پانی نے جیسے کسی سازش کے تحت سر اُٹھایا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ایک ایسی چنگھاڑ سنائی دی جس نے زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔ رات کے اندھیرے میں دریا اپنے کناروں سے نکل کر بستیاں چاٹ گیا۔ عورتیں چیخیں‘ بچے سہم گئے‘ مرد ہاتھوں میں ٹارچ تھامے اپنے پیاروں کی تلاش میں بھاگتے رہے۔ مٹی نے خواب نگل لیے‘ زیورات کی چمک پلک جھپکتے ہی کیچڑ میں دب گئی‘ مویشی بے جان پانی میں بہہ گئے اور وہ فصلیں جن پر کسانوں نے مہینوں کی محنت صرف کی تھی لمحوں میں برباد ہو گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں افراد کروڑ پتی سے کھکھ پتی بن گئے۔ جن گھروں میں کل تک خوشیوں کے دیے جل رہے تھے‘ آج وہاں صرف پانی کی شوریدہ لہریں ہیں اور دیواروں پر مٹی کا داغ۔
عوام کا الزام اب گلی گلی سنائی دے رہا ہے کہ کئی جگہوں پر بند جان بوجھ کر توڑے گئے۔ پہلے حکومتی ترجمانوں نے اعلان کیا کہ سب کچھ کنٹرول میں ہے‘ حالات بہترین ہیں اور لوگوں کو گھروں کو واپس بھیجا گیا لیکن جب رات کا سناٹا گہرا ہوا تو بند ٹوٹ گئے اور بستیاں ڈوب گئیں۔ یہ سوال اب ہر زبان پر ہے کہ اگر پیش گوئیاں پہلے سے موجود تھیں‘ اگر پانی کی آمد اور مقدار کا علم تھا تو پھر قبل از وقت آبادیاں کیوں نہ خالی کروائی گئیں؟
یہ وہی کوتاہیاں ہیں جو دنیا کی بڑی آفات میں ہمیشہ دیکھی گئی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی ملک میں مضبوط قیادت بروقت قدم اٹھا لیتی ہے اور کسی ملک میں اقتدار کے کھیل انسانی المیے پر حاوی رہتے ہیں۔ جب 2005ء میں نیو اورلینز میں کترینہ طوفان آیا تو امریکہ میں وفاقی حکومت کی تاخیری حکمت عملی ایک بدنام مثال بنی لیکن اسی دنیا میں ہم نے ایسے لیڈروں کو بھی دیکھا جو تباہی کے وقت لوگوں کے درمیان کھڑے رہے۔ نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرن نے کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے بعد اپنے عوام کو گلے لگایا‘ جاپان کے وزیراعظم نے 2011 ء کے سونامی میں متاثرہ علاقوں کا بار بار دورہ کیا اور خیموں میں بیٹھ کر لوگوں کی بات سنی‘ ترکی کے زلزلوں میں رجب طیب اردوان ملبے کے بیچ پہنچے۔ یہ سب مثالیں بتاتی ہیں کہ اصل قیادت وہ ہے جو دور سے حکم نہ دے بلکہ عوام کے دکھ میں شریک ہو۔
پاکستان کے اس حالیہ سیلاب نے ہمارے لیڈروں کو بھی آزمائش میں ڈالا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ مریم اورنگزیب نے بھی جنوبی پنجاب کے متاثرہ علاقوں میں جا کر یہ پیغام دیا کہ قیادت صرف ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے کا نام نہیں۔ مریم اورنگزیب کی وہ تصویریں جن میں وہ کیچڑ زدہ زمین پر متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہی ہیں‘ ایک علامت بن گئیں کہ سیاست میں بھی انسانیت کی گنجائش باقی ہے۔ اسی طرح کئی مقامی افسران‘ نوجوان رضاکار اور فوج کے جوان دن رات کام کرتے دکھائی دیے۔ ان کی موجودگی نے یہ پیغام دیا کہ اگر قیادت مخلص ہو تو وسائل کی کمی بھی حوصلے کو نہیں توڑ سکتی۔ مگر یہ چند مثالیں مجموعی ناکامی کا پردہ نہیں چھپا سکتیں۔ درجنوں دیہات میں لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں آخری لمحے تک انخلا کی سہولت نہیں دی گئی۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ بند رات کے اندھیرے میں اس لیے توڑے گئے تاکہ بااثر زمیندار اپنی زمینوں کو بچا سکیں۔ ان کہانیوں کی سچائی کا تعین تو تحقیقات سے ہوگا مگر یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ شفاف اور بروقت فیصلے نہ ہونے کے باعث ہزاروں لوگ اپنی زندگی بھر کی کمائی سے محروم ہو گئے۔
سیلاب کے بعد امدادی سرگرمیوں میں بھی بے شمار سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بیرونِ ملک اور ملک کے اندر کئی نوسربازوں نے متاثرین کے نام پر فنڈنگ جمع کی اور سوشل میڈیا پر ایسی اپیلیں نظر آئیں جن کی کوئی نگرانی نہیں تھی۔ ماضی میں آفات کے بعد ہم نے بارہا دیکھا کہ غیر شفاف طریقے سے فنڈز کس طرح چند ہاتھوں میں سمٹ جاتے ہیں اگر اس بار بھی یہی کہانی دہرائی گئی تو یہ صرف انتظامی نہیں بلکہ اخلاقی جرم ہوگا۔
سیلاب کے بعد مستقبل کی پالیسی بھی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ پنجاب کی ایک وزیر نے اعلان کیا کہ دریا کے کنارے بنائی گئی سوسائٹیز کو خالی کرایا جائے گا تاکہ پانی کا قدرتی راستہ بحال ہو سکے۔ یہ اعلان بظاہر مثبت ہے لیکن عوام پوچھ رہے ہیں کہ اگر یہ فیصلہ ہو چکا ہے تو عملی اقدامات کب شروع ہوں گے؟ کیا پھر کسی اگلے سیلاب کا انتظار کیا جائے گا یا آج ہی سے منصوبہ بندی کی جائے گی؟ بڑے ترقیاتی منصوبے اور بااثر ہاؤسنگ سوسائٹیز اگر دریا کا راستہ روک رہی ہیں تو ریاست کو یہ ہمت دکھانا ہو گی کہ سیاسی دباؤ کے بغیر ان رکاوٹوں کو ہٹایا جائے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں قیادت کی اصل تعریف سامنے آتی ہے۔ لیڈر وہ نہیں جو صرف متاثرین کے ساتھ تصویر بنوائے بلکہ وہ ہے جو مشکل فیصلے کرے‘ طاقتوروں کے مفادات کا مقابلہ کرے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آج قربانیاں دے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی رہنما ہیں جنہوں نے آفت کو اصلاح کا موقع بنایا۔ 1930ء کی دہائی میں امریکہ کے صدر فرینکلن روزویلٹ نے گریٹ ڈپریشن کے دوران نیو ڈیل پروگرام کے ذریعے معیشت کو نئی بنیادیں فراہم کیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ مشکل حالات کے بعد صرف ریلیف نہیں بلکہ سٹرکچرل اصلاحات ضروری ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی وقت ہے کہ وقتی امداد کے بجائے پائیدار اقدامات کیے جائیں۔ سب سے پہلے پشتوں اور ڈیموں کی مرمت اور نئے حفاظتی منصوبے بنائیں جائیں۔ ندی نالوں کے قدرتی راستے بحال کیے جائیں۔ شہری منصوبہ بندی میں سیاسی رعایتیں ختم کر کے سائنسی بنیادوں پر فیصلے ہوں۔ فنڈز کے آڈٹ کے لیے آزاد کمیشن بنایا جائے تاکہ ایک ایک روپے کا حساب عوام کو دیا جا سکے۔ متاثرہ کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں اور زرعی معیشت کو سہارا دینے کے لیے خصوصی پیکیج تیار کیا جائے۔ یہ سب اقدامات تبھی ممکن ہیں جب حکومتیں فوری سیاسی فائدے کے بجائے طویل مدتی قومی مفاد کو ترجیح دیں۔
سیلاب کے اس المیے نے یہ بھی دکھایا کہ ہماری معاشرتی یکجہتی کتنی قیمتی ہے۔ عام شہری‘ طلبہ‘ ڈاکٹر‘ انجینئر اور دیہاتی نوجوان اپنے وسائل کے ساتھ متاثرین کے پاس پہنچے۔ کسی نے کھانے کے پیکٹ بانٹے‘ کسی نے کشتی کا انتظام کیا‘ کسی نے اپنی جیب سے دوائیاں خریدیں۔ یہ وہ طاقت ہے جو کسی حکومت کے پاس بھی نہیں‘ مگر یہ طاقت تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب ریاست اس اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ اگر لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ ان کی قربانی چند بااثر افراد کی جیبیں بھرنے کا ذریعہ بن رہی ہے تو یہ سب جذبہ بھی ماند پڑ جائے گا۔
یہ کالم کسی ایک حکومت یا جماعت پر الزام لگانے کے لیے نہیں بلکہ ایک اجتماعی سوال ہے۔ کیا ہم بطور قوم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے؟ کیا ہماری قیادت صرف دورے اور بیانات تک محدود رہے گی یا مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سخت اور غیر مقبول فیصلے بھی کرے گی؟ قدرت ہمیں بار بار خبردار کر رہی ہے کہ اب وقت کم ہے۔ دریا کے کنارے رہنے والے کسان‘ شہر کے باسی‘ مویشی پالنے والے دیہاتی‘ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ اگر یہ کشتی ڈوبی تو فرقہ‘ جماعت اور زبان سب بیکار ہو جائیں گے۔ یہ لمحہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ قیادت صرف مسندِ اقتدار کا نام نہیں بلکہ ایک اخلاقی عہد ہے۔ وہ عہد کہ آفت کے وقت سب سے پہلے میدان میں اترنا ہے‘ سب سے پہلے کمزور کے پاس جانا ہے‘ سب سے پہلے سچ بولنا ہے۔ آج پاکستان کو ایسے ہی لیڈروں کی ضرورت ہے جو صرف تقریر نہ کریں بلکہ اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ عوام کی زندگی سب سے بڑی ترجیح ہے۔ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو اگلا سیلاب صرف پانی نہیں لائے گا‘ وہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو بھی بہا لے جائے گا۔