جیو سٹریٹیجک پوزیشن کے حوالے سے ترکیہ میں ہوئے حالیہ الیکشنز کو 2023ء کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مسلسل تین بار صدارتی انتخابات جیتنے والے طیب اردوان کی مثبت خارجہ پالیسیوں نے ترکیہ کو عالم اسلام میں کھویاہوا مقام دوبارہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ علاقائی تنازعات ہوں یا عالمی معاملات‘ طیب اردوان نے مثبت قائدانہ رویہ اختیار کیا۔ یہ خوش آئند ہے کہ صدر اردوان ترکیہ کے سربراہِ حکومت کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور اب ایک بار پھر وہ ترکیہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ جہاں ان کی کامیابی سے عالم اسلام میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے تو دوسری جانب مغرب اس پر حواس باختہ ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات بھی بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ مغرب کا اردوان کے خلاف یہ بیانیہ بھی دم توڑ گیاہے کہ انہیں عوامی حلقوں میں مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ترکیہ کی حکومت زلزلہ متاثرین کی بحالی میں ناکام رہی ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج نے رجب طیب اردوان کی شکست کے خواہشمندمغرب کی امیدوں پر پانی پھیردیا ہے۔ مغرب کیلئے یہ الیکشنز ایک سبق بھی ہیں کہ ان کی بے جامداخلت نے ترکوں کے قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا بلکہ بیرونِ ملک اسلاموفوبیا کے شکار ممالک میں ترک شہریوں کی جانب سے طیب اردوان کوبھاری اکثریت سے کامیابی ملی۔ حالا نکہ ناقدین اور مخالفین نے انہیں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان پر تعمیراتی ضابطوں پر عملدرآمد نہ کرانے اور قدرتی آ فت اور ہنگامی صورتحال میں مؤثر کردار ادا نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا؛ تاہم زلزلے سے متاثرہ علاقوں سے بھی اردوان اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ بلاشبہ رجب طیب اردوان ترکیہ کے سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے رہنما ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس کامیابیوں کا ریکارڈ ہے، خاص طور پر میدانِ معیشت میں، اس لیے بہت سے ترکوں کو ان کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔
صدارتی انتخاب کے نتائج کے مطابق صدر اردوان 52.12 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ اپوزیشن امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو 47.89 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ رجب طیب اردوان نے تیسری بار صدر منتخب ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے جبکہ وہ اپنے 20 سالہ دورِ اقتدار کو مزید مستحکم رکھنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کا شمار چند ایسے عالمی رہنمائوں میں ہوتا ہے جن کی سیاست کی بنیاد عوام کی خدمت ہے۔ 1997ء میں رجب طیب اردوان نے سیرت شہر کے ایک جلسۂ عام میں دورانِ خطاب ایک شعر پڑھا تھاجس کے الفاظ تھے ''مساجد ہماری بیرکیں ہیں، گنبد ہمارے خود ہیں، مینار ہمارے نیزے ہیں اور وفادار صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں، کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی‘‘۔ اس جلسے کے بعد محض ان شعروں کی وجہ سے انہیں 12 دسمبر 1997 ء کو جیل جانا پڑاجبکہ انہیں استنبول کی مئیرشپ سے بھی معزول کر دیا گیا۔ ان کی پارٹی تک کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔2001 ء میں انہوں نے عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ''جسٹس اینڈڈویلپمنٹ‘‘ کے نام سے ایک نئی پارٹی بنائی۔ 2002 ء کے الیکشن میں انکی پارٹی نے دوتہائی ووٹ لے کر فتح حاصل کی۔ تب سے اب تک یہ پارٹی ترکیہ کی حکومت کوکامیابی سے سنبھالے ہوئے ہے۔ رجب طیب اردوان کے سفر میں بہت سی مشکلات آئیں مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ترکیہ کی قسمت کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کے عرصۂ حکمرانی میں ترکیہ نے تعمیر و ترقی کی شاندار منازل طے کیں۔ ترکی ''مردِ بیمار‘‘ سے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرا۔
طیب اردوان مظلوم مسلمانوں کی طاقت اور ان کے حقوق کی ایک مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں۔ تیسری بار ان کی کامیابی ان کی لیڈرشپ پر ترک عوام کے اعتماد اور یقین کو ظاہر کرتی ہے۔ سارے عالم کے مسلمان بالعموم اور بر صغیر کے مسلمان بالخصوص ترکیہ سے ایک والہانہ محبت کا تعلق رکھتے ہیں۔ جولائی 2016ء میں جب ترک فوج کے ایک حصے نے بغاوت کی تو اردوان کے محض ایک پیغام پرساری قوم نے اپنے گھروں کو چھوڑکرراستوں اور سڑکوں پر بسیرا کیا اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اپنے سچے رہبر کی آواز پر لبیک کہا۔ اس وقت ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ اس شخص کی حکومت ترک عوام کے دلوں پر ہے۔ حالیہ الیکشن میں پانچ کروڑ 21 لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے۔ ووٹنگ ٹرن آؤٹ 85.71 فیصد رہا۔ واضح رہے کہ ان انتخابات کو اردوان کے سیاسی کیریئر کے لیے مشکل ترین مرحلہ قرار دیا جا رہا تھا کیونکہ ترکیہ کے معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ بہرحال اردوان کیلئے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کو مستحکم بنانا، قوم کو حالیہ زلزلہ کے اثرات سے باہر نکالنا، عالمی طاقتوں کو ترکیہ کی اہمیت کا قائل کرنا اور اسلامی اتحاد کو یقینی بنا نا ہے۔ دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ جب رجب طیب اردوان جیت کے بعد صدارتی محل سے خطاب کر رہے تھے تو اس سے ٹھیک 570 سال قبل سلطنت عثمانیہ نے قسطنطنیہ (استنبول) فتح کیا تھا۔ اس حوالے سے ترکیہ کے صدر کا کہنا تھا کہ وہ دن ہماری تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا اور آج کی ہماری کامیابی کا دن بھی ترکیہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا۔
اردوان نے پہلی مرتبہ جب 2003 ء میں اقتدار سنبھالا تھا اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کا ایک وژن عطا کیا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ سے قبل اردوان 1994ء اور 1998ء میں استنبول کے میئر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ 2001ء میں قائم کی گئی ''اے کے پی‘‘ پارٹی کے وہ شریک چیئر مین ہیں۔ اس جماعت کو 2003ئ، 2007ء اور پھر 2011ء میں کامیابی ملی۔ اس کے بعد ترکی میں صدارتی نظام کا نفاذ ہو گیا اور رجب طیب اردوان 2014ء سے عہدۂ صدارت پر فائز ہیں۔ انہوں نے اتاترک اور بعد میں آنے والے حکمرانوں کی اسلام دشمن پالیسیوں کو ختم کر کے رکھ دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح آ ئند ہ برسوں میں ترکیہ کی عالمی سطح پر اہمیت تسلیم کراتے ہوئے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ ملک کی معاشی پریشانیوں سے نمٹنا ان کی اولین ترجیح ہو گی، اس وقت ترکیہ میں افراطِ زر 43.70 ہے جس کی ایک وجہ ترقی کو تیز کرنے کے لیے شرحِ سود میں کمی کی ان کی غیر روایتی پالیسی ہے۔ جب اردوان استنبول کے میئر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے تو انہوں بہت سی اصلاحات متعارف کرائی تھیں جن سے رہائشیوں کو فائدہ پہنچا، جیسے آلودگی، ٹریفک جام اور پانی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنا۔ چونکہ اردوان کی شہرت ایک اسلام پسند رہنما کی ہے‘ اس لیے وہ پچھلی دو دہائیوں سے مغربی میڈیا کے حملوں کی زد میں ہیں۔
پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور پاکستان جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور ہیں لیکن وہ مذہب اور ثقافتی ورثے پر مبنی تاریخی بھائی چارے کی وجہ سے سیاست، معیشت اور دفاع جیسے بہت سے شعبوں میں قریبی تعلقات اور تعاون کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ترکیہ پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔ یہ ایک انتہائی اہم اقدام تھا جس نے دونوں ممالک کے عوام کی دوستی اور بھائی چارے کو تقویت بخشی۔ آج بھی مشکل گھڑی میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ترکیہ ہی ہے جس نے کشمیر ایشو پر ہر عالمی فورم پر پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی۔ حالیہ دنوں میں بھارت نے ایک سازش کے تحت جی 20 اجلاس عالمی متنازع علاقے مقبوضہ کشمیر میں منعقد کرا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی تو ترک قیادت نے بھارتی سازش کو بھانپتے ہوئے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ اقدام ترکیہ کی پاکستان کے ساتھ بے لوث محبت کا عملی ثبوت ہے۔