سعودی عرب عالمِ اسلام کا فخر اور پاکستانیوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا محور ہے۔ 23 ستمبر 2023ء کو سعودی عرب نے اپنا 93واں قومی دن بھرپور شان و شوکت سے منایا۔ پاکستان نے اپنے عظیم دوست کے قومی دن کے موقع پر نیک تمنائوں کے اظہار کے ساتھ اس لازوال دوستی کی تجدید کا عہد کیا۔ پاک سعودیہ دوستی کے سفر کا آغاز قیامِ پاکستان کے فوری بعد ہوا اور 1951ء یہ کبھی نہ ختم ہونے والے ولولہ انگیز اور پُر جوش تعلقات میں بدل گیاجو آج نئی روشن منزلوں کی جانب گامزن ہے۔ بلاشبہ احترام اور محبت کی مضبوط بنیادوں پرقائم دیرینہ تعلقات کی تاریخ کئی صدیوں پر مشتمل ہے حتیٰ کہ برصغیر پر بر طانوی تسلط کے خلاف لڑی جانے والی1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران مقدس شہروں‘ مکہ اور مدینہ منورہ کے باشندوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف جہاد کے حق میں خطوط لکھے تھے۔ وطنِ عزیز اور مملکتِ سعودی عرب کے مضبوط مراسم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست نے پُر آشوب حالات میں کبھی پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑا اور مشکلات پر قابو پانے کیلئے بے مثل تعاون فراہم کیا۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ پاکستان میں زلزلہ آئے‘ طوفان آئے یا اور کوئی قدرتی آفت‘ ان حالات میں سب سے زیادہ اور سب سے پہلے امداد برادر ملک سعودی عرب کے عوام اور وہاں کی حکومت مہیا کرتی ہے۔
سلطنت سعودی عرب ایشیا کی پانچویں اور عرب دنیا کی دوسری بڑی ریاست ہے جو اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن، محل وقوع اور حرمین شریفین کی بدولت مسلم دنیا میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ 21 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے۔ اس کے جنوب میں یمن اور جنوب مشرق میں عمان واقع ہے۔ قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات مشرق میں ہیں اور اس کی شمالی سرحدیں اردن اور عراق سے ملتی ہیں۔ اس کی تاریخ ترقی و کامیابی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ 23ستمبر 1932ء کوشاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل سعود نے موجودہ سعودی عرب کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے 1932 ء سے 1953ء تک حکمرانی کی۔ ان کے جانشین شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1953ء سے 1964ء تک مملکت کی باگ ڈور سنبھالی۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز شہید 1964ء سے 1975ء تک سعودی عرب کے حکمران رہے اور انہوں نے اپنے بلند پایہ وژن سے امتِ مسلمہ کو مضبوط اور خوشحال بنانے کے لیے بے نظیر لیڈر شپ اور وسائل مہیا کیے۔ شاہ خالد بن عبدالعزیز1975ء سے 1982ء تک اور ان کے پیشرو شاہ فہد بن عبدالعزیز 1982ء سے 2005ء تک مملکت سعودی عرب کے حکمران رہے، جس کے بعد شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سعودی حکمران بنے۔ 2015ء میں شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد شاہ سلمان بن عبد العزیز تخت نشین ہوئے۔
سعودی فرمانروا شاہ فیصل نے ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیا اور اس کے لیے بھر پور کو ششیں بھی جاری رکھیں۔ اس مسلم رہنما کی دلیرانہ کاوشوں سے اسلام دشمن ہمیشہ خائف رہے، یہی وجہ ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں سعودی عرب پر یورپ و امریکہ نے تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب دنیا میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے اور دنیا کی دوسری بڑی آئل ریفائنری بھی یہاں موجود ہے۔ شاہ فیصل شہید نے پاکستان سمیت دنیا کے دیگر مسلم ممالک میں بھی مذہبی خدمات سرانجام دیں اوروہاں مسجدوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد ان کی اسلام اور پاکستان سے محبت کی روشن مثال ہے۔ شاہ فیصل کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لائل پور کا نام فیصل آباد رکھا گیا اور شاہراہِ فیصل کراچی کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ قبل ازیں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1954ء میں پاکستان کے اس وقت کے دارالحکومت کراچی کادورہ کیا اور ایک ہائوسنگ سکیم کی بنیاد رکھی جو آج بھی ان کے نام پر سعود آباد کے نام سے مشہور ہے۔ پاک سعودی تعلقات عسکری، معاشی اور سیاسی شعبوں سمیت ہر شعبہ زندگی میں استوار ہیں۔
سعودی عرب اقوام متحدہ کے ان اولین رکن ممالک میں شامل ہے جنہوں نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ پاک سعودی دوستی کا پہلا معاہدہ1950ء میں ہوا۔ سعودی عرب مضبوط مسلم اتحاد کو وقت کی ضرورت قرار دیتا آیا ہے اور اس نے عسکری و فوجی شعبے میں پاکستان کے ساتھ متعدد معاہدے کر رکھے ہیں۔ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں سعودی عرب نے دوستی کا فرض بخوبی نبھایا اور پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔ 1971 ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا تھا اور انہوں نے پاکستان کے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا۔ شاہ فیصل کے دورِ حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں پاکستان کو بھرپور مالی امداد فراہم کی، 1974 ء میں سعودی عرب کی بھرپور حمایت اور کاوشوں سے پاکستان نے او آئی سی کے دوسرے سربراہی اجلاس کی لاہور میں میزبانی کی۔ دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے سعودی عرب نے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1979ء میں جب ایک دہشت گرد گروہ نے مکہ مکرمہ پر قبضہ کرنے کی مذموم کوشش کی تو پاکستان کے دلیر و نڈر کمانڈوز نے دشمنوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ سعودی عرب کے حکمران شاہ فہد نے سوویت افغان جنگ میں بھی بھرپور مالی تعاون فراہم کیا۔ انہوں نے افغان جہاد میں جنرل (ر) حمید گل کو خوب خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہیں ''مجاہدِ اسلام‘‘ کا خطاب سعودی عرب ہی نے عطا کیا تھا۔ 1982ء سے 1987ء تک پاک فوج کے 20 ہزار کے لگ بھگ اہلکار سعودی عرب کی نگہبانی پر مامور رہے۔ 1991ء کی گلف وار میں 15000 کے فوجی دستوں نے سعودی سرحدوں کی حفاظت کی۔ اس وقت بھی متعدد سعودی فوجی آفیسر پاک فوج کی مختلف ملٹری اکیڈمیوں میں زیر تربیت ہیں۔
سعودی عرب نے عالمی پابندیوں کے باوجود نہ صرف 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرنے پر پاکستان کو مبارکباد پیش کی بلکہ 50ہزار بیرل تیل روازنہ کی بنیادوں پر مفت فراہم کیا جاتا رہا۔ اس وقت لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں اور لگ بھگ 2.5 بلین ڈالر کی برآمدات سعودی عرب جاتی ہیں۔ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کرتے ہیں، انہوں نے ضرورت پڑنے پر پاکستان کے قومی خزانے میں تین ارب ڈالر جمع کرائے اورتیل کی مد میں بھی ریلیف فراہم کیا۔ سعودی عرب پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ایک ارب ڈالرز سے اضافہ کرکے اسے 10 ارب ڈالرز تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی وہ پاکستان کے بینکوں میں ڈیپازٹ3 ارب ڈالر کو 5 ارب ڈالرز تک کرنے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی یہ ایسی حمایت ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کر سکتا۔ شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب مسلم ممالک کی ایک مشترکہ فوج بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کا پہلا سربراہ انہوں نے پاکستان سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صورت میں منتخب کیا جو پاکستان کے لیے بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔خادمین حرمین شریفین نے امتِ مسلمہ کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ دنیا بھر میں جب کبھی امت مسلمہ پر کڑا اور سخت وقت آیا‘ سعودی حکومت سب سے پہلے وہاں اعانت اور مدد کے لیے پہنچی۔ چاہے فکری ونظریاتی میدان ہو یا معاشی بحران‘ ہر میدان میں سعودی عرب مسلمانوں کی مدد کے لیے پیش پیش رہا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مملکت سعودی عرب آج عالمی اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم ملک کے طور پر ابھر چکی ہے۔یہ اس وقت دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ سعو دی عرب کی ایک خاصیت‘ جو اس کی اہمیت کو مستقبل میں بھی برقرار رکھے گی وہ اس کا مسلم دنیا کی رہبری اور رہنمائی میں اہم کردار ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اخوت، محبت اور ایمان کے رشتے پر قائم ہیں اور کوئی بھی منفی قوت اس باہمی رشتے کو کمزور نہیں کر سکتی۔