موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ملک کو نئی سیاسی و سماجی قیادت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ پی ڈی ایم اتحاد میں شامل رائٹ و لیفٹ وِنگ کی حامل جماعتیں ایک دوسرے کے گلے لگ گئی ہیں اور دوسری جانب دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں عوام کے اکثریتی طبقے کی نمائندگی سے محروم ہو چکی ہیں۔ 1950 ء کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں بھی بائیں اور دائیں بازو کا گہرا اثر پایا جاتا تھا۔ مذہبی، سوشلسٹ و نظریاتی تقسیم واضح تھی‘ تاہم اب صورتحال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ درست ہے کہ اب لیفٹ اور رائٹ والی سیاست نہیں رہی۔ آج قومی سیاست، سیاسی پارٹیوں اور پریشر گروپوں سمیت مذہبی جماعتوں میں بھی دائیں یا بائیں بازو کے نظریات نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کی پاسداری حاوی نظر آتی ہے۔ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جمپ لگانے والے دیہاڑی باز سیاسی رہنما ئوں کے نزدیک نظریات مقدم نہیں ہوتے جبکہ ہماری نوجوان نسل کو بائیں بازو کی بعض جماعتیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی آئین و ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔ ایسے میں '' تحریک جوانانِ پاکستان‘‘ نیا ولولہ، نئی فکر اور نئی سوچ پر مشتمل نوجوانوں کی قومی تنظیم ہے جوان کے لیے مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی امید ہے اور صحیح معنوں میں قائد اوراقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے۔
اس وقت 8فروری 2024ء کے عام انتخابات میں مادرِ وطن میں ہر پارٹی، ہر سیاستدان اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دیتا نظر آ رہا ہے۔ پورے ملک میں کہیں بھی وفاق اور ریاست کی سیاست نظر نہیں آ رہی۔ تحریک جوانان ریاستِ پاکستان کے مفادات کو مقدم مانتی ہے اور یہی سب سے بڑا فرق اس تحریک اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں ہے۔ الحمدللہ! تحریک جوانان اپنا سیاسی سفرشان و شوکت سے جاری رکھے ہوئے ہے اور ان شاء اللہ 8فروری کو اپنا سیاسی وجود ثابت کرے گی اوراللہ رب العزت کے فضل وکرم سے کرپٹ اورباریاں لگانے والی سیاسی پارٹیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہو گی۔
تحریک جوانانِ پاکستان کی بنیاد جنرل (ر) حمیدگل نے 2007ء میں رکھی تھی۔ آقائے دو جہان حضرت محمدﷺ کا اسلوبِ سیاست ہمارے لیے مشعلِ راہ، مینارۂ نور اور منبع رشد و ہدایت ہے۔ غازی جنرل (ر) حمید گل اتحاد و یکجہتی کے داعی تھے‘ ان کا نظریہ حق اور سچ کے لیے جہاد کرنا تھا۔ میں بھی اتحاد کا داعی ہوں؛ تاہم ہم نے جہاد سے مراد صرف قتال سمجھ رکھا ہے جبکہ اپنے نفس سمیت عمل و کردار میں سچائی کو علم بلند کرنا، بھوک و افلاس، بیروزگاری اور کرپشن پر قابوپانے کے لیے کوشش کرنا بھی جہاد ہے اور جب یہ جہاد ہمارے انداتر گیا تو ان شاء اللہ ہمارا ظاہر اور باطن ایک ہو جائے گااور پھر دنیا کو بھی پتا چل جائے گا جب ہم اپنے فیصلے خود مختاری سے خود کریں گے۔ تحریک جوانان میں خیبر سے کراچی تک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی شمولیت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے عوام اور جوان‘ اس بار نظام کی تبدیلی اور پُر امن سیاسی انقلاب کے لیے ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں گے اور دنیا کو بتا دیں گے صرف چہرے ہی نہیں نظام بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ اس ملک کا ہر جوان اسلام کا سچا سپاہی بنے گا اور اسے ایک خوشحال مستقبل ملے گا۔
آج کل کی جو سیاست لوگوں کے سامنے ہے وہ در حقیقت سیاست نہیں بلکہ موروثیت ہے اور یہ ظلم کے نظام پر مبنی ہے۔ ہمارا نصب العین ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جس میں رنگ، نسل اور عقیدہ سے ماورا تمام انسانیت کا احترام ملحوظ رکھا جائے، اس سلسلہ میں رہنمائی میثاقِ مدینہ سے حاصل کی جائے اور احترامِ انسانیت کے حوالے سے میثاقِ مدینہ ہی کو قانون کی حیثیت حاصل ہے۔ ہماری تحریک پاکستان کے نوجوانوں میں مثبت سیاسی تبدیلی کے لیے انتخابی میدان میں اتری اور عام انتخابات میں اپنی روشن روایات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پورے ملک سے نئی محب وطن، صاف و شفاف کردار کی حامل نئی قیادت سامنے لائی۔ اس تحریک نے اُن نوجواانوں کو ایک اعلیٰ پلیٹ فارم مہیا کیا ہے جوکرپٹ سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو بارہا آزماچکے ہیں اور ہر بار انہیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ 2018ء میں ایک سیاسی جماعت نے نوجوانوں کی سب سے بڑی قومی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا اور نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کیا۔ کم آمدنی والے بے گھر خاندانوں کے لیے 50لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا لیکن یوٹرن پر یوٹرن لیا گیا اور قوم کی ایک بڑی تعداد کو قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف برین واشنگ کرتے ہوئے ان کا مستقبل دائو پر لگا دیا گیا۔اب نوجوان ملک کی تقدیر بدلنے، انصاف کو غریب کی دہلیز پر پہنچانے اور امن و خوشحالی کے لیے ہماری تحریک میں زور و شو ر سے شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ تحریک ریاستِ پاکستان کے نوجوانوں کو قومی پر چم تلے جمع کر کے مسلکی اور لسانی تفریق و نفرت کو ختم کر کے ایک متحد قوم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ ملک اسلام کے نام پر بنا‘ اس میں اسلام کے اصولوں کے مطابق نظام ہو نا چاہیے۔ رنگ و نسل، لسانیت، فرقہ، قومیت ومذہب سے بالا تر ہو کر ملکی سا لمیت سمیت قومی سلامتی کے معاملات، عدالت، کفالت، حفاظت، روٹی، روزگار جیسی اہم بنیادی ضروریات پر یکجہتی ضروری ہے۔ ہماری تحریک کا مشن و منشور عدالت، کفالت، حفاظت ہے۔ پاکستان کی عدالتوں میں فی الفور انصاف کا نظام ہو کیونکہ انصاف میں تاخیر نا انصافی کو جنم دیتی ہے۔ لوگوں کو انصاف کے حصول کے لیے قانون ہاتھ میں نہ لینا پڑے۔ رسول اللہﷺ کے احکامات اور حضرت عمر فاروقؓ کے نظامِ عدل سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے ایسا نظامِ انصاف وضع کرنا کہ جس میں عدلِ اجتماعی، عدلِ معاشرتی، عدلِ معاش اور عدلِ انفرادی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کیا جائے۔ اس ترجیح میں صرف عدالتی نظام نہیں آئے گا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں عدل کا قیام اس کی ذمہ داری ہو گی اور اس سلسلہ میں رہنمائی قرآن و سنت اور خلافتِ راشدہ کے سنہری دور سے حاصل کی جائے گی۔ عوام کی کفالت بذمہ ریاست ہو اور اس ملک میں کسی غریب کو ایک وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اپنی اولاد کو فروخت نہ کرنا پڑے اور نہ ہی افلاس کے ہاتھوں مجبور کوئی باپ اپنے بچوں کو زہر کا پیالا پلانے پر مجبور ہو۔ امیر کو غریب پر فوقیت حاصل نہ ہو۔ ریاست احسان نہ کرے‘ اپنا فرض نبھائے اور اللہ کی مخلوق کے لیے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو امانت سمجھ کر منظم کرے۔ سب کی جان مقدم ہو‘کسی ماں کو اپنی جوان سالہ بیٹی کی عزت کی حفاظت کے لیے رات بھر پہرہ نہ دینا پڑے۔ لوگوں کی جان ومال کی حفاظت بذمہ ریاست ہو۔ مسلم، غیر مسلم، اکثریت و اقلیت، شہری و غیر شہری‘ ہر جاندار کوہر نوع کے احساسِ تحفظ کی فراہمی نظام عافیت کے زمرے میں آتی ہے۔ اس ضمن میں ریاست ہر ایک کی بلا تفریق و بلا تمیز جان، مال، عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ چادر و چار دیواری کے تحفظ کی بھی ذمہ دار ہے۔ مملکتِ خداداد کے فیصلے دیارِ غیر‘ امریکہ و یورپ میں نہ ہوں۔ یہ تحریک خواتین کی عظمت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ عورت ماں ‘ بہن ‘ بیوی اور بیٹی سمیت ہر شکل میں ایک مقدس رشتہ ہے‘ جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قرآن و سنت میں خواتین کو دیے گئے حقوق پر مکمل عملدرآمد ہو۔ خواتین سے کی گئی کسی بھی زیادتی کافی الفور اور سختی سے نوٹس لیا جائے اور اگر کوئی طبقہ خواتین کے حقوق اور آزادی کو سلب کرتا ہوا پایاجائے تو اس کو قرآن و سنت کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ یاد رہے کہ اس تحریک نے فاٹا کے قبائلیوں کے حقوق کے لیے بھی بھر پورر آواز اٹھائی۔ متحدہ قبائلی پارٹی کے ہمراہ فاٹا کی عوام کے سیاسی حقوق کے لیے کئی روز تک اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور میڈیا سمیت اعلیٰ اداروں تک ان کے حقوق کے حصول کے لیے تگ ودو کی۔
یہ تحریک جنرل (ر) حمید گل کے مشن کی تکمیل کے لیے سر گرم عمل ہے جن کا مقصدِ حیات اسلام کی سر بلندی، قوم و ملک کی سلامتی اور اپنے مستقبل کے معماروں کی اسلامی ضابطۂ حیات کے مطابق تربیت اور کردار سازی تھا اور ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لانا۔ علامہ اقبال کے شاہینوں کو اب ایک ایساپلیٹ فارم ملا ہے جس پر متحد ہو کر قوم کے جوانان اپنے لیے ایک ناقابلِ تسخیر اسلامی ریاست کے تصور کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اس تحریک نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ اپنے پیارے وطن اور قوم کو بوسیدہ، غلاظت زدہ اور غلامانہ نظام سے نجات دلائی جاسکے۔ ہمارے حکمران استعمار کے غلام ہیں اور اہم ملکی فیصلے باہر ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ تک ہماری اپنی نہیں ہے، پھر ہم کس آزادی کا پرچار کرتے ہیں؟ ہم اپنے ہم وطنوں کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ کہ اگر وہ فرسودہ سیاسی جماعتوں، بوسیدہ نظام اور بیر ونی غلامی سے سے صحیح معنوں میں نجات چاہتے ہیں تو ہمارا ساتھ دیں اور اپنا فرض ووٹ کے ذریعے ادا کریں کیونکہ میرے ملک کے نوجوان ہی پاکستان کے اصل حکمران ہیں۔ ہم موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ جب ایک عام شخص اونچے ایوانوں کی راہداریوں تک پہنچے گا، عملی سیاست میں جوان خون داخل ہوگا تبھی ملک کو پڑھی لکھی‘ محب وطن اور ایماندار قیادت میسر ہو سکے گی!
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر