زندگی کس قدر انمول ہے‘ یہ احساس آپ کو صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب آپ اپنی ذات کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی کے وجود اور فرد کی حیثیت بارے سوچیں۔ لوگوں کے لیے حادثہ فقط ایک خبر ہوتی ہے مگر اس حادثے کے کرب اور درد کا اس سے پوچھیں جو اس کا شکار بنا یا جس کا کوئی عزیز کسی حادثے میں بچھڑ گیا۔ ان حادثات میں بچ جانے والے افراد جس ذہنی اور جسمانی لاچارگی سے دوچار ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی بھی کسی عذابِ مسلسل سے کم نہیں ہوتی۔
گزشتہ دنوں پنڈی بھٹیاں کے قریب موٹروے پر پیش آئے حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر ہر دل رنجیدہ ہے۔ دل نے چاہا کہ فوراً اس پر لکھوں لیکن ضروری تھا کہ اس بارے کچھ ضروری معلومات ہوں تاکہ عمیق تجزیہ کیا جا سکے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ قوم یہ واقعہ کچھ دن، ہفتے یا چند مہینے یاد رکھے گی اور پھر کسی نئے حادثے کا انتظار کیا جائے گا۔ تاحال سامنے آنے والے حقائق کے تناظر میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ پنڈی بھٹیاں حادثہ کی بنیادی وجہ بس ڈرائیور کی غفلت و لاپروائی ہے۔ بس آگے جانے والی پک اپ وین سے ٹکراتی ہے اور اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس پر یہ رائے بھی قائم کی گئی کہ غالباً پک اَپ گاڑی میں ڈیزل لوڈ تھا جو آگ کا باعث بنا۔ میرے خیال میں حقائق تھوڑے مختلف ہیں۔ آگ کے لیے بنیادی طور پر تین اجزا اہمیت کے حامل ہیں۔ ایندھن، ہوا اور اگنیشن یا آگ جلانے کا ذریعہ۔ زمانہ قدیم میں رگڑ کی قوت کو آگ جلانے کے لیے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ عموماً رگڑ کی قوت سے ہی اکثر تیز رفتار گاڑیوں کے پہیوں میں آگ لگ جاتی ہے۔ مذکورہ حادثے میں بس نے اپنے سامنے آنے والی پک اپ کو اس کی پچھلی جانب سے ہٹ کیا اور پھر اس پک اپ کو گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے تک لے گئی۔ اس سارے عمل میں پک اپ کی فیول ٹینکی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ ان حقائق کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ بس کو آگ سامنے والے بائیں پہیے کی طرف سے لگی‘ جب بس پک اپ کو اس کی پٹرول ٹینکی کو توڑتے ہوئے سڑک پر گھسیٹ رہی تھی۔ گاڑی کے سکڈ مارکس اور گاڑیوں کے ٹکراؤ سے لے کر گاڑی کے جلنے تک کا فاصلہ بھی ان حقائق کی تصدیق کرتا ہے۔ بس کا مرکزی دروازہ بھی اسی طرف تھا؛ چنانچہ بس کو بائیں طرف سے آگ لگی اور دروازہ سمیت ساری بس پک اپ کے فیول ٹینک سے لیک ہونے والے پٹرول کی وجہ سے آگ کی نذر ہو گئی۔
اگلی گاڑی میں ڈیزل کی موجودگی بھی اس آگ میں شدت کا باعث ہو سکتی ہے؛ تاہم گمان یہی ہے کہ دروازے کی طرف سے آگ لگ جانا اور ایمرجنسی گیٹ کے نہ کھلنے کی وجہ سے مسافر آگ میں جل کر خاکستر ہو گئے۔ جائے حادثہ پر پہنچنے والی پہلی مددگار ایجنسی موٹروے پولیس ہی تھی۔ موٹروے پولیس کے افسران نے فائر بالز اور آگ بجھانے والے آلات سے آگ بجھانے کی کوشش کی مگر آگ کا پھیلاؤ بہت زیادہ تھا۔ دوسری ریسکیو سروسز بھی موقع پر پہنچیں لیکن بس کے ایمرجنسی گیٹ کے نہ کھلنے کی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔مزید تفصیلات یا حقائق یقینا موٹروے پولیس کی انکوائری میں واضح ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حادثات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ بعد از حادثہ حکمت عملی کو بھی اہمیت دی جائے۔ یعنی حادثے کے نتیجے میں کن باتوں پر عمل پیرا ہو کر نقصان سے زیادہ سے زیادہ بچائو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آٹومیٹک دروازے بسوں میں عام استعمال ہوتے ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر کسی حادثے کی صورت میں یہ کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔ زیادہ تر مسافروں کو تو ایمرجنسی گیٹ کا علم ہی نہیں ہوتا۔ علم ہو بھی تو ایمرجنسی گیٹ کو کھولنے کے طریقہ کار سے عدم واقفیت ہوتی ہے۔ مذکورہ حادثے میں اگر ایمرجنسی دروازہ کھل جاتا تو یقینا قیمتی جانوں کا ضیاع کم ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایمرجنسی گیٹ کے بجائے ایک الگ دروازہ بسوں میں ہونا چاہیے جو آٹومیٹک نہ ہو۔ بڑے شہروں میں سپیڈو بسوں سمیت کئی بس کمپنیاں اپنی بسوں میں ایسے دروازے استعمال کرتی ہیں اور کامیابی سے یہ تکنیک چلا رہی ہیں۔ اکثر حادثات میں بسوں کے مین دروازے بھی‘ جو آٹومیٹک ہوتے ہیں‘ لاک ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مینوئل دروازے کو ترجیح دینی چاہیے۔
اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں مل کر روز بروز بڑھتے حادثات کی وجوہات تلاش کرنی چاہیے۔ صرف ڈرائیوروں کی غفلت، موبائل فون کے استعمال، ٹریفک قوانین کا غیر فعال ہونایا قوانین کی عدم پیروی وغیرہ کو موردِ الزام ٹھہرا کر اور سخت سے سخت سزائیں تجویز کر کے ہم سب بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں ہر حادثے کی جزئیات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ان وجوہات کی تہہ تک پہنچ سکیں جو حادثات کا سبب بنتی ہیں اور پھر اصل وجوہات کا تدارک کیا جا سکے۔
پاکستان میں حادثات رونما ہونے کی صورت میں انتظامات اورنظم و نسق کو برقرار رکھنا بھی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے اور اس زمرے میں رپورٹنگ کا طریقہ کار اور لائحہ عمل بھی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ عمومی طور پر حادثے کی خبر بکتی ہے؛ چنانچہ جائے حادثہ پر مدد کرنے والوں کے بجائے کیمروں کا ہجوم دکھائی دیتا ہے۔ فرسٹ ایڈ اور ریکوری سروسزکے حامل اداروں کو ایسی صورتحال میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔افسوس!ہر حادثے کے بعد ریٹنگ کی ایک دوڑ شروع ہو جاتی ہے اور فوری طور پر وجۂ حادثہ ، زخمیوں اور اموات کی غیر تصدیق شدہ خبروں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ متعلقہ اداروں کی حادثے کے حوالے سے کوئی بھی سٹیٹمنٹ آنے سے پہلے ہی تجزیوں کا آغاز ہو جاتا ہے جس سے اداروں پر دبائو بڑھ جاتا ہے۔
ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلئے جدید سائنسی ٹیکنالوجی اور اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے ہزاروں اقدامات کیے جاسکتے ہیں جن سے ٹریفک حادثات میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہو۔ موٹر وے پر سکول بچوں کی بس کو پیش آنے والا حادثہ سب سے تکلیف دہ تھا جس میں 40 بچے زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ 1997 ء میں موٹروے کے افتتاح سے اب تک تقریباً 350 بڑے حادثات ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ضروری ہے کہ موٹروے پولیس چالان کی تعداد پر فوکس کرنے کے بجائے ٹریفک معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔ ٹریفک مینجمنٹ میں جتنا ورک موٹروے پولیس کرتی ہے‘ اگر متعلقہ دوسرے ادارے بھی کریں تو یقینا بہتری آ سکتی ہے۔ گاڑیوں کی فٹنس کے لیے الگ سے ایک ادارہ موجود ہے جس کی ورکشاپس بھی قائم ہے مگر ٹرانسپورٹ سیکٹر کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے کریں کہ فیصل آباد جیسے بڑے صنعتی شہر میں اس ادارے کی کوئی ورکشاپ ہی نہیں ہے اور ٹرانسپورٹرز کو فٹنس کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ بہت سی گاڑیاں ایسی ہیں جن میں( ہیلوجن یا) تیز سفید لائٹس کمپنی کی طرف سے لگا کر بھیجی جاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کو اس طرح کے معاملات روکنے کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے چاہئیں۔ روڈ انجینئرنگ اور وہیکل انجینئرنگ روڈ سیفٹی میں بنیادی درجہ رکھتی ہیں لیکن ہمارے ہاں اس بارے عملی کام بہت کم ہے۔
دوسری جانب موٹروے پولیس کی تنخواہیں متعدد وفاقی اداروں کے ملازمین سے بہت کم ہیں۔ PSP افسران موٹروے پولیس میں آنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ڈسٹرکٹ پولیس میں ان کو ایگزیکٹو الاؤنس ملتا ہے، موٹروے میں تعیناتی سے اس الاؤنس کے نہ ملنے سے ان کی تنخواہ کافی کم ہو جاتی ہے۔ ان کی ڈیوٹی بھی دوسرے اداروں کی نسبت مشکل ہے جس میں رات کی پٹرولنگ ڈیوٹی بھی شامل ہوتی ہے، لہٰذا افسران دوسرے محکموں میں پُرکشش سیٹوں پر ڈیپوٹیشن پر چلے جاتے ہیں اور فورس میں نفری کی کمی سے مسائل مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے میں میرٹ کو ترجیح دیتے ہوئے، ایماندار و فرض شناس افسران کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ پوسٹنگ کے معاملات میں مخصوص افراد کی اجارہ داری ختم کی جائے۔ نفری کی کمی پوری کرنے کے لیے ڈیپوٹیشن سمیت نئی بھرتیاں کی جائیں تاکہ مسائل کے حل میں مدد مل سکے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹریفک سے متعلقہ قومی وہیکل آرڈیننس 2000ء ، موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 ء ،موٹر وہیکل آرڈیننس 1969ء ‘ ان میں سے بیشتر قوانین کو لاگو ہی نہیں کیاجا سکا‘ ان آرڈیننس کو اَپڈیٹ کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات والا ملک ہے اور دنیا بھر میں 48ویں نمبر پرہے۔دنیا بھر میں زیادہ روڈ ایکسیڈنٹس والے شہروں کی فہرست میں کراچی کاچوتھا نمبر ہے ۔ ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے ایکسیڈنٹس کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں، 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔سب سے زیاد ہ ٹریفک حادثات بالترتیب خیبر پختونخوا ، پنجاب، اسلام آباد اور سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں اوسطاً نو افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات کااوور ٹیکنگ کا شوق اور ر تیز رفتاری کا جنون بھی جان لیوا حادثات کا سبب بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر پانچ منٹ کے بعد ایک ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 29 فیصد سے زائد حادثات تیزرفتاری سے پیش آتے ہیں جبکہ حادثات میں 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی لا پروا ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔نیشنل روڈ سیفٹی کے مطابق اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو 2030 ء میں حادثات کے200 فیصد تک بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ لہٰذاآئے روز موٹر وے اور جی ٹی روڈ پر بسوں کا ٹکرائو ، آئل ٹینکر کا پھٹنا ، مسافر بسوں اور گاڑیوں کا تیز رفتاری کے باعث کھائیوں میں گر جانا‘ یہ المناک صورتحال اہم و ٹھوس اقدامات کی متقاضی ہے۔ اس کے علاوہ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ وہ ملکی ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لیے ٹریفک قوانین کی بہرصورت پابندی و پیروی کریں۔