ہجوم دیکھ کر انوریؔ کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ نزدیک گیا تو دیکھا ایک شخص لوگوں کو اشعار سنارہاہے۔ یہ اشعار انوری کے تھے۔ انوریؔ نے اسے کہا یہ شعر جو تم پڑھ رہے ہو، یہ تو انوری کے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں! بالکل انوری کے ہیں۔ تو تم کیوں سنارہے ہو؟ انوری نے پوچھا۔ کہنے لگا میں ہی تو انوری ہوں۔ یہ سن کر انوری نے وہ مشہور فقرہ کہا جو ادب کی تاریخ میں امر ہوگیا۔ ’’شعرچوری ہوتے تو سنے تھے، یہاں تو خود شاعر چوری ہوگیا ہے !‘‘ بارہویں صدی کے مشہور شاعر انوری کا یہ واقع بلاسبب نہیں یاد آرہا۔ ٹیکسلا میں قاف لیگ کے جس سابق لیڈر کو تحریک انصاف نے ٹکٹ مرحمت کیا ہے اس نے وہی بات کہی ہے جو انوریؔ بن کر انوریؔ کی شاعری سنانے والے نے انوریؔسے کہی تھی۔ اس کا کہناہے کہ حلقے میں اس کے چالیس ہزار سے زیادہ ووٹ ہیں اور یہ کہ اس نے پارٹی اس لیے بدلی ہے کہ اس کے حمایتیوں کا مطالبہ تھا! یہ ایک عجیب وغریب صورت حال ہے، حمایتی تحریک انصاف کو پسند کرتے ہیں لیکن جو اصحاب سالہا سال سے تحریک انصاف سے وابستہ چلے آرہے ہیں اور جنہوں نے انتھک محنت سے تحریک کو علاقے میں مستحکم کیا وہ ان حمایتیوں کو راس نہیں آتے۔ حل یہ نکالاگیا کہ حمایتی اپنے لیڈر سے ،جو قاف لیگ سے وابستہ ہیں اور پرویز مشرف کے زمانے میں تخت وزارت پر فائز رہے، یہ درخواست کریں کہ حضور! آپ تحریکِ انصاف میں داخل ہو جائیے تاکہ ہم آپ سے بھی وابستہ رہیںاور تحریک انصاف سے بھی!بے غرض رہنمانے اس آواز پر لبیک کہا اور اپنے حامیوں کے مطالبے پر قاف لیگ کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کر تحریک انصاف کی چادر اوڑھ لی۔ رہوار سیاست نے ،یوں لگتا ہے، اپنا رُخ موڑ لیا ہے۔ آج تک تو یہی سنتے پڑھتے اور دیکھتے آئے تھے کہ رہنمائی کے فرائض رہنما سرانجام دیتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ذہن تبدیل کرتے ہیں اور انہیں اس طرف لے کر جاتے ہیں ، جدھر فلاح ہو۔ قاف لیگ کے سرچشمہ فیوض سے یہ ایک نیا سوتا پھوٹاہے۔ اب پیروکار فیصلہ کریں گے کہ لیڈر نے کس راستے پر چلنا ہے۔ کیا عجب کل نون لیگ اقتدار میں آجائے اور یہ چالیس ہزار پیروکار نون لیگ کو پسند کرنے لگیں۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اپنے رہنماکی رہنمائی کرتے ہوئے اسے نون لیگ کے تھان پر لے آئیں گے ! تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاہ بختی کی جڑیں ہماری تاریخ کے اس دور میں پیوست ہیں جب تقسیم سے قبل پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈی جاگیردار مسلم لیگ میں آگئے یالائے گئے ! یہ حضرات کسی نہ کسی شکل میں آج بھی قوم پر مسلّط ہیں۔ عوامی نمائندگی انہیں وراثت میں ملتی آرہی ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک طرف قائداعظم کی کرشماتی اور طلسماتی شخصیت کا ذکر ہوتا ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انگریزی سے نابلد عوام پر ان کے سحر کی گرفت کا یہ عالم تھا کہ وہ انگریزی زبان میں تقریر کرتے تھے اور حاضرین نہ سمجھتے ہوئے بھی دم بخود ہوکر سنتے تھے، تو پھر اس صورت حال میں مسلم لیگ کو یونینسٹ پارٹی کے ٹوڈیوں کی ضرورت ہی کیا تھی؟پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندر حیات خان تو بیک وقت مسلم لیگ میں بھی شامل تھے اور یونینسٹ پارٹی میں بھی ۔تحریک انصاف سے بھی یہی سوال پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ اگر نوجوان عمران خان پر فدا ہونے کے لیے سربکف کھڑے ہیں تو پھر جنرل مشرف کے چلے ہوئے کارتوسوں کو اسلحہ خانہ میں کیوں بھرا جارہا ہے ؟کیا تماشہ ہے عمران خان اسی سانس میں یہ اعلان بھی کیے جارہے ہیں کہ ’’ان کی پارٹی نے میوزیکل چیئر کا کلچر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے کیونکہ پرانے چہرے تبدیلی لانے کے اہل ہی نہیں۔ ‘‘ سچ پوچھیے تو ہمیں یہ نسخہ کیمیابہت کام کا لگاہے۔ جس زمانے میں برزنیف سوویت یونین کا بے تاج بادشاہ تھا۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎ ہمارے مسائل کو آسان کر برزنیف کو یارب مسلمان کر اس وقت عمران خان سیاست میں ہوتے تو ضمیر جعفری کے شعر میں غلطی نکالتے۔ بجائے اس کے کہ برزنیف مسلمان ہو اورروسی عوام اس کی تقلید کریں، تحریک انصاف یہ دعا مانگتی کہ پہلے روسی عوام اسلام قبول کریں اور پھر وہ برزنیف کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔ اس فارمولے کا اطلاق موجودہ صورت حال پر ہوتو مطلب یہ ہوگا کہ ایک ابامہ کو قائل کرنے کے بجائے، امریکی عوام کو قائل کیا جائے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں سے اختلاف کریں۔ جب چار پانچ عشروں کی محنت کے بعد تیس کروڑ امریکی ہمارے حامی ہوجائیں گے تو وہ ابامہ کو بھی سیدھے راستے پرلے آئیں گے! علامہ اقبال نے اس ضمن میں ایک اور نکتہ نکالا تھا ؎ کرے قبول اگر دین مصطفی انگریز سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام غالباًعلامہ کو یہ ڈرتھا کہ اگر انگریز مسلمان ہوگئے تو وہ ان ’’برکات‘‘ کو بھی اپنا لیں گے جن سے مسلمان ’’فیض یاب‘‘ ہورہے ہیں ۔ وہ بھی مسلمان ہوکر فرقوں میں بٹ جائیں گے اور ایک دوسرے کی مساجد کو ’’فتح ‘‘ کرنا شروع کردیں گے۔ پھر لباس کا مسئلہ اٹھے گا۔ کس انگریز مسلمان نے کون سے رنگ کی دستار زیب سر کرنی ہے اور کس انگریز مسلمان نے کون سی مذہبی تنظیم میں شامل ہونا ہے۔ اس وقت بریڈفورڈ ، مانچسٹر، برمنگھم ، گلاسکو اور لندن کی پاکستانی برادری میں وہی صورتِ احوال ہے جو پاکستان میں ہے۔ ’’روحانی‘‘ بزرگ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ مسجدیں فرقوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ تعویز گنڈے کا کاروبار زوروں پر ہے۔ ہمہ وقتی ٹیلی ویژن چینل صرف جادو اور استخاروں کی خدمات کے لیے مختص ہیں۔ پاکستانیوں کی تیسری نسل بھی اتوار بازاروں میں ٹھیلے لگارہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی تارکین وطن کی نئی نسل صحافت ، تعلیم ،قانون ، ٹیکنالوجی اور بزنس کے شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے۔ بات تحریک انصاف کی ہورہی تھی۔ لیڈر کے پیروکاروں نے ہانکا لگایا اور ہانکتے ہانکتے اپنے لیڈر کو قاف لیگ سے نکال کر تحریک انصاف میں لے آئے۔ اگر چل پڑے تو کیا ہی اچھی روایت ہے! کیا عجب کل اے این پی کے حمایتی مولانا فضل الرحمن سے متاثر ہوجائیں اور اسفند یارولی کو جے یو آئی میں شامل ہونے پر مجبور کردیں۔ پیپلزپارٹی کے جیالے نون لیگ کے گرویدہ ہوجائیں اور زرداری صاحب کو نون لیگ کا ٹکٹ مل جائے۔ نون لیگ کے پیروکاروں کے دلوں کا رخ قدرت موڑے اور وہ ایم کیوایم سے متاثر ہو جائیں یوں میاں نواز شریف مجبور ہوکر لندن فون کررہے ہوں۔ پارٹیاں بدلنے والے سیاست دان مفت میں بدنام ہوتے رہے اور لوٹے کہلواتے رہے۔ باعزت نسخہ تو اب ہاتھ آیا ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف میں لوٹا کوئی نہیں۔ یہاں موقع پرستی کا تاج حامیوں کے اصرار پر پہنا جاتا ہے ؎ یہاں تاج اس کے سرپر ہوگا جو تڑکے شہر میں داخل ہو یہاں سایہ ہما کا نہیں پڑتا ، یہاں کوہ قاف نہیں ہوتا