بھارت تقریباً 80فیصد ہندوؤں‘ 15فیصد مسلمانوں اور 5فیصد دیگر مذاہب کی آبادی پر مشتمل ملک ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر سٹیٹ ہونے کا دعویدار تو ہے لیکن عملاً نریندر مودی کا دورِ حکومت وہاں بسنے والی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ بھارتی جیلیں جیل خانے نہیں عقوبت خانے ہیں جو کسی طرح بھی امریکی رسوائے زمانہ جیل گوانتا ناموبے سے کم نہیں۔ دہلی کی تہاڑ جیل سے لے کر جموں کی امپھالہ ‘ ہیرا نگر اور کٹھوعہ جیلوں سمیت دیگر کئی عقوبت خانوں میں پاکستانی اسیران کی کوئی شنوائی نہیں۔ ان بھارتی ٹارچر سیلوں کی طرف سے اقوامِ متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں بھارت کی ریاست راجستھان کی الوار جیل میں حامد خان نامی 60سالہ پاکستانی شہری کی خودکشی کی کوشش نے بھارتی زندانوں میں قید پاکستانیوں کو درپیش مشکلات‘ قانونی پیچیدگیوں اور بھارتی عدلیہ کے پاکستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ حامد خان ضلع پشین بلوچستان کا رہائشی ہے جو راجستھان کی الوار سینٹرل جیل میں 10برس کی سزا پوری کرنے کے باوجود قید ہے۔قیدیوں کے تبادلے کی فہرست کے مطابق اس وقت کم از کم 347پاکستانی شہری بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں 98ماہی گیر اور 249 دیگر عام شہری شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر کو من گھڑت مقدمات میں پھنسایا گیا۔ ان میں سے 76اپنی سزا مکمل ہونے کے باوجود بھارتی جیلوں میں قید اور وطن واپسی کے منتظر ہیں۔ بھارتی حکومت ان کی رہائی میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ کبھی ان کی شناخت کا بہانہ‘ کبھی پاکستان کے سفارتی عملے پر مطلوبہ تعاون فراہم نہ کرنے کا الزام اور کبھی کسی اور جواز سے قید کی مدت بڑھا دی جاتی ہے۔ بھارت میں 1998ء میں اپنی سزا کی مدت پوری کرنے والا ایک پاکستانی قید ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سے قیدی ہیں جن کی کہانیاں ہندوستانی زندانوں کی راہداریوں میں گونج رہی ہیں جن میں سے بیشتر ابھی تک منظر عام پر نہیں آسکیں۔
2008ء سے پاکستان اور بھارت ایک معاہدے کے تحت سال میں دو مرتبہ‘ یکم جنوری اور یکم جولائی کو‘ قیدیوں کی فہرست کاتبادلہ کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کی سرحد پر اپنی بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے یا غلطی سے قریبی شہریوں کا سرحد پار کر جانا معمول کی بات ہے مگر بھارتی فوجی انہیں رہا کرنے کے بجائے جاسوس قرار دے کر غیرقانونی طور پر جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر ان بھارتی عقوبت خانوں میں پاکستانی قیدیوں پر اس قدر ظلم ڈھایا جاتا ہے کہ یا تو وہ جان کی بازی ہار جاتے ہیں یا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ اس کی بدترین مثال سیالکوٹ کے سرحدی علاقے کا رہائشی نوجوان شوکت علی ہے جو غلطی سے سرحد پار کرکے بھارتی فوج کے ہتھے چڑھ گیا اور تشددسے حراست کے دوران اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں پر بھارتی حکام اس قدر تشدد کرتے ہیں کہ یا تو وہ پاگل ہو جاتے ہیں یا خود کشی پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اعلیٰ حکام ان قیدیوں کی رہائی کیلئے کوئی مؤثر اقدام نہیں اُٹھاتے اور نہ ہی ان کے خلاف روا رکھے جانے والے وحشیانہ سلوک پر آواز اٹھاتے ہیں۔
2000ء میں پاکستان اور بھارت نے ایک جوڈیشل کمیٹی بنائی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک کے متعلقہ حکام سال میں تین یا چار بار ایک جگہ مذاکرات کریں گے تاکہ دونوں کی جیلوں میں قید شہریوں کا خیال رکھا جا سکے۔ اس جوڈیشل کمیٹی میں دونوں ممالک کے حکام آٹھ برس تک باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں لیکن پھر بھارتی روایتی ہٹ دھری سامنے آگئی اور اس نے نہایت بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جوڈیشل کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونے سے صاف انکارکر دیا۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی بھلوال جیل میں قید ثنا اللہ کی ہلاکت کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جاتا تو آج بھارت میں قید پاکستانیوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ قیدی حامد خان کی خود کشی کی کوشش مودی حکومت کے گھناؤنے چہرے کو دنیا کے سامنے لانے کیلئے کافی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی برادری اور قیدیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیموں کو حامد خان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ پاکستان سے بھارتی دہشت گردوں کو انسان ہمدردی کے نام پر رہا کیا جاتا رہتا ہے لیکن بھارتی حکام کے مسلم مخالف رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔
ہندوستان کی جیلوں میں قید پاکستانیوں میں اکثریت ماہی گیروں کی ہے جو بیچارے سمندری حدود کے قواعد سے لاعلمی کی بنا پر دھر لیے جاتے ہیں۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 73 کی رو کے مطابق ماہی گیری کے دوران مچھیروں کوگرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ستم طریفی یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے کشیدہ تعلقات کے ساتھ ساتھ ہندو بنیے کی فریب دینے کی روایتی عادت اور ماہی گیروں کی رہائی کے حوالے سے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر قیدی اپنی سزا کی مدت پوری ہونے کے باوجود بھارتی جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی سے ہندوستان کی سرحد تک 17مقامات ایسے ہیں جہاں دریائے سندھ کا پانی سمندر سے ملتا ہے۔ ان مقامات کو کریک کہا جاتا ہے۔ سب سے آخری کریک کاجر کریک اور سر کریک ہیں جن پر بھارت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ جب یہ ماہی گیر بھارتی جیلوں سے رہا ہو کر آتے ہیں تو ان کی لانچیں بھی واپس نہیں کی جاتیں۔ بھارتی حکام نے قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کا پہلو بھی نظر انداز کر رکھا ہے۔ دنیا میں قیدیوں کے حوالے سے ایک ضابطہ موجود ہے جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری جن کی سزا کی مدت پوری ہو چکی ہے‘ بھارت انہیں رہا کرکے واپس بھیج دے اور پاکستان میں قید اپنے ان شہریوں کو واپس لے جائے جن کی سزائیں پوری ہو چکی ہیں اور جن کی قومیت کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ لیکن بھارت کا ردعمل اس حوالے سے ہمیشہ منفی رہا ہے۔ جیلوں میں قید افراد اور ان کے خاندان طویل تکلیفوں سے گزر رہے ہیں۔ بھارت میں زیر حراست پاکستانیوں میں سے متعدد پر مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی جیسے جھوٹے الزامات ہیں۔ ان میں سے بہت سے قیدیوں کی زندگی انسانی المیہ ہے۔ بہت سے افراد کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے پاکستانی شہری ہوتے ہوئے سرحد پار شادی کی اور رشتے داری نبھاتے بھارتی ظلم کا شکار ہوئے۔ تقریباً ایک دہائی سے شہریت کے منتظر کئی میاں بیوی قانونی شکنجے میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ ان کی محبت کی کہانیاں علیحدگی اور جدائی کی المیہ داستانوں میں بدل گئی ہیں کیونکہ بھارتی نوکر شاہی کا عمل نہایت سست اور زیادہ تر مظلوموں کے خلاف ہوتا ہے۔ بھارتی جیلوں میں قید کچھ بے گناہ پاکستانیوں کو جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ بھارت کا یہ غیر انسانی رویہ مودی حکومت کی ظالمانہ پالیسی کا واضح عکاس ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ قوانین پر عملدرامد کرتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کرے۔ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی بھارت پر زور دینا چاہیے کہ دوسرے ممالک کے بے گناہ شہریوں کو فوری طور پر رہا کرے۔ ہندوستانی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں پر ہونے والے حملوں میں بھی بھارتی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ ضروری ہے کہ ہماری حکومت بھارتی جیلوں میں قید پاکستانیوں پر تشدد اور ہلاکتوں کا مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھائے اور بھارت کو دہشت گرد ملک قراردلوانے کیلئے باقاعدہ قرارداد پیش کرے۔ موجودہ حالات و واقعات کے پیشِ نظر بھارتی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینے اور ہندوستان کا بھیانک چہرہ پوری دنیاکے سامنے بے نقاب کرنا اشد ضروری ہے۔