فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی آواز‘ حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے صرف حماس یا فلسطین کا نقصان نہیں ہوا بلکہ اس سے پوری اُمت مسلمہ کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان کی شہادت پر دنیا بھر میں‘ بالخصوص مسلم دنیا میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے نہ صرف ناقابلِ تسخیر طاقتوں کے غرور کو خاک میں ملایا بلکہ دنیا کو توحید کے حقیقی معنی و مفہوم سے بھی روشناس کرایا۔ اسماعیل ہنیہ حماس کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جن کے پورے خاندان نے فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑی اور قربانیاں دیں۔ اسلام دشمنوں نے ان کے حوصلے پست کرنے کیلئے ان کی والدہ‘ تین بیٹوں‘ ایک بیٹی‘ پوتے پوتیوں‘ دو بھائیوں‘ دو بہنوں‘ بھانجوں اور بھتیجوں سمیت خاندان کے 60افراد کو بے دردی سے شہید کر دیا مگر اسماعیل ہنیہ کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ آئی۔ اسماعیل ہنیہ ایران میں نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کیلئے گئے تھے جب اُن پر گائیڈڈ میزائل سے حملہ کیاگیا۔ گائیڈڈ میزائل ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکہ کے پاس ہے۔ یعنی یہ حملہ امریکی منظوری سے حملہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکی سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ اگر اسرائیل پر حملہ ہوا تو اس کا دفاع کریں گے جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے اس بیان سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ نیتن یاہو کا وہ خطاب اسرائیلی ٹی وی پر پانچ منٹ تک نشر کیا گیا جس میں اُس کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے اپنے دشمن کو عبرتناک جواب دیا ہے۔ اسرائیل اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کی کئی بار پہلے بھی ناکام کوششیں کر چکا ہے۔ 2006ء میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے ان کے دفتر پر حملہ کیا لیکن وہ اس حملہ میں محفوظ رہے۔ بعدازاں ان کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اڑھائی ماہ قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوئے تو تب بھی اس حادثے میں اسرائیلی سازش شامل ہونے کی باتیں سننے میں آئی تھیں۔ اب ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے ایران کے دفاعی نظام پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ حملہ ایران کے دفاعی نظام کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر بھی میزائل حملے کیے تھے جس کا ایران نے اسرائیل کے اندر جا کر مسکت جواب دیا۔ یورپی مبصر برائے مشرقِ وسطی ایلیا جے میگنیئر کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل کا جاسوسی سافٹ ویئر استعمال کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کے واٹس ایپ پیغام میں سپائی ویئر لگائے گئے تھے اور انہیں اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والی کال کے بعد شہید کیا گیا کیونکہ کال کے دوران ان کے مقام کی نشاندہی ہو گئی تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسرائیل نے حماس یا حزب اللہ کے رہنماؤں کو قتل کیا ہو۔ اسرائیل گزشتہ کئی سالوں سے اس طرح کی ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں کرتا رہا ہے جس میں پی ایل او اورحماس کے رہنماؤں‘ ایرانی فوج اور حزب اللہ کے کمانڈروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کہتے ہیں کہ ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے۔ ایران میں سرخ پرچم لہرا دیے گئے ہیں جو انتقام کے جذبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حماس کے مطابق ہنیہ کی شہادت سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا اور اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کیلئے کھلی جنگ چھڑے گی جس کیلئے حماس کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان سمیت ترکیہ‘ قطر‘ چین اور دیگر ممالک نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اور عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا۔ ترکیہ کی جانب سے فلسطینیوں کے دفاع کیلئے اپنی افواج بھجوانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کرکے مسلم دنیا کی قیادت پر اسرائیل کے خلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا ہے۔اسماعیل ہنیہ اپنی دلیری اور شجاعت کے باعث نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پوری مسلم اُمہ میں بہت مقبول تھے۔ انہوں نے کبھی فلسطین کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان کی جدوجہد کا مرکز و محور حماس ہی تھی۔ ان کی ساری زندگی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزری۔ کبھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جہاں ان کے قدم ڈگمگائے ہوں۔ حماس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے فلسطینیوں کی ایک بامقصد ایمانی و فولادی نسل تیار کردی ہے جس کی کتابِ زندگی میں ڈر‘ خوف‘ شکست‘ پستی‘ بزدلی اور منزل سے گمراہ کر دینے والی حکمت یا مصلحت جیسی تعبیریں سرے سے نہیں ہیں۔ غزہ کے باسیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ شکستہ عمارتیں‘ بکھری ہوئی لاشیں‘ ملبے میں بدلتا شہر‘ فاقہ مستی‘ آسمان سے برستے شعلے‘ ہر جانب سے بلند ہوتی آہ و بکا اور اپنے جگر گوشوں کے جسم کے ٹکڑے ان کے پائے استقامت کو لرزہ براندام نہیں کر سکتے۔
اسماعیل ہنیہ 1962ء میں غزہ شہر کے مغرب میں الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اسلامی یونیورسٹی سے 1987ء میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی۔ 2009ء میں اسلامی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1988ء میں حماس کے قیام کے وقت ایک نوجوان بانی رکن کی حیثیت سے اس تنظیم میں شامل ہوئے۔ 1997ء میں وہ حماس کے بانی رہنما شیخ احمد یٰسین کے پرسنل سیکرٹری بن گئے۔ 1988ء میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے پر اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے چھ ماہ قید میں رکھا۔ 1989ء میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992ء میں اسماعیل ہنیہ کو لبنان ڈی پورٹ کر دیا گیا جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد اسماعیل ہنیہ کی غزہ واپسی ہوئی۔ 2006ء میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد اسماعیل ہنیہ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ حماس الفتح اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی لیکن غزہ میں حماس کی حکمرانی برقرار رہی۔ 2017ء میں اسماعیل ہنیہ کو خالد مشعل کی جگہ حماس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ وہ متعدد مرتبہ امن مذاکرات کا حصہ رہے۔
ایران میں اسماعیل ہنیہ پر ہونے والے حملے سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے لبنان کے دارالحکومت بیروت پر حملے کیے جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت تین افراد جاں بحق اور 74 زخمی ہوئے۔ حملے میں حزب اللہ کمانڈر فواد شکر بھی جاں بحق ہوئے جو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کے فوجی مشیر بھی تھے۔ حملے کا ٹارگٹ فواد شکر ہی تھے جن کے سر کی قیمت امریکہ نے 50 لاکھ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔اسرائیل تمام سرخ لکیریں عبورکر چکا ہے ۔یہ اسماعیل ہنیہ پر حملہ نہیں پوری اُمت مسلمہ پر حملہ ہے ۔ اب یہ سوال بھی زیرگردش ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے صدر کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر تہران میں کیوں نشانہ بنایا گیا‘ جبکہ وہ ایک عرصے سے قطر میں مقیم تھے اور اسرائیل کو وہاں ان کے ٹھکانے کا علم تھا۔در حقیقت ایرانی سر زمین پر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا منظم منصوبہ ہنود و یہود کے مذموم عزائم کا عکاس ہے کہ وہ فلسطین جنگ کو پورے خطے تک پھیلا دینا چاہتا ہے ۔ لہٰذا اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی میزائل حملے میں شہادت سے اب مشرقِ وسطیٰ‘ عرب ریاستیں‘ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا سمیت پورا خطہ جنگ کے خطرات کی لپیٹ میں ہے۔ موجودہ تناظر میں اقوام متحدہ کیا کرے گی ؟ افسوس!ایران‘ روس‘ چین اور الجزائر کی درخواست پر سلامتی کونسل کا طلب کیا گیاہنگامی اجلاس حسبِ معمول نشستند‘ گفتند‘ برخاستند ہی ہے۔لمحۂ فکریہ ہے کہ اسرائیل مسلسل مسلم ممالک اور قیادتوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مذمتی بیانات‘ یو این او کی قرار دادیں اس کا حل ہرگز نہیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اُمت مسلمہ ہنود و یہود گٹھ جوڑ کے خلاف متحد ہو جائے تا کہ اسماعیل ہنیہ اور اسلام کے دیگرجانبازوں کا خون رائیگاں نہ جائے۔