یہ منصوبہ جس لمحے وائٹ ہاؤس کے پوڈیم پر پیش ہوا اسی لمحے سے یہ طے ہو گیا تھا کہ غزہ کا مسئلہ اب صرف مشرق وسطیٰ کی سرحدوں میں محدود قضیہ نہیں رہا بلکہ عالمی طاقتوں‘ علاقائی ریاستوں اور فلسطینی عوام کی اجتماعی عقل وجرأت کا امتحان ہے۔20 نکاتی امن منصوبہ ایک طرف بڑی جرأت مندانہ انجینئرنگ دکھاتا ہے اور دوسری طرف حقیقت پسندی‘ اعتبار اور عملدرآمد کے سخت تقاضے رکھتا ہے۔ منصوبے کا ڈھانچہ اس تصور پر قائم ہے کہ غزہ کو عسکری ڈھانچوں اور ہتھیاروں کے زیراثر نہیں رہنے دیا جائے گا۔ فوری انسانی امداد اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی پہلی ترجیح ہو گی۔ ایک عبوری‘ غیر سیاسی اور تکنیکی کمیٹی غزہ کی عارضی حکمرانی سنبھالے گی‘ قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے واضح اور مرحلہ وار میکانزم اپنایا جائے گا۔ سرحدی سکیورٹی اور انسدادِ سمگلنگ کیلئے ایک عبوری بین الاقوامی استحکام فورس متعین کرنے کا تصور ہے جبکہ معاشی محاذ پر اقتصادی ترقیاتی منصوبہ اور خصوصی اقتصادی زون کے ذریعے غزہ کی بحالی اور روزگار تخلیق کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام جزئیات ایک نقشہ واضح کرتی ہیں مگر بنیادی سوال اپنی جگہ برقرار ہے: کیا یہ نقشہ کاغذات سے نکل کر کنکریٹ‘ سٹیل اور ادارہ جاتی اصلاحات میں ڈھل سکتا ہے؟
علاقائی تنازعات کی تاریخ بتاتی ہے کہ امن منصوبے چار ستونوں پر کھڑے رہتے ہیں: مقامی فریقین کی حقیقی قبولیت‘ اعتماد سازی کا ٹھوس میکانزم‘ بین الاقوامی نگرانی و عملداری کی شفاف ترتیب اور طویل مدتی سیاسی ومعاشی حل جو عوام کو زندگی آسان بنائے۔ اوسلو معاہدات (1993 - 1995ء) نے جذباتی امید جگائی مگر عملدرآمد کی کمزوری‘ سکیورٹی خدشات اور داخلی مزاحمت نے انہیں گزند پہنچائی۔ 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ نے مصر اسرائیل تنازع کو تو روک دیا مگر فلسطینی سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ باقی رہا۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ تحریری شقیں نہیں بلکہ ان کی ضمانتیں‘ تادیبی وترغیبی ڈھانچے اور مقامی آبادی کی رضا وشرکت امن کی اصل اکائیاں ہیں۔ یہی ٹرمپ منصوبے کو پہلا بڑا چیلنج ہے۔ حماس اور متعلقہ گروہوں کو غزہ کی حکمرانی سے باہر رکھتے ہوئے عسکری ڈھانچوں کو ختم کرنے کی عملی صورت کیا ہو گی؟ یہاں مقامی تعاون‘ کمیونٹی انگیج منٹ اور معاشی متبادل لازم ہیں ورنہ خلا پیدا ہوگا اور خلا میں غیر ریاستی عناصر جنم لیتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی ''ڈی آرمامنٹ‘‘ کے ساتھ ''ڈویلپمنٹ‘‘ اور ''ڈی پولرائزیشن‘‘ لازمی ہے ورنہ بندوقیں خاموش ہوں گی مگر غصہ اور مایوسی نہیں۔ یرغمالیوں اور قیدیوں کا معاملہ منصوبے کی انسانی روح ہے۔ 72 گھنٹوں کے اندر رہائی جیسے اہداف امید دلاتے ہیں لیکن اس کیلئے اعتماد سازی کی زنجیر کا ہر حلقہ مضبوط ہونا ضروری ہے۔ معاشی محاذ پر تعمیرِ نو‘ عالمی فنڈنگ‘ خصوصی اقتصادی زون اور ترقیاتی منصوبہ یہ الفاظ اپنی جگہ خوبصورت ہیں مگر سوالات بھی اتنے ہی ٹھوس ہیں کہ پیسے کہاں سے آئیں گے‘ کس فریم ورک کے تحت‘ کس ادارہ جاتی آڈٹ کے ساتھ‘ کس لاجسٹکس سے‘ کس شفافیت کے معیار پر اور سب سے بڑھ کر مقامی اداروں اور نوجوان افرادی قوت کی کپیسٹی بلڈنگ کیسے ہو گی؟ پانی‘ صحت‘ تعلیم اور انفراسٹرکچر‘ یہ صرف ڈالر سے نہیں اعتماد سے بھی بنتا ہیں اور اعتماد کی کرنسی کا محافظ شفافیت ہے۔ یہاں اس وسیع تصویر میں یہ بھی دیکھنا ہے کہ امریکہ کے اندر پالیسی ساز سطح پر یہ احساس گہرا ہو چکا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اور سیاسی راستے کی تلاش محض اخلاقی نہیں سفارتی اور داخلی سیاسی ضرورت بھی ہے۔ وائٹ ہاؤس پر میڈیا‘ سول سوسائٹی اور نوجوان ووٹر بلاک کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ کانگریس اور تھنک ٹینکس کے مباحثوں نے انسانی جانوں کے ضیاع کو انتخابی بیانیے کی کڑی میں جوڑنا شروع کیا۔ یہی دباؤ اس منصوبے کی سمت دھکیلنے والی طاقت بنا۔ دوسری طرف اسرائیل میں بھی نیتن یاہو کے فیصلوں پر غصہ بڑھتا رہا‘ گلیوں میں عوامی مزاحمت‘ ریزرو فورسز کی بے چینی‘ اقتصادی سست روی نے اسرائیل کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا کہ محض عسکری حکمتِ عملی سیاسی افق پر دیرپا سکون نہیں لا سکتی۔ عالمی سٹیج پر ایک غیر معمولی موڑ اقوامِ متحدہ کے اجلاسوں میں نظر آیا، جہاں اس بار معاملہ ''نوٹڈ‘‘ یا ''ڈیبیٹڈ‘‘ سے آگے بڑھ کر واقعی پُرزور اور کھلی بحث تک پہنچا۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں متعدد ریاستوں نے براہِ راست اس توسیع پسندانہ رویے کو بین الاقوامی قانون سے متصادم قرار دیا اور شہریوں کے تحفظ اور جبری بے دخلی کے سدباب پر زور دیا۔ بظاہر یہ بیانات ہیں مگر سفارتکاری میں ایسی زبان مستقبل کے فیصلوں کی سمت بتاتی ہے۔
ٹرمپ امن منصوبے کے سیاسی دل میں ایک اور کلیدی حقیقت کو بھی دیکھنا ہو گا‘ وہ ہے فلسطینی قیادت کا باضابطہ جواب۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسے سنجیدہ اور پُرعزم کوشش قرار دے کر کہا کہ وہ جنگ بندی اور سلامتی کی ضمانت پر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے‘ فلسطینی آبادی کی جبری بے دخلی کی ممانعت‘ روکی گئی فلسطینی ٹیکس آمدنی کی فوری واپسی اور اسرائیلی انخلا کی سمت ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا اور سب سے اہم یہ کہ غزہ‘ مغربی کنارے اور القدس کو ایک ریاستی نظام کے تحت متحد کرنے کے اصول پر زور دیا۔ اطلاعات یہی ہیں کہ اسی ماہ سے جنگ بندی کے عملی اقدامات شروع ہونے جا رہے ہیں اور اسی ماہ ایک اور بڑا اکٹھ‘ جس میں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ‘ صدر ٹرمپ اور دیگر کلیدی رہنما شامل ہوں‘ متوقع ہے۔ اس اکٹھ کا امکان اس لیے اہم ہے کہ یہ سیاسی عہد کو عملی ترتیب میں بدلنے کی پہلی اجتماعی کوشش ہو گی۔ اگر یہ اجلاس صرف فوٹو سیشن کی حد تک رہا تو مایوسی بڑھے گی۔ اگر اس نے میٹرکس‘ ٹائم لائن اور احتساب کا میکانزم دیا تو اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ یہاں حماس کی پوزیشن فیصلہ کن رہے گی۔ برسوں کی مسلح جدوجہد کے بعد کسی بین الاقوامی فریم ورک کے تحت غیر مسلح ہونے یا عسکری دائرہ کار محدود کرنے پر آمادگی دکھانا صرف بیانیہ نہیں اندرونی سیاست کا بھی امتحان ہے۔ قطر اور ترکیہ یہ کر سکتے ہیں مگر اس کی قبولیت اسی وقت ممکن ہو گی جب زمین پر عوامی فوائد دکھائی دیں۔ ملبہ اٹھایا جائے‘ بجلی بحال ہو‘ پانی ملے‘ ہسپتال کھلیں‘ روزگار ملے‘ سکول آباد ہوں اور چیک پوسٹوں کے سائے ہٹیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کی وہ سخت تنبیہ ہے کہ اگر معاہدہ رد ہوا تو اسرائیل کو حماس کے مکمل خاتمے کے لیے امریکی تعاون حاصل ہو گا۔یہ زبان carrot کے ساتھ stick کی موجودگی کا اعلان ہے اور یہی دو دھاری تلوار امن عمل کو یا تو سیدھا چلائے گی یا پھر مزید زخمی کرے گی۔ انسانی امداد کی بلاتعطل فراہمی‘ جبری بے دخلی کی ممانعت‘ مغربی کنارے کے انضمام سے واضح انکار‘ اسرائیلی افواج کا مرحلہ وار انخلا‘ مغویوں کی رہائی‘ تعمیرِ نو کا آغاز اور دو ریاستی حل کے تحت فلسطینی ریاست کا قیام‘ یہ سب وہ نکات ہیں جن پر دہائیوں سے باتیں ہو رہی تھیں مگر اب پہلی بار امریکی صدارت کا پوڈیم ان کیلئے بین الاقوامی کور بنا رہا ہے۔ اگر یہ حمایت مشترکہ ورک پلانز‘ فنڈ اور مانیٹرنگ میں ڈھل گئی تو سفارتی جملے عمل کے آہنی ستون بن جائیں گے۔
آخر میں پاکستان کے زاویے پر ایک سادہ بات: اسلام آباد نے کبھی سخت بیانیہ‘ کبھی محتاط خاموشی اور اب کھلی حمایت کے ذریعے خود کو اس نئے سفارتی محور میں ایڈجسٹ کر لیا ہے۔ اس کے فوائد واضح ہیں‘ عالمی میز پر پکی نشست‘ مسلم دنیا کے اندر گہرا ربط اور فلسطینی ریاست کے بیانیے کے ساتھ اصولی ہم آہنگی‘ مگر خطرات بھی واضح ہیں۔ اگر منصوبہ ڈِلیور نہ کر سکا تو یہی حمایت داخلی وخارجی تنقید کا ہدف بن جائے گی؛ چنانچہ پاکستان کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ بیانیے کے ساتھ تکنیکی معاونت‘ انسانی امداد کے چینلز اور تعمیرِ نو کے کنسورشیا میں عملی شرکت بڑھائے۔ یہ منصوبہ امید اور اندیشے کے بیچ تنا ہوا ایک رسا ہے۔ امید اس لیے کہ پہلی بار امریکہ‘ اسرائیل‘ عرب ومسلم ممالک اور فلسطینی اتھارٹی کے بیانیے میں مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ اندیشہ اس لیے کہ تاریخ بارہا بتا چکی ہے کہ امن منصوبے کاغذ پر نہیں انسانوں کے دلوں اور شہروں کی گلیوں میں بنتے ہیں۔