نئے صوبے، نئی زندگی

پاکستان کی تاریخ دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ ملک جو بے بہا قربانیوں سے وجود میں آیا‘ جو جغرافیائی طور پر دنیا کے اہم ترین خطے میں واقع ہے اور جو انسانی وسائل اور قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے‘ وہ آج بھی غربت‘ بیروزگاری‘ کمزور معیشت اور ناکام گورننس کا شکار کیوں ہے؟ دنیا کی تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ کامیاب ریاستیں ہمیشہ اپنی انتظامی اکائیوں کو عوام کے قریب لے کر جاتی ہیں۔ امریکہ کی آزادی کے وقت تیرہ ریاستیں تھیں‘ مگر جیسے جیسے آبادی اور تقاضے بڑھتے گئے‘ نئے ریاستی یونٹس بنتے گئے اور آج پچاس ریاستیں ہیں۔ بھارت بھی اسی اصول پر چلتا رہا۔ 1947ء میں وہاں صرف نو ریاستیں تھیں لیکن آج 28 ریاستیں اور نو یونین ٹیریٹریز ہیں۔ یہ سب اضافہ لسانی یا نسلی بنیادوں پر نہیں بلکہ عوامی خدمت اور بہتر گورننس کے لیے کیا گیا۔ چین‘ برازیل اور نائیجیریا نے بھی بڑے پیمانے پر انتظامی تقسیم کو اپنایا اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے۔
اس کے برعکس پاکستان میں آج بھی چار صوبے ہیں۔ پنجاب کی آبادی 12 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے‘ جو کینیڈا اور افغانستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ سندھ کی آبادی پانچ کروڑ 50 لاکھ ہے جو سعودی عرب اور الجزائر سے بڑھ چکی ہے۔ خیبر پختونخوا کی آبادی چار کروڑ سے زائد ہے‘ جو آسٹریلیا اور شام سے زیادہ ہے‘ جبکہ بلوچستان کا رقبہ برطانیہ اور ناروے سے بڑا ہے مگر آبادی محض ڈیڑھ کروڑ ہے۔ یہ اعداد وشمار اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ صوبائی تقسیم غیر فطری اور ناقابلِ انتظام ہے۔ دنیا کے دیگر وفاقی ممالک میں سب سے بڑی ریاست بھی قومی آبادی کے دس سے 16 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ امریکہ میں سب سے بڑی ریاست کیلیفورنیا صرف 12 فیصد اور بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کل آبادی کا 16 فیصد ہے۔ پاکستان میں صرف پنجاب ہی 52 فیصد آبادی رکھتا ہے۔ یہ بڑے صوبے پاکستان کے بنیادی مسائل کی جڑ ہیں۔ تعلیم کے میدان میں آج بھی ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔ صحت کا حال یہ ہے کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ آبادی پر صرف 85 ڈاکٹر ہیں جبکہ عالمی معیار 230 ہے۔ کاروبار اور معیشت بھی اس صورتحال کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ملک کی 65 فیصد ٹیکس آمدنی کراچی سے آتی ہے لیکن یہ شہر خود کچرے‘ ٹوٹی سڑکوں اور پانی کی قلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب میں صنعتی زون قائم نہ ہو سکے کیونکہ وسائل بڑے شہروں پر خرچ کر دیے گئے۔ بھارت میں جب 2014ء میں تلنگانہ الگ صوبہ بنا تو چند سال میں اس کی جی ڈی پی دُگنی ہو گئی کیونکہ مقامی حکومت نے مقامی کاروبار پر توجہ دی۔ پاکستان میں بھی صوبے چھوٹے ہوتے تو ہر صوبہ اپنے وسائل کو مقامی ترقی پر خرچ کرتا اور یہ معاشی محرومیاں جنم نہ لیتیں۔
صوبے نہ بنانے کا ایک نقصان سیاست کو ہوا۔ چار بڑے صوبوں کی وجہ سے قیادت کا دائرہ محدود رہا اور سیاست چند خاندانوں اور اشرافیہ کے ہاتھ میں مرتکز ہو گئی۔ مقامی لیڈرشپ ابھر نہ سکی اور سیاسی میدان چند گھرانوں کی وراثت بن گیا۔ اسی اجارہ داری نے کرپشن‘ اقربا پروری اور موروثی سیاست کو پروان چڑھایا۔ تیسرا بڑا نقصان وفاقی توازن کا ہے۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی اکثریت ہمیشہ اسے برتری دیتی ہے‘ جس کی وجہ سے چھوٹے صوبے احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ ماضی میں یہی عدم توازن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا۔ دنیا کے وفاقی نظاموں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہاں سب سے بڑی ریاست بھی اتنی بڑی نہیں کہ وفاق پر حاوی ہو جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ نئے صوبے کیسے بن سکتے ہیں؟ اس کا جواب آئین پاکستان میں موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 239 کے مطابق کسی بھی صوبے کی حدود یا نئے صوبے کی تشکیل کیلئے متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری درکار ہوگی اور پھر یہ ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت سے پاس کرنا ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے صوبوں کی تشکیل ایک آئینی اور پارلیمانی عمل ہے‘ جو محض سیاسی ارادے کا تقاضا کرتا ہے۔ عملی طور پر سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ موجودہ ڈویژنز کو صوبے بنا دیا جائے۔ ڈویژن پہلے ہی انتظامی ڈھانچہ رکھتے ہیں جن میں ڈپٹی کمشنر‘ پولیس‘ تعلیمی اور صنعتی ادارے شامل ہیں۔ انہیں صوبائی درجہ دینا نہ صرف کم خرچ ہوگا بلکہ فوری اور مؤثر بھی۔وسائل کی تقسیم کے اصول بھی نئے صوبوں کے ساتھ ازسرنو طے کرنے ہوں گے۔ آج این ایف سی ایوارڈ صرف آبادی کی بنیاد پر وسائل بانٹتا ہے‘ جس پر چھوٹے صوبے ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ تقسیم کی بنیاد آبادی کے ساتھ ساتھ رقبہ‘ ریونیو کولیکشن اور پسماندگی کے اشاریے بھی ہوں۔ اس سے کراچی جیسے شہر کو اس کا جائز حق ملے گا‘ بلوچستان کو اس کے رقبے کے حساب سے زیادہ وسائل مل سکیں گے اور جنوبی پنجاب و اندرون سندھ جیسے پسماندہ علاقوں کی ترقی بھی ممکن ہوگی۔
عام اعتراض یہ ہے کہ نئے صوبے اخراجات بڑھائیں گے‘ مگر یہ درست نہیں۔ آج بڑے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور کابینہ پر اربوں خرچ ہوتے ہیں مگر نتائج صفر ہیں۔ اگر صوبے چھوٹے ہوں تو کابینہ مختصر ہوگی‘ بیوروکریسی رائٹ سائز ہو جائے گی اور وسائل براہ راست مقامی ترقی پر لگیں گے۔ دنیا کی مثالیں یہی بتاتی ہیں کہ نئے صوبے معیشت کو نقصان نہیں بلکہ وسعت دیتے ہیں۔
پاکستان نے پچھتر برس صوبے نہ بنا کر اپنے مسائل کو بڑھایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا سے سبق سیکھ کر ایک نیا وفاقی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔ صوبے لسانی نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پر بنائے جائیں‘ ڈویژنز کو صوبائی درجہ دیا جائے‘ وسائل کی تقسیم نئے اصولوں پر کی جائے اور آئینی طریقہ کار کے ذریعے اس اصلاح کو ممکن بنایا جائے۔ چھوٹے صوبے ہی پاکستان کے بڑے مسائل کا واحد حل ہیں۔پاکستان کے تناظر میں صوبائی ری سٹرکچرنگ کا معاملہ کوئی معاشی بحث نہیں بلکہ گورننس‘ سیاست اور سماجی ہم آہنگی سے جڑا ہوا ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ موجودہ چار صوبوں کا ڈھانچہ پاکستان جیسے کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ملک میں ایک غیر متوازن صورتحال پیدا کرتا ہے‘ جہاں بڑے صوبے اپنی آبادی اور رقبے کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور وسائل کی تقسیم میں زیادہ حصہ لیتے جبکہ چھوٹے صوبے احساسِ محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ ملکی سیاسی تاریخ بھی یہ بتاتی ہے کہ صوبائی خودمختاری اور وسائل کی تقسیم کے مسائل ہمیشہ سیاسی کشیدگی اور عوامی تحریکوں کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ سابقہ فاٹا کا انضمام‘ سرائیکی صوبے کا مطالبہ یا کراچی کی انتظامی خودمختاری پر ہونے والی بحثیں اس بات کی عکاس ہیں کہ موجودہ ڈھانچے میں ہر طبقے کو اپنے حقوق اور شناخت کے تحفظ کی فکر لاحق ہے۔ ایسے میں اگر صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا جائے تو ایک طرف وسائل کی ہدفی تقسیم اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں بہتری آئے گی‘دوسری طرف چھوٹے علاقوں کو اپنی شناخت اور نمائندگی کا زیادہ موقع ملے گا۔
معاشی حوالے سے دیکھا جائے تو ملکی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ عدم مساوات ہے۔ اگر صوبائی تقسیم سے مقامی وسائل مقامی عوام پر خرچ ہوں تو غربت کے خاتمے‘ تعلیم و صحت کی فراہمی اور روزگار کے مواقع میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب‘ بالائی سندھ‘ گلگت بلتستان اور بلوچستان کے پسماندہ اضلاع اپنی جغرافیائی اور معاشی خصوصیات کے مطابق الگ صنعتی اور زرعی پالیسیوں سے ترقی کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ادارے مضبوط ہوں‘ کرپشن پر قابو پایا جائے اور نیشنل فنانس کمیشن جیسے مالیاتی میکانزم کو مزید شفاف اور مؤثر بنایا جائے۔مختصر یہ کہ پاکستان میں صوبائی ری سٹرکچرنگ کی معاشی منطق تو مضبوط ہے مگر عملی کامیابی کیلئے سیاسی اتفاق رائے‘ مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ اور شفاف گورننس ناگزیر ہیں۔ اگر یہ عمل درست نیت اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو یہ ملک کی معاشی ترقی اور وفاقی وحدت دونوں کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں