یہ بیجنگ کی ایک سرد مگر روشن صبح تھی۔ ہوٹل کی کھڑکی سے باہردیکھا تو بلند وبالا عمارتوں کے بیچوں بیچ تیز رفتار ٹرینیں روشنی کی لکیر کی طرح گزر رہی تھیں۔ بچے قطاروں میں سکول جا رہے تھے‘ فیکٹریوں میں مزدور اور روبوٹ ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے‘ تحقیقی اداروں میں نوجوان دماغ پوری یکسوئی سے مشینوں اور کمپیوٹروں کے سامنے بیٹھے تھے اور ہسپتالوں میں علاج ایک منظم اور جدید انداز میں ہو رہا تھا۔ یہ سب مناظر میرے لیے ایک چونکا دینے والے تھے۔ ایک لمحے کے لیے میں نے سوچا کہ یہ وہی چین ہے جو چند دہائیوں پہلے غربت اور بھوک کی علامت تھا؟ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ آخر وہ کون سا راز ہے جس نے اس قوم کو اتنی بلندی عطا کی؟
چین نے دنیا کو اپنی تیز رفتار ترقی سے حیران کر دیا ہے۔ 1978ء کے بعد سے اب تک اس کی سالانہ معاشی ترقی کی اوسط 9 فیصد کے قریب رہی ہے۔ آج اس کی معیشت کا حجم 18 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ صرف چار دہائیوں میں 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنا دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ شرح خواندگی 99 فیصد‘ صحت کی سہولتیں 94 فیصد آبادی کو میسر‘ اوسط عمر 78 برس اور دنیا کا سب سے بڑا ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک‘ جو ڈیڑھ لاکھ کلومیٹر سے زائد پر پھیلا ہوا ہے۔ آج ترقی کے سبھی پیمانے یہ بتاتے ہیں کہ یہ قوم خواب نہیں دیکھتی بلکہ خوابوں کو حقیقت میں بدلتی ہے۔ 42 لاکھ سے زائد 5G بیس سٹیشن اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر کھڑی معیشت نے دنیا کو چین کے گرد گھومنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین نے تعلیم اور صحت کو اپنی پالیسیوں کا اصل محور بنایا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اس نے صرف بڑے شہروں ہی میں نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی جدید سکول قائم کیے ہیں۔ یونیورسٹیاں عالمی معیار کی تحقیق کر رہی ہیں۔ 2018ء کے عالمی تعلیمی ٹیسٹ PISA میں بیجنگ‘ شنگھائی اور جیانگ سو نے ریاضی اور سائنس کے میدان میں دنیا بھر کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہر طالب علم کو مساوی مواقع فراہم کرنا ریاست کی ترجیح ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ کو لازمی حیثیت دی گئی ہے تاکہ ہر نوجوان کوئی نہ کوئی ہنر بھی حاصل کرے۔ صحت کے میدان میں بھی چین نے وہ انقلاب برپا کیا کہ آج اس کی 94 فیصد آبادی ہیلتھ کوریج کے نظام کے تحت آ چکی ہے جبکہ بیس سال پہلے یہ تعداد محض دس فیصد تھی۔ کورونا وبا کے دوران دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اس قوم نے اپنے نظام‘ عوامی اتحاد اور حکومتی عزم سے ایک عظیم بحران پر قابو پا لیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی حقیقت تلخ ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ صحت پر جی ڈی پی کا محض دو فیصد خرچ ہوتا ہے۔ ضلعی ہسپتال بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور تعلیمی ادارے نوجوانوں کو روزگار حاصل کرنے کے قابل نہیں بنا پاتے۔ یہ سب اس بات کی گواہی ہے کہ ہم نے تعلیم اور صحت کو کبھی سنجیدگی سے اپنی قومی ترجیح نہیں بنایا۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ دنیا کے محنت کش اپنی تقدیر خود بدلیں گے۔ چین نے اس جملے کو زندہ حقیقت بنا دیا ہے۔ اس نے محنت کشوں کو عزت دی‘ انہیں تعلیم اور صحت کی سہولت فراہم کی‘ ریاستی وسائل کو عوامی فلاح پر مرکوز کیا۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس سے نظریہ حقیقت میں ڈھل گیا۔ چین کی موجودہ ترقی کا اصل سہرا صدر شی جن پنگ کے سر جاتا ہے۔ وہ محض تقریروں کے نہیں بلکہ عمل کے لیڈر ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کسی چینی کو خطِ غربت سے نیچے نہیں رہنے دیا جائے گا اور یہ وعدہ 2020ء میں پورا کر دکھایا۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے انہوں نے 140 سے زیادہ ممالک کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا۔ انسدادِ بدعنوانی مہم کے تحت لاکھوں طاقتور اہلکاروں اور وزیروں تک کا احتساب ہوا تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ چین میں کرپشن کی کوئی جگہ نہیں اور قانون سب کے لیے برابر ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں چین نے مصنوعی ذہانت‘ روبوٹکس‘ 5G اور سپیس سائنس میں دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ صدر شی نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ چین 2060ء تک کاربن نیوٹرل ہو گا۔ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ وہ عملی عزم ہے جس پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور ہزاروں منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ یہی وہ لیڈرشپ ہے جس نے دنیا کو یہ یقین دلا دیا کہ چین نہ صرف ایک طاقتور معیشت ہے بلکہ ایک منظم قوم بھی ہے۔ چین کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا نظم وضبط ہے۔ بیجنگ کے ایئر پورٹس پر بائیو میٹرک سسٹم اور Facial recognition کے امتزاج نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ چیک اِن اور امیگریشن اب چند منٹوں کا کام رہ گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ سکیورٹی فول پروف ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ پاکستانی مسافروں کے ساتھ وہاں بہت عزت اور احترام کا برتائو کیا جاتا ہے۔ قطاریں منظم‘ عمل واضح اور رویہ مہذب۔ یہی وہ مرئی قوت ہے جو کسی ریاست کو دنیا میں مقام دلاتی ہے۔
پاکستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو دل دہل جاتا ہے۔ معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری شرمناک حد تک کم ہے۔ کرپشن ہمارے اداروں کو چاٹ رہی ہے۔ نوجوان بے روزگار اور مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ہر حکومت اپنے کھیل میں مصروف ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے سے پیچھے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے چین کے حالات ایک آئینہ ہیں۔ ہمیں چین سے یہ سبق لینا ہوگا کہ تعلیم پر کم از کم پانچ فیصد بجٹ خرچ کیا جائے۔ صحت میں یونیورسل کوریج کا آغاز ہو۔ غربت کے خاتمے کے لیے ہنر اور روزگار کی جامع پالیسی ہو۔ کرپشن کے خلاف بے رحم اور غیر جانبدار مہم ہو۔ ٹیکنالوجی کو ترقی کا اصل ہتھیار بنایا جائے۔ طویل المدتی ویژن اور پالیسیوں کا تسلسل ہماری ترجیح ہو۔ عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ ملک کی ترقی ان کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت پوری دنیا کی نظریں چین پر ہیں کیونکہ وہاں قیادت وژنری ہے‘ عوام منظم ہیں اور نظام مضبوط ہے۔ صدر شی جن پنگ نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ قیادت محض خواب نہیں دکھاتی بلکہ خوابوں کو پورا کرتی ہے۔ ترقی خواہش سے نہیں بلکہ فیصلوں اور عمل سے آتی ہے۔ پاکستان کے لیے اصل سوال یہی ہے کہ کیا ہم اپنی اس آہنی دوستی کو صرف ایک نعرہ رہنے دیں گے یا اسے تعلیم‘ صحت‘ ٹیکنالوجی کی ترقی اور شفافیت میں بدلیں گے۔ اگر ہم نے چین سے سبق لیا تو ہماری صبح بھی بیجنگ کی صبح جیسی روشن ہو سکتی ہے۔ اگر ہم نے موقع ضائع کر دیا تو دنیا آگے بڑھ جائے گی اور ہم اندھیروں میں گم ہو جائیں گے۔ یہ لمحہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن ہے؛ یا تو ہم جاگ جائیں اور اپنے مستقبل کو سنوار لیں یا پھر وقت ہمیں تاریخ کے حاشیے پر دھکیل دے۔ چین کی کہانی ہمارے سامنے ہے‘ اب ہمیں اپنی کہانی لکھنی ہے۔