پاکستان تحریک انصاف نے پاکستانی سیاست میں نئی امیدوں اورتبدیلی کے نعرے کیساتھ قدم رکھا۔ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد‘ اداروں میں شفافیت اور عوامی نمائندگی کی بحالی جیسے نعروں کیساتھ اس جماعت نے ایک خواب دیکھا اور کروڑوں عوام کو اس خواب کا حصہ بنایا۔ عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ تاہم وقت کیساتھ یہ جماعت اُنہی مشکلات کا شکار ہوتی گئی جن کے خاتمے کا دعویٰ لے کر میدان سیاست میں اتری تھی۔پی ٹی آئی کی سیاست کا پہلا بڑا چیلنج اسکی تنظیمی کمزوری تھی۔ ایک مؤثر اور طویل المدت سیاسی جماعت کیلئے اندرونی اتحاد ناگزیر ہوتا ہے لیکن پی ٹی آئی میں دھڑوں‘ ذاتی مفادات‘ اور گروہی سیاست نے سر اٹھا لیا جس نے پارٹی کی ہم آہنگی کو متاثر کیا۔ عمران خان کی قیادت کے سخت انداز نے پارٹی کے اندر اختلافِ رائے کی گنجائش کم کر دی جس کا نتیجہ تنظیمی کمزوری اور ناقص فیصلوں کی صورت میں سامنے آیا۔سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ بیانیہ اور میڈیا سے محاذ آرائی نے بھی پی ٹی آئی کو نقصان پہنچایا۔ عمران خان کے بعض بیانات اور غیرلچکدار رویے نے سیاسی فضا کو کشیدہ کر دیا جس سے مفاہمت کی سیاست کمزور ہوئی۔ اداروں پر تنقید خصوصاً عدلیہ اور فوج کے حوالے سے سخت مؤقف نے ریاستی اداروں سے تعلقات بگاڑ دیے۔ سیاسی جماعت کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اداروں کیساتھ تعمیری تعلق بنا کر رکھے نہ کہ تصادم کی راہ اپنائے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی کا تھا۔ مہنگائی‘ روپے کی قدر میں کمی‘ زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور بجٹ خسارہ جیسے مسائل نے عوام کی توقعات کو شدید دھچکا پہنچایا۔ حکومت کوئی ایسی پائیدار معاشی حکمت عملی پیش نہ کر سکی جو عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنتی نتیجتاً عوام کی حمایت میں واضح کمی نظر آئی اور اپوزیشن کو حکومت پر تنقید کا موقع ملا۔ تحریکِ انصاف کے زوال کا اہم پہلو 9مئی 2023ء کے واقعات ہیں جنہوں نے پارٹی کو شدید دھچکا پہنچایا۔ اس دن مختلف شہروں میں عسکری اور سرکاری تنصیبات پر حملے کیے گئے جن کا الزام پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں پر عائد ہوا۔ ان واقعات کے بعد وسیع عدالتی کارروائی کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں فیصل آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں جن میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان‘ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز‘ اور رکن قومی اسمبلی زرتاج گل شامل ہیں‘ کو دس دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔سزا کے بعد الیکشن کمیشن نے ان ارکان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اسی کیس میں کئی دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی تین سے دس سال تک کی سزائیں دی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر 185 میں سے108کو سزا دی گئی۔ یہ سزائیں پاکستان کی عدالتی تاریخ میں غیر معمولی ہیں کیونکہ اس سے قبل سیاسی رہنماؤں کو اس نوعیت کے مقدمات میں اتنے بڑے پیمانے پر سزائیں نہیں دی گئیں۔پی ٹی آئی کے مطابق یہ کارروائیاں شواہد کی بنیاد پر نہیں ‘ سیاسی انتقام کے طور پر کی گئی ہیں۔ فواد چودھری‘ زین قریشی اور خیال کاسترو جیسے رہنماؤں کا عدالتوں سے بے گناہ قرار پانا پی ٹی آئی کے مؤقف کی کسی حد تک تائید کرتا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان خود بھی کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں سائفر کیس میں دس سال قید کی سزا دی گئی ہے جبکہ دیگر مقدمات میں بھی انہیں 14 سال قید اور نااہلی کا سامنا ہے۔ یہ مقدمات ان کی ذاتی حیثیت اورجماعت کی ساکھ پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔ اس وقت عمران خان اور دیگر رہنما مختلف عدالتوں میں اپیلوں کے ذریعے ان فیصلوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں ان کیسز کے فیصلے پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ پنجاب کے اپوزیشن لیڈر کو سزا ہو چکی اور انہیں اسمبلی رکنیت سے نااہل کر دیاگیا‘ قومی اسمبلی اورسینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کو بھی سزائیں ہوچکیں اور انہیں بھی پارلیمانی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے ۔اگر ان سیٹوں پر الیکشن ہوتے ہیں اور حکومتی جماعت یا اس کے اتحادیوں کو کامیابی مل جاتی ہے تو پھر ایوان کی نمبرز گیم میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ یوں آئینی ترمیم سمیت دیگر معاملات کو مزید احسن طریقے سے نمٹایا جاسکے گا۔ اس وقت حالات مکمل کنٹرول میں ہیں‘ ایسے لگتا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر فوری عملدآمد یقینی بنایا جارہا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ‘ جوڈیشری اور حکومت سب ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ملک کے مستقبل کیلئے بڑے فیصلے کیے جاچکے ہیں‘ بس وقت کا انتظار ہے۔ ہر کام اپنے وقت پر ہی اچھا لگتاہے۔
حکومتی ترجیحات سب سے پہلے واپڈا کو بہتر بنانا ہے اور ڈیموں کے متعلق بڑے فیصلے لیے جا سکتے ہیں جس کیلئے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈمحمد سعید کو چیئرمین واپڈا تعینات کردیا گیا ہے۔اکتوبر کے آخر تک اس میں تیزی آنے کی امید ہے ، کچھ بنیادی نقشہ بن جائے گا جس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ 27ویں ترمیم پر کام شروع ہو چکا ہے‘ لگ بھگ نومبر کے اختتام پر اس کو ایوان میں لے جانے کی تیاری ہو جائے گی جس میں ایک نہیں بلکہ آئین کی کئی شقوں میں ترامیم ہو سکتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی مدت کو ایک سال مزید بڑھا کر 6سال کیا جا سکتا ہے۔نگران حکومتیں قائم کرنے کی مخالفت پہلے ہی انتہائی اہم حلقوں میں ہو رہی ہے‘ نگران حکومتیں ختم کی جاسکتی ہیں‘ ججز اور عدالتوں سے متعلق اہم فیصلے ہوسکتے ہیں‘ ججز کی عمر ‘قابل ججز کی براہ راست تعیناتیاں‘ الگ سے مزید عدالتوں کا قیام‘ پھر 18ویں ترمیم کو ختم کرنے سے متعلق اہم تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں ۔این ایف سی شیئرز کا معاملہ ہو یا براہ راست فنڈنگ کا معاملہ ‘ اس میں اہم تبدیلیاں ہوجائیں تو پھریہ ڈھانچہ ہی تبدیل ہو کر رہ جائے گا اور ایک نئی صورتحال نکل کر سامنے آئے گی۔اس کے بعد مارچ 2026ء میں بلدیاتی انتخابات کی طرف جانے کی تیاریاں ہوسکتی ہیں اور بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا ہوگا۔
اس ساری صورتحال میں تحریک انصاف کی کیا سیاسی حکمت عملی ہوگی کہ وہ نظام سے جڑی رہے اور اپنے قائد کی رہائی یا پارٹی زندہ رکھنے کیلئے کوئی اقدامات کر سکے۔تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر دوبارہ ابھر سکتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور دیگر کئی جماعتیں ماضی میں سیاسی زوال کا شکار ہوئیں لیکن وقت کے ساتھ اپنی صفوں کو درست کر کے دوبارہ مؤثر بن گئیں۔ پی ٹی آئی کے لیے بھی یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ اگر یہ جماعت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے‘ تلخ بیانیے سے اجتناب کرے‘ عوامی مسائل پر توجہ دے اور اداروں کے ساتھ تصادم کی بجائے مفاہمت کی سیاست اپنائے تو ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں اسے ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل ہوجائے۔موجودہ عدالتی سزاؤں اور سیاسی دباؤ نے پی ٹی آئی کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے‘ تاہم اپیلیں‘ قانونی حکمت عملی‘ اور ایک نئے سیاسی بیانیے کے ساتھ یہ جماعت خود کو بحال کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کا نیا چیلنج یہ نہیں کہ اسے سزا کیوں ملی بلکہ یہ ہے کہ وہ اب اس سزا سے کیا سیکھتی ہے۔تحریک انصاف کی کہانی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم باب کے طور پر لکھی جائے گی۔ تبدیلی کے خواب سے لے کر سیاسی انتشار اور عدالتی سزاؤں تک کا یہ سفر ایک سبق ہے کہ عوامی مقبولیت مستقل نہیں ہوتی اور نظریے کو اگر عمل میں نہ ڈھالا جائے تو وہ صرف نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔تحریک انصاف کو اب ایک بار پھر خود کو دریافت کرنا ہوگا ۔ نئی قیادت‘ نئی حکمت عملی اور عوام کے ساتھ ازسرنو رشتہ قائم کرنے کے ساتھ۔ اگر ایسا ممکن ہو سکا تو شاید یہ جماعت دوبارہ عوامی طاقت میں تبدیل ہو سکے۔ اگر نہیں تو یہ محض ایک اور جماعت بن کر رہ جائے گی جو تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئی۔