سعودی عرب عالمِ اسلام کا فخر اور پاکستانیوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا محور ہے۔ سلطنتِ سعودی عرب ایشیا کی پانچویں اور عرب دنیا کی دوسری بڑی ریاست ہے جو اپنی مخصوص جغرافیائی پوزیشن‘ محل وقوع اور حرمین شریفین کی بدولت مسلم دنیا میں مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی تاریخ ترقی و کامیابی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مملکتِ سعودی عرب آج عالمی اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم ملک کے طور پر ابھر چکی ہے۔ یہ اس وقت دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اگرچہ نوجوان ہیں لیکن انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں اپنے آپ کو ایک بڑے ویژن والے لیڈر کے طور پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری دنیا میں منوا لیا ہے۔ وہ سماجی اصلاحات کے ذریعے سعودی عرب کی قدامت پسند آبادی کو ایک روشن خیال اور ترقی پسند معاشرے میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاشبہ سعودی ولی عہدکے ویژن 2030ء کے تحت سعودی عرب سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ اصلاحات کے بعد سعودی عرب نے ماضی کی روایتی بندشوں اور پابندیوں کو خیر باد کہہ دیا ہے اور وہاں اب ہر خاص و عام کو ماضی کی نسبت زیادہ آزادیاں حاصل ہیں۔ سعودی عرب نے انسانی حقوق میں 90اصلاحات کیں جو زیادہ تر خواتین کے حوالے سے ہیں۔ یوں سعودی عرب انسانی حقوق کی فراہمی اور تحفظ کے سلسلے میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اس ویژن کی بنیاد اپریل2016 ء میں رکھی گئی تھی جس کے مطابق سعودی مملکت سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی گئی نئی اصلاحات سے سماجی خدمت‘ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں 10.8فیصد ترقی ہوئی۔ نقل و حرکت‘ سیاحت و مواصلاتی سرگرمیوں میں ترقی کا تناسب میں 7.3فیصد رہا۔ تجارت و ہوٹل کی صنعت میں ترقی کے تناسب میں سات فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ 35برس بعد سنیما سے پابندی اٹھا لی گئی۔ مذہبی پولیس کے کردار میں کمی کر دی گئی۔ سعودی عرب نے نہ صرف خواتین کے لیے تعلیم کی راہوں کو کشادہ کیا بلکہ انہیں روزگار سے بھی جوڑا جس نے خواتین کو ملکی ترقی میں ایک اہم طاقت بنا دیا ہے۔
عالمِ اسلام کے لیے سعودی عرب کی سوچ اور حکمت ایک نظیر ہے جس نے پردے اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین کے لیے زندگی کی نئی راہوں کو آسان بنایا۔ وہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل چکی ہے۔ حج کیلئے بھی محرم مرد کی پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو کھیل کے میدانوں میں بھی آنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان کو 23فروری 2019ء کو امریکہ میں سفیر بدرجہ وزیر مقرر کیا گیا جو سعودی عرب کی تاریخ میں سفیر کے منصب پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بن گئی۔ سعودی عرب نے جب امریکہ میں اپنا سفیر ایک خاتون کو تعینات کیا تو دنیا دنگ رہ گئی۔ 2030ء تک سعودی معیشت میں نئے سنیما گھروں کی وجہ سے روزگار کے 30ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ معیشت میں 90ارب ڈالر کا اضافہ بھی ہو گا۔ سعودی عرب میں آئندہ 12برسوں میں تین سو سنیما گھر تعمیر کیے جائیں گے جن میں تقریباً دو ہزار سکرینیں ہوں گی۔ کیفے اور ریستوران بھی اصلاحات اور تبدیلی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مستقبل میں سعودی معیشت کا تیل پر انحصار کم ہو جائے گا جس کے لیے نئے اکنامک منصوبے تشکیل دیے جا رہے ہیں۔
عالمی مالیاتی فنڈ نے جی 20ممالک میں سعودی عرب کی معیشت کو سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے تیل کے علاوہ بھی معاشی پیداوار میں واضح ترقی کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق سعودی عرب میں بیروزگاری کی شرح میں تاریخی کمی ہوئی ہے اور سعودی عرب میں 2023ء کے دوران تیل کے علاوہ معیشت میں 4.9فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مملکت کی تیز رفتار اقتصادی ترقی سعودی عرب کو مزید آگے بڑ ھانے کے لیے اہم سنگِ میل ہے۔سعودی عرب میں 2016ء سے اب تک ایک ٹریلین ڈالر کے رئیل اسٹیٹ اور انفراسٹرکچر کے میگا منصوبوں پر کام جاری ہے۔ جدہ اسلامی بندرگاہ پر نیا کروز ٹرمینل بھی تیار کیا جا چکا ہے۔ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے مطابق کروز انڈسٹری قومی سطح پر 50ہزار ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے تیار ہے جبکہ 2028ء تک سالانہ 1.5ملین کروز وزیٹرز متوقع ہیں۔ مملکت کے بحیرۂ احمر کے ساحل کے ساتھ تقریباً 575ارب ڈالر کی لاگت سے 1.3ملین نئے گھروں اور ایک لاکھ سے زیادہ ہوٹل کے کمروں کی فراہمی کے لیے پراجیکٹ پر کام جاری ہے جس میں500ارب ڈالر کا 'نیوم سٹی‘ بھی شامل ہے۔ یہ شہر 10231مربع میل پر پھیلا ہو گا اور موجودہ نیو یارک سٹی سے 33گناہ بڑا ہو گا۔ اس شہر کی سرحدیں مصر اور اردن کی سرحدوں سے ملی ہوئی ہوں گی۔ یہ شہر سعودی عرب کا نیا اکنامک پاور ہاؤس ہو گا جس کے اپنے قوانین اور معیارات ہوں گے۔ لوگ اس حیرت انگیز دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ یہ شہر ایک آزاد تجارتی اور صنعتی زون ہو گا جس میں جدید ہوٹل اور تفریح گاہیں ہوں گی۔ شہر میں انٹرٹینمنٹ‘ انرجی‘ بائیو ٹیکنالوجی اور جدید مینو فیکچرنگ انڈسٹریز کی تنصیب کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ بہرحال اس شہر کی تعمیر کافی عرصے سے زیر بحث ہے۔ دیگر عرب ممالک میں اس شہر کے حوالے سے پروپیگنڈا مہم زوروں پر ہے حالانکہ ابوظہبی میں بھی بڑے تعمیراتی منصوبے جاری ہیں۔ قطر میں بھی فٹ بال ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا لیکن پھر سعودی عرب کی ترقی و اعتدال پسندی پر تنقید کیوں۔
سعودی عرب اسلام کی خدمت میں بھی سب سے آگے ہے۔ سعودی عرب میں 2023ء میں ایک لاکھ 63ہزار 319افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے جو ولی عہد محمد بن سلمان کی اسلام سے محبت کا ثبوت ہے ‘حالانکہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ سعودیہ کو یورپ بنا رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈا کے بر عکس وہاں اسلام لانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ سعودی عرب میں سماجی‘ قانونی اور معاشی اصلاحات نہ صرف خوش آئند ہیں بلکہ اس سے صرف سعودی عرب ہی نہیں عالمِ اسلام کو طویل المیعاد فائدے حاصل ہوں گے۔
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات تاریخی ہیں اور مملکتِ سعودیہ نے بھائی چارہ نبھاتے ہوئے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان سے محبت گہری ہے۔ انہوں نے ضرورت پڑنے پر پاکستان کے قومی خزانے میں تین ارب ڈالر جمع کرائے اور تیل کی مد میں بھی ریلیف فراہم کیا۔ سعودی عرب پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کو ایک ارب ڈالرز سے بڑھا کر 10ارب ڈالرز تک پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی وہ پاکستان کے بینکوں میں ڈیپازٹ تین ارب ڈالرز کو پانچ ارب ڈالرز تک کرنے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کی یہ ایسی حمایت ہے جو دنیا کا کوئی اور ملک نہیں کر سکتا۔ شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب مسلم ممالک کی ایک مشترکہ فوج بنانے کا فیصلہ کیا تو اس کا پہلا سربراہ انہوں نے پاکستان سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو منتخب کیا جو پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ مزید برآں خادمین حرمین شریفین نے امتِ مسلمہ کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ سعودی عرب نے حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں بھی صہیونی سفاکیت و بربریت کے خلاف فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کی اور مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے۔