’’بلیو اکانومی ‘‘پاکستان بنگلہ دیش سے پیچھے کیوں؟

سورۃ النحل کی آیت نمبر 14کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دریا اور سمندر تمہارے تابع کر دیے ہیں تاکہ تم اُن میں سے خزانے نکال سکو۔ بلاشبہ سمندری خزانے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارا ملک پاکستان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جو سمندری خزانوں سے مالا مال ہے۔ پا کستان کی ساحلی پٹی سر کریک سے لے کر جیوانی تک ایک ہزار کلو میٹر طویل ہے‘ خصوصی معاشی زون دو لاکھ 40 ہزار سکوائر کلومیٹر ہے۔ اس کے ساتھ 50 ہزار سکوائر کلومیٹر کا کانٹی نینٹل شیلف بھی دستیاب ہے۔بلوچستان میں سمندر قریب734کلومیٹر اور سندھ میں 266کلومیٹر ہے۔ ہمارے پانی کا علاقہ تقریبا ًدو لاکھ 90 ہزار سکوائر کلو میٹر جو پنجاب اور خیبرپختونخوا کو ملا لیں تو اس سے بھی بڑا بنتا ہے ۔ پاکستان کی 98 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ جدید ترین تجارت میں معیشت میں بہتری اور ترقی بلیو اکانومی یعنی آبی معیشت سے جڑی ہے۔بلیو اکانومی کسی بھی ملکی کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں بلیو اکانومی‘ جو ملکی معیشت کا اہم ستون ہے‘ حکومتی ترجیحات میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا؟ہم ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے لیکن ہم ان کی ترقی کا راز جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ امریکہ اور برطانیہ کو دیکھ لیجیے جن کی نیوی کو بلیو واٹر نیوی کہا جاتا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں بلیو اکانومی کا جی این پی 2500ارب ڈالر ہے۔افسوس کہ پاکستان کی اتنی بڑی coastal line ہونے کے باوجود اس میں ہمارا حصہ انتہائی کم یعنی صرف ڈیڑھ ارب ڈالر ہے‘ جبکہ دوسری جانب انڈیا ہی نہیں بنگلہ دیش بھی ہم سے آگے ہے۔ بنگلہ دیش کا GNP چھ ارب ڈالر ہے اور بھارت کا بھی چھ ارب ڈالر تک ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ بلیو اکانومی ہے کیا ۔ 2012ء میں اس کی اصطلاح پہلی بار سامنے آئی تھی۔ معاشی ترقی کیلئے سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل اور ان سے وابستہ معیشت کو' بلیو اکانومی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں تیل اور گیس کے ذخائر (آف شور ڈرلنگ)‘ سی فوڈ‘ فشریز‘ شپنگ‘ سیاحت‘ ساحلی ہوٹلز‘ ساحلی ہوائوں سے ونڈ اور شمسی توانائی‘ ایکواکلچر‘ زیرِ آب معدنیات اور قیمتی پتھر‘ سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے ڈی سیلی نیشن پلانٹس وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی بلیو اکانومی میں کراچی اورپورٹ قاسم بندرگاہیں‘ فشریز‘ آئل ٹرمینلز‘ ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز‘ سٹیل ملز‘ گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری‘ گوادر پورٹ اور پاک چائنا ایکسپورٹ پروسیسنگ زون وغیرہ شامل ہیں۔ بلیو اکانومی کے حوالے سے دنیا بھر میں دو کنونشن ‘پہلا 'بارسلونا کنونشن سسٹم‘ دوسرا 'انجمن اقتصادی تعاون و ترقی‘ (او ای سی ڈ ی) کے تحت کام کر رہا ہے۔ بارسلونا کنونشن میں ماہی گیری‘ ماہی پروری‘ سیاحت‘ شپنگ اور ساحلی شہروں کو آباد کرنے کے حوالے سے جامع دستاویزات تیار کی گئی ہیں۔ ان کا مرکزی خیال قدرتی ماحول اور سمندری ایکوسسٹم کو متاثر کیے بغیر انسانی ترقی کو پروان چڑھانا ہے۔ افسوس !ہم نے پانی کو بہت کم اہمیت دی‘ اس کو وہ درجہ ہی نہیں دیا جو دوسرے ملکوں نے دیا ہوا ہے۔
اندازہ لگا لیجئے کہ بنگلہ دیش بھی ہم سے سبقت لے چکا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ 2030ء تک ورلڈ بلیو اکانومی تین ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی اور پاکستان کے اندر یہ ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ اگر صرف فشریز کو ہی دیکھ لیجیے تو اس میں انڈیا کا حصہ 70 فیصد ‘بنگلہ دیش کا 26فیصد اور پاکستان کا حصہ 3.76 فیصد ہے۔پاکستان دنیا میں مچھلی پکڑنے والے 30 بڑے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں سے صرف 10 فیصد مچھلی ہی برآمد ہوپاتی ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں ہماری فش ویلیو 2.3 ڈالر فی کلو گرام اوربنگلہ دیش کی پانچ ڈالر فی کلو گرام ہے۔اس کی اہم وجوہات میں مچھلی کے شکار اور مارکیٹ کا کمزور انفرا اسٹرکچر ‘ فش پیکنگ ‘ڈیلیوری کی ناقص کوالٹی اور ناقص انتظامات ہیں جن پر کوئی بھی حکومت توجہ نہیں دیتی اور یوں لاکھوں ڈالر کی صنعت کو ضائع کیا جا رہا ہے۔آخر ہم دوسروں کی ترقی کا واویلا مچانے کے بجائے اپنی پالیسیوں اور کارکردگی پر فوکس کیوں نہیں کرتے ؟اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے ایکوا کلچر‘ فشنگ کو جدید بنانے‘ تجارتی ماحول‘ پیکجنگ ‘ پروسیسنگ اور دیگر انفرا اسٹرکچر میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔صرف بنگلہ دیش اور بھارت کی بات کریں تو وہ اس وقت ساؤتھ ایشیا کی مارکیٹ پر چھائے ہوئے ہیں ۔ہم نے پہلی بار 2020ء میں بلیو اکانومی کا سال منایا تھا۔اس وقت پاکستان کیلئے سب سے اہم اپنے سمندر میں چھپے خزانوں کا تحفظ ہے۔ سمندری تجارت میں سیاحت ایک اہم سیکٹرہے‘دنیا میں 50 فیصد سے زائد سیاحت سمندر پر ہوتی ہے اور دنیا بھر میں 10فیصد جی ڈی پی سیاحت سے آتا ہے اور 300 ملین نوکریاں سمندری سفر اور سیاحت سے پیدا ہوتی ہیں۔ پاکستان بھی سمندری سیاحت کو فروغ دے کر زرِ مبادلہ کما سکتا ہے۔ پاکستان معاشی طور پر ایک نازک دور سے گزر رہا ہے اگر آئی ایم ایف کی منتیں ترلے کرنے کے بجائے اپنے سمندر کی طرف توجہ دی جائے تو آبی ماہرین کے مطابق کشکول سے ہماری جان چھوٹ جائے گی اور قومی معیشت میں تیزی پیدا ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ فشریز پر توجہ دی جائے کیونکہ اس کی ایکسپورٹ کی صلاحیت کئی گنا زیادہ ہے اور یہ تین سے پانچ بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب 1000کلو میٹر ساحلی پٹی پرکے ٹی بندر‘ گڈانی‘سومیانی‘ اورماڑہ‘ پسنی او رجیوانی کے ساحلوں سمیت مزید 14پورٹس بن سکتی ہیں۔ اس علاقے میں1887ء میں پہلی پورٹ بنی اور دوسری پورٹ ایک لمبے عرصے کے بعد 70ء میں پورٹ قاسم کے نام سے بنائی گئی‘ پھر ایک طویل عرصہ بغیر ترقی کے گزر جاتا ہے اور 2003ء میں گوادر پورٹ بنی۔گوادر گہرے پانیوں کی بندرگاہ اور ایک گیم چینجر ہے جس کی اہمیت کو دنیا تسلیم کرتی ہے اور سنٹرل ایشیا ہی نہیں گلف سٹیٹس کیلئے بھی یہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہ ایک ورلڈ انرجی کوریڈور ہے۔ پاکستان کی بھی ایک strategic پوزیشن ہے لیکن ہم اتنی بڑی نعمت کے باوجود ایک بدقسمت قوم ہیں کہ اپنے سمندر سے مالی فوائد سمیٹنے میں ناکام رہے ہیں ۔ پچھلے 76 برسوں میں اس کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں مرچنٹ شپس کی بات کریں تو 1970ء میں 74تھے‘ اور اب کم ہو کر 11رہ گئے ہیں۔پاکستان میں صرف ایک شپ یار ڈ ہے جبکہ بھارت میں46 اور بنگلہ دیش میں 23 شپ یارڈ ہیں ۔ترکی کے شپ یارڈ سے گوادر شپ یارڈ معاہدہ پاک بحریہ کی انتھک کوششوں سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔1953ء سے آج تک شپ یارڈ میں چھوٹے بڑے پانچ ہزار جہاز بنائے گئے ‘سب سے بڑا جہاز العباس جو 28 ہزار ٹن کا تھا اس کا افتتاح اُس وقت کے صدر ایوب خان نے کیا تھا۔یہ میری ٹائم کا سب سے بڑا اور کامیاب جہاز تھا۔ شپ بریکنگ انڈسٹری بھی عروج پر تھی۔ سب سے زیادہ جہاز کراچی آتے تھے۔ اب اس میں چین پہلے نمبر پر‘ بھارت دوسرے اور بنگلہ دیش کا تیسرا نمبر ہے۔اگر سی پیک کے لیے محض 10 فیصد تجارت بھی پاکستان کو منتقل ہوجائے تو 350 ارب ڈالر کی تجارت پاکستان منتقل ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان وسطی ایشیا اور افغانستان کو بھی تجارتی سہولت فراہم کرسکتا ہے ۔ لہٰذاپاک چین اقتصادی راہداری سے بھرپوراستفادہ کیلئے بحری شعبے کی ترقی ناگزیر ہے۔میری ٹائم اکانومی اور میر ی ٹائم سکیورٹی ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ سکیورٹی ہوگی تو بلیو ا کانومی مستحکم ہوگی ۔تمام محرکات جو سمندری تجارت کو نقصان دیتے ہیں پاک بحریہ و سمندری سکیورٹی ایجنسیاں ان کے خلاف اقدامات کرتی ہیں تاکہ بلیوا کانومی کو فروغ حاصل ہو۔ در حقیقت پاک بحریہ سمندری دفاع کے ساتھ ساتھ بلیو اکانومی کے فروغ کیلئے بھی مسلسل سرگرم عمل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں