار کو یہ خبر چھاپنے پر لیگل نوٹس بھیجا تھا جس پر اس نے معذرت کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ یہ ایک جھوٹی خبر تھی۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی تھی اور یہ سب کچھ اسرائیلی طیارے کی پاکستان آمد کا تنازع سامنے آنے کے کچھ عرصے بعد ہی ہوا تھا۔ دوسری جانب میڈیا میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی اور کئی سینئر اینکرزاپنے پروگرامز میں کہتے رہے کہ جب اسرائیل کو دیگر عرب ممالک تسلیم کر رہے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ ہمیں یہ سوال اٹھانے کے بجائے عالمی برادری سے پوچھنا چاہیے کہ 1948ء میں فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں نے قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا نام کیوں دیا؟ کون سا عالمی قانون ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ہمیں خود سے بھی پوچھنا چاہیے کہ اگر اسرائیلی یہودی مسجدِ اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی بنا لیں تو مسلمان کیا کریں گے؟
اب یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے سرکاری مؤقف کے پیش نظر فیشل بن خالد پاکستان سے اسرائیل کو خوردنی مصنوعات برآمد کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ حکومت مستقبل میں ملک کی خارجہ پالیسی کی ایسی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرے گی؟ کیا حکومت بن خالدکے خلاف کوئی کارروائی کرے گی؟ اگرچہ یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ حکومت نے اس واقعے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرائے تاکہ یہ سخت پیغام جائے کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فیشل نے جولائی 2018ء میں ایک انگریزی جریدے میں اپنا پہلا مضمون ''میں ایک یہودی ہوں اور ایک پاکستانی‘ مجھے اسرائیل جانے دو‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ اب اس کی خواہش پوری ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا کوئی عندیہ تھا؟ سابق دورِ حکومت میں مَیں نے ایک اعلیٰ شخصیت سے اسرائیلی طیارے اور اسرائیلی مسافروں کی آمد کی بات کی تو وہ اس سے بے خبر تھے۔ میں نے انہیں ثبوت دکھائے تو انہوں نے تحقیقات کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن بعد ازاں یہ معاملہ سرد خانے کی نذر کر دیا گیا لیکن فیشل بن خالد کی اسرائیل روانگی اور پاکستانی پروڈکٹس کی اسرائیل میں فروخت نے اس صورتحال کو گمبھیر بنا دیا ہے۔ دستیاب تفصیلات کے مطابق فیشل خالد کوشر فوڈ (یہودی کھانوں) کا کاروبار کرتے ہیں۔ اس سے قبل وہ پاکستانی گوشت تل ابیب فروخت کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق وہ پاکستانی اشیا یواے ای کی ایک پارٹی کو سپلائی کرتے ہیں جو انہیں یروشلم پہنچا دیتی ہے۔ واضح رہے کہ یو اے ای سمیت کئی عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پہلے ایسا ممکن نہیں تھا، ستمبر 2005ء کی ملاقات کے بعد اسرائیل کی جانب سے یہ تجارتی بندشیں معطل کی گئیں۔
1881ء کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں 153 یہودی آباد تھے جبکہ 1901ء کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں یہودیوں کی کل آبادی 482 تھی اور تقریباً سبھی کراچی میں رہتے تھے۔ 1919ء تک یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 650 ہو گئی۔ 1947ء میں تقریباً 1500 یہودی صوبہ سندھ میں رہ رہے تھے جن کی اکثریت کراچی میں مقیم تھی۔ راولپنڈی میں بھی کچھ یہودی خاندان آباد تھے اور پشاور میں بھی یہودیوں کی ایک چھوٹی آبادی رہتی تھی۔ نادرا کے مطابق پاکستان میں 745 رجسٹرڈ یہودی خاندان ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2013ء کے عام انتخابات میں 809 بالغ یہودیوں نے بطور ووٹر اپنا اندراج کرایا تھا۔ 382 مردوں کے مقابلے میں یہودی خواتین ووٹرز کی تعداد 427 تھی جبکہ 2017 ء تک ملک بھر میں تقریباً 900 یہودی بطور ووٹر رجسٹرڈ تھے۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہوا ہے کہ ''یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے ہر ملک کیلئے کارآمد ہے‘‘۔ اس لیے صہیونی ریاست کے ساتھ تجارت براہِ راست ہو یا بالواسطہ‘ میرے نزدیک ناجائز ہے۔ یہ غداری ہے فلسطین کے ساتھ‘ قبلۂ اول کے ساتھ اور یہ غداری ہے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کے ساتھ‘ جنہوں نے کہا تھا ''اسرائیل ایک غیر جائز ریاست ہے‘ جسے فلسطینی مسلمانوں کی سرزمین پر قبضے کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسرائیل تسلیم کرنے کے معاملے پر کہا تھا: ہماری روحیں برائے فروخت نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ اس صدی کا یہودیوں کا میگا پروجیکٹ ''گریٹر اسرائیل‘‘ ہے اور پاکستان اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہنود و یہود کو پاکستان کے جوہری اثاثے اسی لیے کھٹکتے ہیں کیونکہ اس وقت اسرائیل کو عرب دنیا میں کسی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے 1967ء میں پانچ عرب ریاستوں کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ''ہمارے وجود کے لیے خطرہ صرف پاکستان ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسرائیل نامی کینسر کا تریاق ہے۔ اسی لیے ایسی جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں کہ پاکستانی حکام اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنے والے کبھی قرآن پاک کی اس آیت پر بھی غور کر لیں ''تم دیکھو گے کہ اہلِ ایمان کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک (بت پرست) ہیں‘‘ (المائدہ: 82)۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں