نائن الیون سے پہلے کی دنیا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد کے حالات پر نظر ڈالیں۔ شام، فلسطین، عراق، مقبوضہ فلسطین، مقبوضہ کشمیر، بھارت، میانمار، مشرقی ترکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں پر دل دہلا دینے والے مظالم جاری ہیں۔ ردعمل میں مسلمانوں کی جانب سے سارا غصہ سوشل میڈیا پر نکالا جاتا ہے اس کے بعد تُو کون اور میں کون۔ نہ مغرب کی نام نہاد انسانیت جاگتی ہے اور نہ اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کے کانوں پر جوں رینگتی ہے۔ البتہ اگر حماس کی جانب سے فائر کیا جانے والا راکٹ اسرائیل کی یہودی آبادی پر جاگرے اور چند یہودی مارے جائیں تو پھر امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں کیسا کہرام مچتا ہے‘ یہ آج کی دنیا بخوبی دیکھ رہی ہے۔ کیا یہ حقائق دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں کہ اسرائیل نے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے فلسطینیوں پر ہر نوعیت کے حملوں کی انتہا کررکھی ہے۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران مظالم کا کوئی ایسا ہتھکنڈا نہیں ہوگا جو غزہ کے مظلوموں پر استعمال نہ کیاگیا ہو۔ اسرائیل نے جو حملہ فلسطینی ہسپتالوں پر کیا‘ ایسا ہی حملہ افغانوں نے یا کسی اور مسلم ملک نے امریکہ، یورپ یا ان کے کسی حواری ملک پر کیا ہوتا تو دنیا میں ایک طوفان برپا ہو جاتا۔ فوری طور پر متعلقہ ملک کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر اس کے خلاف قراردادیں منظور کر لی جاتیں، اس پر عالمی پابندیاں لگا دی جاتیں لیکن اسرائیل کے معاملے پر آج ہر طرف خاموشی ہے، امن کا راگ الاپنے والے اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین جیسی طاقتوں کی حمایت اور پشت پناہی کے سبب اسرائیل کے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے اقدامات پوری قوت سے جاری ہیں اور مذکورہ ممالک کی منافقت انسانی اقدار، بین الاقوامی کنونشنز اور عالمی قوانین کی بے حرمتی پر خاموشی سے عیاں ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے جنگ بندی کے لیے روسی قرارداد کو ویٹو کر کے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ اقوام متحدہ کی پشت پناہی اسرائیل کو مزید ہلہ شیری دے رہی ہے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی محض مذمت کافی نہیں ہے۔ سچ پوچھیں تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس سے آگے کچھ نہیں کر سکتے، وہ اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد تک نہیں کروا سکتے جب تک کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ایسا نہ چاہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔ صابرہ اور شتیلا کیمپوں کا قتل عام صہیونی بر بریت کی بدترین مثالیں ہیں۔ دو ریاستی حل کا حصہ رہنے والے مغربی رہنمائوں نے کبھی بھی اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اقوام متحدہ صرف ایک ڈبیٹنگ کلب بن چکا ہے جہاں مسائل پر بات کی جاتی ہے، قراردادیں منظور کی جاتی ہیں اور پھر مسائل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ صرف وہی قراردادیں دنیا پر لاگو ہوتی ہیں جن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کوئی مفادہو۔ دراصل عالمی جنگوں دوسرے لفظوں میں مسلم دنیا کے ڈِس آرڈر نے ہی اسرائیل کو جنم دیا۔ پہلی عالمی جنگ میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے فلسطین اور بیت المقدس کا کنٹرول برطانیہ کو دیا گیا۔ اسی دوران بالفور ڈیکلریشن میں دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی یقین دہائی کرائی گئی۔ دو‘ تین دہائیوں تک دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر فلسطینی علاقوں میں بیت المقدس کے اردگرد آباد کیا جاتا رہا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد 1947ء میں اقوام متحدہ میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی گئی اور اگلے ہی سال مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے دنیا میں اپنا نیو ورلڈ آرڈرنافذ کیااور تنہا سپرپاور ہونے کا خاصا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں جو عسکری کارروائیاں کی گئیں وہ قابلِ مذمت ہیں۔ 'نیو ورلڈ آرڈر‘ کے تحت جنگوں کا مرکز مسلم ممالک کو بنایا گیا بلکہ یہ جنگیں کسی نہ کسی بہانے ان پر مسلط کی گئیں۔ ان جنگوں میں واحد نشانہ مسلمان اور اسلام ہیں لیکن ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اگر مسلم ممالک باہم متحد ہوتے تو وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کر سکتے تھے۔ اگر وہ یورپی یونین کی طرز پر ایک مضبوط سیاسی ومعاشی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو آج فلسطین کاز کو اس طرح نقصان نہ پہنچتا۔
اب جو نئی عالمی صف بندی شروع ہوئی ہے یہ بھی ایک نئے ایجنڈے کا حصہ ہے اور ا س نئی عالمی جنگ کا اندازہ امریکی صدر جو بائیڈن کے 100 بلین ڈالر کے بل سے لگایا جا سکتا ہے جس کا مقصد روس کے خلاف جنگ کو وسعت دینا، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کو ایران کے خلاف نئی جنگ چھیڑنے کے لیے استعمال کرنا اور چین کے خلاف فوری جنگ کی تیاری کرنا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس جنگ کے لیے نئے میدان تشکیل دے رہی ہے جبکہ ا س کا مقصد مشرقی یورپ سے لے کر مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور بالآخر چین تک بڑے پیمانے پر امریکی تسلط قائم کرنا ہے۔
چین کی بڑھتی طاقت کے سبب امریکہ کثیر قطبی نظام کی واپسی اور اپنی مطلق العنان برتری کے کھو جانے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ مغربی ایشیا میں اس کے قائم کردہ اتحادوں سے صرف روس اور چین کا ہی فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ امریکہ نہیں روس کے لیے واپسی کا وقت ہے۔ پیٹرو ڈالر کا دور ختم ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی عالمی بالادستی بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ یوکرین جنگ نے امریکہ کی طاقت کا بھرم توڑ دیا ہے۔ اس نے روس پرپابندیاں لگائیں مگر ان پابندیوں کا کچھ اثر روس پر نہیں پڑا۔ یوکرین کی جنگ میں امریکہ اور نیٹو کی شکست کے پس منظر میں تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے اوراب امریکہ ایک نئے گھن چکر میں پھنس چکا ہے۔ غزہ میں جغرافیائی سیاسی جنگ میں امریکہ کو سٹریٹیجک شکست کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف جو ردعمل آیا ہے‘ محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کو جلد مقبوضہ علاقے خالی کرنا پڑیں گے اور فلسطینی ریاست کے لیے جگہ بنانا پڑے گی جو یقینا امریکہ کے لیے ایک عبرتناک شکست اور اس کے عالمی تسلط کے خاتمے کی علامت ہوگی۔ یہ حالات ہمیں شمالی فرانس میں 1917ء کی Battle of Cambrai کی یاد دلاتے ہیں جہاں جرمنوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
حماس کے حیرت انگیز حملوں نے جہاں اسرائیل اور اس کے حواریوں‘ امریکہ اوریورپ کے اوسان خطا کر دیے ہیں‘ وہیں ان کا سراغ رسانی کا جدید نظام بھی چاروں شانے چت ہو گیا۔ ان کے آلاتِ حرب و ضرب پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔ اس لیے اب ان کے پاس اس جنگ کو طول دینے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں تاکہ اپنے عوام کو یہ سمجھا سکیں کہ ہم نے اتنی طویل جنگ اس لیے لڑی تاکہ اسرائیلی عوام کو نشانہ بنانے والوں کو سبق سکھایا جا سکے۔ مگر جنگ لڑ کر اسرائیل سرخرو نہیں ہوگا بلکہ نیتن یاہو کی حکومت‘ جو پہلے ہی عوام و خواص کی تنقید کی زد میں ہے، آئندہ الیکشن میں اقتدار سے بالکل بے دخل ہوجائے گی اور محسوس ہوتا ہے کہ کرپشن کے پرانے الزامات پر نیتن یاہو جیل بھی جائیں گے۔ قبل ازیں فاشسٹ صہیونی ریاست کے وزیراعظم ایہود اولمرٹ بھی کرپشن پر جیل جا چکے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بدلتے حالات میں اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات بھی کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ دراصل غزہ پر اسرائیلی جارحیت جتنی دیر تک جاری رہے گی‘ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راہداری کی اجازت دینے کے لیے بین الاقوامی مطالبے میں اتنی شدت آتی جائے گی۔ یہاں تک کہ واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی سخت دباؤ کا شکار ہو جائیں گے۔ دوسری طرف امریکہ کوخطے میں نئی صف بندیوں اور طاقت کے بدلتے محو ر نے پریشان کر رکھا ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی جانب سے 11 اکتوبر کو سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کو کی گئی فون کال میں موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ خوش آئند ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ وسیع مفاہمت کے بعد ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے اماراتی ہم منصب شیخ عبداللہ بن زاید کے ساتھ بات چیت کی جس دوران انہوں نے مسلم اور عرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کی فوری حمایت پر زور دیں۔ امیر عبداللہیان نے عراق، لبنان، شام اور قطر کا دورہ بھی کیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور دوحہ میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ سے بھی ملاقات کی۔ ایران کے وزیر خارجہ امیرعبداللہیان نے اسرائیل کا ساتھ دینے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی میں حزب اللہ شامل ہوئی تواسرائیل پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکہ اس بات کو رد نہیں کر سکتا کہ ایران اس تنازع میں براہِ راست مداخلت کر سکتا ہے۔
12 اکتوبر کو جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن تل ابیب میں مذاکرات کے بعد عرب دارالحکومتوں کا رخ کر رہے تھے، حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مدد مانگ رہے تھے، اس وقت امریکہ کی جانب سے چینی وزیرخارجہ سے رابطہ کرکے بھی اسرائیل فلسطین تنازع کو بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے تعاون کی اپیل کی گئی تھی۔ امریکی وزیر خارجہ سے رابطے کے دوران چینی وزیر خارجہ نے فوری بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کا مطالبہ کیااورمشرقِ وسطیٰ کیلئے چین کے خصوصی ایلچی ژائی جون نے سعودی نائب وزیر برائے سیاسی امور سے رابطہ کیا۔ چین اسرائیل پر جنگ بندی پر راضی ہونے اور کشیدگی میں کمی لانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی بدلتے حا لات کا اندازہ ہے اس لیے انہوں نے دو باتیں کہیں۔ پہلی تو یہ فلسطینی ریاست کے لیے راستہ بھی ہونا چاہیے۔ دوسری طرف انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ غزہ پر دوبارہ قبضہ اسرائیل کی ایک بڑی غلطی ہو گی۔
اسرائیل کے غرور اور اس کی بے جا حمایت سے امریکی سفارتکاری کوسخت زک پہنچی ہے اور عمان میں امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ عرب رہنماؤں کی سربراہی ملاقات منسوخ کر دی گئی۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اب ہوش کے ناخن لے اور اسرائیل کی پشت پناہی بند کرے ورنہ پوری مسلم دنیا چینی اور روسی کیمپ میں چلی جائے گی اور مٹھی بھر یورپی ممالک کے ساتھ وہ عالمی بساط پر تنہا ہوجائے گا۔ اس سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کی چودھراہٹ کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔