شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے قریب ایک صدی قبل چینیوں کے عروج کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایاتھا:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
اب چینی دنیامیں اپناکردارسنبھال چکے ہیں اور ہمالہ کے چشمے بھی اُبل رہے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ چار دہائیوں میں چین جس تیزی سے معاشی وعسکری قوت بن کرابھرا، اقوام عالم میں ایسے کرشمے کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے جن ملکوں کو نیک نیت دیانتدار اور اہل لیڈرشپ میسر آئی، انہوں نے ترقی کی منزلیں نہایت سرعت سے طے کیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ترقی و بلندی تک پہنچنے کے لیے چینی قوم نے متحد ہو کر زبردست جدوجہد کی۔ صحیح معنوں میں چینی قوم نے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قول ''کام، کام اور بس کام‘‘ پر عمل کیا۔ کاش ہم بابائے قوم کے احکامات پر عمل پیراہوتے توآج آئی ایم ایف کے شکنجے میں نہ پھنستے۔
جس وقت سپر پاورکے نشے میں مبتلا امریکہ نام نہاددشت گردی کی جنگ میں مسلم ملکوں کو جھونکتے ہوئے انسانیت کی تباہی وبربادی کی داستانیں رقم کر رہا تھا‘ عین اسی وقت عوامی جمہوریہ چین نے فیصلہ کیا کہ وہ عالمی تنازعات میں ملوث نہیں گا اور عالمی امن کے لیے کام کرے گا؛ چنانچہ بیجنگ نے ''ون بیلٹ اینڈ ون روڈ ‘‘کے نام سے ایک عظیم الشان انقلابی منصوبے کی داغ بیل ڈالی، جس کی تکمیل کے نتیجے میں آٹھ ملین افراد غربت کی لکیر سے باہر آ جائیں گے۔ عالمی معاشی سرمایہ کاری پر نظررکھنے والے اداروں کے مطابق چین نے پسماندہ و کم ترقی یافتہ ممالک میں ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ موجودہ عالمی تناظرمیں بیجنگ اپنی کرنسی کو غیر ملکی تجارت میں ایک محرک کے طور پر بین الاقوامی بنانے کی خواہش کے تحت دہائیوں سے جاری امریکی ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ چین نے ڈیجیٹل کرنسی کے ساتھ عالمی انٹربینک میسجنگ نیٹ ورک 'سوئفٹ‘ کا متبادل تیارکرنے کے لیے پاکستان سے لے کر فرانس کی کمپنیوں تک دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ حالیہ عرصے میں کئی معاہدے کیے ہیں تاکہ یوآن ایکسچینج کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ ان حالیہ اقدامات کی وجہ سے اب لاطینی امریکہ سے بھی ڈالر کی بالادستی پہ سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
یوآن نے رواں سال روس میں سب سے زیادہ تجارت کرنے والی کرنسی کے طور پر ڈالر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے حالانکہ 2022 ء میں روسی درآمدی ادائیگیوں میں اس کا حصہ محض 23 فیصد تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو پر جو عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں‘ انہوں نے چینی کرنسی کی پیش قدمی کے لیے ایک موقع فراہم کیا۔ یوآن کو ڈالر کے متبادل کے طور پر متعارف کرانے کے لیے کی جانے والی غیر محسوس کوششوں کی بدولت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں چینی کرنسی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے کیونکہ جنوبی ممالک سے اس سمت میں ٹھوس اشارے مل رہے ہیں۔ ارجنٹائن میں حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ چین سے اس کی برآمدات ڈالر کے بجائے یوآن میں کی جائیں گی تاکہ اس کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرار رکھا جا سکے۔ برازیل میں جہاں یوآن یورو کی جگہ دوسری سب سے بڑی زرمبادلہ ریزرو کرنسی بن گئی ہے‘ حکومت نے دونوں ممالک کی کرنسیوں میں چین کے ساتھ تجارت کرنے اور ڈالر کا سہارا لینے سے بچنے کے معاہدے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ لاطینی امریکہ کی دو بڑی معیشتوں میں ان تبدیلیوں کی نشاندہی بولیویا کے صدر لوئس آرسے نے ایک علاقائی رجحان کے طور پر کی جس میں ان کا ملک بھی شامل ہوسکتا ہے لیکن ماہرین اسے چین کی جانب سے اپنی کرنسی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے کی کوشش کی عکاسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ایک علاقائی تجزیاتی مرکز انٹر امریکن ڈائیلاگ کے ایشیا اور لاطینی امریکہ پروگرام کی ڈائریکٹر مارگریٹ مائرز کے مطابق‘ یہ ایک علاقائی رجحان ہے، برازیل اور ارجنٹائن کے لیے کوئی خاص چیز نہیں؛ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایشیائی کرنسی کا یہ دباؤ کس حد تک جاتا ہے۔ بے شک اقتصادی بحران نے جس طرح یورپ کو شدید متاثر کیا ہے بالکل اسی طرح امریکہ بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہاکیونکہ امریکہ کی تقریباً 27 سے زائد ریاستوں کے لاکھوں شہری جوبائیڈن کی ناقص پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق واشنگٹن میں بیروز گاری کی شرح 8فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے جس کے اثرات ترقی پذیر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔ امریکی معیشت کے دوسری سہ ماہی میں مسلسل سکڑنے سے اقوام عالم پر بے یقینی کے بادل چھا رہے ہیں۔ سپر پاور کو ان دنوں تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کی وجہ سے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ کووڈ اور لاک ڈاؤن کے باعث چینی معیشت کی سست روی توقع سے زیادہ رہی جس کے نتیجے میں عالمی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی۔ یورپی یونین ماسکو کے ساتھ تجارت کرنے والا مجموعی طور پر سب سے بڑا بلاک ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ2021 ء میں اس سے روس کی تجارت کا حجم چین کی نسبت دو گنا تھالیکن یوکرین تنازع کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود روس ایک ایسانظام بنا چکا ہے جسے سسٹم فور ٹرانسفر آف فنانشل میسجز (ایس ٹی ایف ایم) کہا جاتا ہے جبکہ چین میں بھی کراس بارڈر انٹر بینک پیمنٹ سسٹم (سی آئی پی ایس) موجود ہے‘ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک اس کوشش میں مصروف رہے کہ وہ ادائیگیوں کے لیے کوئی متبادل نظام مرتب کر یں تاکہ سوئفٹ جیسے مغربی نظام پر انحصار کم ہو جو ڈالر میں سودے بازی کرتا ہے۔ 2021 ء تک صرف ایک ہی چینی بینک نے ایس ٹی ایف ایم میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ دوسری جانب بیجنگ کے سی آئی پی ایس سسٹم سے بہت سے روسی اور بین الاقوامی بینک جڑ چکے ہیں۔ توانائی کی زیادہ تر تجارت اب بھی ڈالر میں ہی ہورہی ہے لیکن 17 فیصد باہمی تجارت کے لیے چینی یوآن استعمال ہوتا ہے۔ تیل برآمد کرنے والے بیشتر خلیجی ممالک حالیہ ہونے والے نقصان اور گھاٹے کے پیش نظرعالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے خواہشمند ہیں۔ اوپیک کے لیے ڈالر میں تیل بیچنا اس وقت گھاٹے کا سودا ثابت ہوتا ہے جب اصل منڈیوں یعنی ایشیا اور یورپ کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ بیجنگ ماسکو کی توانائی برآمدات جیسے تیل، گیس، کوئلہ اور زرعی اجناس کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے‘ حالیہ برسوں میں چین کو برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، صدر پوتن اور صدر شی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ 2024ء تک باہمی تجارت کو250 ارب ڈالر تک بڑھا یا جائے گا۔
یوکرین تنازع نے جہاں اقوام عالم کو ایک نئے دوراہے پر لاکھڑا کر دیاوہیں عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات اس وقت واضح محسوس کیے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے امریکہ، یورپ، نیوزی لینڈ، تائیوان، آسٹریلیا اور فلپائن کے مرکزی بینک ایک طرف بڑھتے ہوئے افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کیلئے شرحِ سود میں اضافے کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف آمدن میں کمی کے باعث لوگوں نے بھی اخراجات کم کیے ہیں جس سے سرمایہ کاری، ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں سست روی آ رہی ہے۔ اقتصادی بحران سے نمٹنے کیلئے عوام پر بھاری ٹیکسز لگانے کا سلسلہ جا ری ہے، بڑی کمپنیوں کو بچانے کیلئے عوام کا پیسہ ان کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، یونان اور اٹلی میں ایجوکیشن فیسیں بڑھا ئی جا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں فراڈ اور کرپشن کے کیسز میں حیران کن حد تک اضافے، بیروزگاری، عوام کی آمدنی اور قوتِ خریدمیں کمی، سٹریٹ کرائمز، فیکٹریوں کی بندش اور بجٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے اکثر ممالک عالمی معاشی بحران کے شکنجے میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں اور فی الحال اس شکنجے سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔