نئے سپہ سالار کے انتخاب کی خبر جس طرح تہلکہ خیز ہے‘ جس طرح وزیراعظم نے آخری وقت میں اس انتخاب کا اعلان کیا‘ جس طرح ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات میں یہ بہت بڑی سرخی بنی‘ جس طرح اس پر تبصرے ہو رہے ہیں‘ اس سے اس ملک اور اس قوم کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا ؎
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
مناظر احسن گیلانی ''امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی‘‘ میں امام کی ذہانت کے دلچسپ واقعات لکھتے ہیں۔ امام‘ مسجد میں شاگردوں اور احباب کے حلقے میں حسبِ معمول بیٹھے تھے۔ ساتھ ہی بازار تھا یا کوئی عام کوچہ۔ ایک شخص گزرا۔ امام نے اُسے دیکھا اور اس کے بارے میں تین باتیں بتائیں۔ اول: یہ شخص اس شہر میں اجنبی ہے۔ دوم: اس کے بائیں ہاتھ میں میٹھی چیز ہے۔ سوم: اس کا پیشہ بچوں کو پڑھانا ہے۔ کسی زیادہ چُست شاگرد نے اجنبی سے جا کر پوچھا۔ تینوں باتیں صحیح نکلیں۔ امام سے پوچھا گیا آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ امام نے کہا بالکل عام سی باتیں ہیں۔ یہ شخص گزرتے ہوئے غور سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا یہ جگہ اس کے لیے نئی ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ پر مکھیاں بیٹھی تھیں اور مسلسل اس ہاتھ کا تعاقب کر رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی میٹھی شے ہے۔ مسجد کے ایک گوشے میں بچے سبق پڑھ رہے تھے۔ اس نے ساری مسجد کے مختلف حصوں کو چھوڑ کر مسلسل بچوں ہی کو غور سے دیکھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق بچوں کی تعلیم و تدریس سے ہوگا۔ لیکن جس طرح آرمی چیف کے انتخاب کی خبر اس ملک میں بہت بڑی خبر ہے‘ اس سے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے کسی امام ابو حنیفہؒ کی ضرورت نہیں۔
اللہ کے بندو! جن ملکوں میں ادارے مضبوط ہوتے ہیں‘ جمہوریت اصل جمہوریت ہوتی ہے‘ صوابدیدی اختیارات ہوتے ہی نہیں‘ یا کم سے کم ہوتے ہیں اور حکومت کے سربراہ کو اپنے ہر فیصلے کے لیے منتخب نمائندوں کے ہائوس کو قائل کرنا پڑتا ہے۔ وہاں نئے سپہ سالار کے انتخاب کی خبر ایک عام خبر ہوتی ہے۔ مسلح افواج کے تینوں حصے وزارتِ دفاع کے ذیلی ادارے ہیں۔ وزارتِ دفاع میں ایک سیکرٹری ہوتا ہے۔ وہ اپنے فرائض وزیردفاع کے نیچے سرانجام دیتا ہے۔ کسی بھی فوج کا سربراہ چننا‘ برّی ہو یا بحری یا فضائی‘ اصولی طور پر وزیردفاع کا کام ہے۔ اگر وہ رسمی منظوری حکومت کے سربراہ سے بھی لے تو اعلان بہرطور اُسی کے محکمے کو کرنا ہوتا ہے۔
اپنے ہمسائے بھارت کی مثال لے لیجیے۔ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے 31 مئی 2012ء کو ریٹائر ہونا تھا۔ پورے تین ماہ پہلے‘ تین مارچ کو اُس کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا کہ جنرل بکرم سنگھ نیا آرمی چیف ہوگا۔ جنرل بکرم سنگھ سب سے زیادہ سینئر تھا۔ اگر یہ کالم نگار غلطی نہیں کر رہا تو غالباً صرف ایک بار بھارت میں ایک ایسے جرنیل کو سپہ سالار تعینات کیا گیا جو سینئر ترین نہیں تھا۔ اس کے
علاوہ سینیارٹی کا اصول ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا۔ دوسرے لفظوں میں بھارتی حکومت کے سربراہوں نے صوابدیدی اختیارات استعمال نہیں کیے۔ اگر پاکستان میں ادارے مضبوط ہوتے‘ ایک بااختیار وزیردفاع ہوتا‘ اگر مسلح افواج صحیح معنوں میں وزارتِ دفاع کی ماتحت ہوتیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا۔ یہ ایک روٹین کی سرکاری سرگرمی ہوتی۔ تین یا دو ماہ پہلے نئے سپہ سالار کے نام کا اعلان کردیا جاتا۔ نیا سالار‘ اپنے پیشرو سے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھ سکتا۔ اُسے ساری بریفنگ اس اثنا میں دے دی جاتی اور کمانڈ تبدیل ہوتے وقت نظام میں ہلکا سا ارتعاش بھی محسوس نہ ہوتا۔
صوابدیدی اختیارات کی زیادتی‘ اداروں کی کمزوری اور بسا اوقات بے بسی‘ شخصیات کا اصولوں پر حاوی ہونا۔ یہ وہ دیمک ہے جس نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا۔ اس کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا اور جنرل ضیاء الحق نے اسے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ یہ تو غنیمت ہے کہ مسلح افواج میں ترقیاں تعیناتیاں اور تبادلے افواج ہی کے پاس رہے اور یوں مسلح افواج سیاست دانوں کی تاخت و تاراج سے کسی حد تک بچی رہیں لیکن سول میں وہ تباہی مچی کہ اُس تباہی پر ''لاقانونیت‘‘ کا لفظ پورا ہی نہیں اترتا۔ ضیاء الحق کے پورے عہد میں مکمل بادشاہی تھی۔ بادشاہ کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا۔ کس کو ملک کے اندر کہاں لگانا ہے‘ کسے باہر تعینات کرنا ہے‘ سب کچھ ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر تھا۔ راولپنڈی میں ایک شخص ہر رمضان میں جنرل صاحب کو افطار کی دعوت دیتا تھا۔ اُس کے داماد کو زمین سے اٹھایا اور آسمان پر بٹھا دیا۔ پسند کے اہلکاروں کو نو‘ نو سال بیرون ملک رکھا۔ یہ تباہی‘ یہ لاقانونیت‘ اداروں کی یہ بے بسی ضیاء الحق کے بعد بھی جڑوں کو مسلسل کاٹتی رہی۔ ملک کی واحد ایئرلائن میں سالہا سال تک تعیناتیاں بند دروازوں کے پیچھے ہوتی رہیں۔ آج یہ ایئر لائن ایک دیمک زدہ لکڑی ہے جو سہارے کے ساتھ کھڑی ہے اور گرنے کے قریب ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو دو دو بار حکومتیں ملیں سب کچھ ذاتی پسند ناپسند سے ہوا۔ فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو عوام نے مٹھائیاں بانٹیں اور کھائیں۔ اُسی زمانے میں اخبارات نے بتایا کہ چالیس سے زیادہ کلیدی اسامیوں پر ایک خاص گروہ کے اہلکار قابض تھے۔ ایف آئی اے میں 30 افراد رکھے گئے‘ جن میں سے اٹھائیس ایک خاص شہر اور خاص نسلی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔
ادارے بے بس ہو جائیں تو ''گروپ‘‘ چھا جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو ایک مشہور و معروف گروپ واپس آیا اور ٹڈی دل کی طرح ہر طرف چھا گیا۔ یہ صاحب ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ ان کے بھائی سٹیل مل کی سربراہی کی وجہ سے ''مشہور‘‘ ہوئے تھے۔ قریبی عزیزہ کو سندھ حکومت کا ستون بنا دیا۔ اسی گروپ کے سراج شمس الدین بھی سالہا سال یورپ میں رہنے کے بعد واپس آئے۔ فوراً وزیراعظم کے پرسنل سیکرٹری بنائے گئے۔ گھنٹوں کی بنیاد پر ترقیاں ہوئیں۔ پچھلے سارے سالوں کے واجبات وصول کیے۔ بہن کو ایک بہت بڑے ادارے کا سربراہ بنایا۔ فرسٹ کزن کو دارالحکومت میں ایک اور بڑے ادارے کی سربراہی سونپی۔ پھر فلپائن کے ایشیائی بینک میں پاکستان کی نمائندگی اپنے لیے شوق فرمائی جہاں سے اب رخصت ہو رہے ہیں۔
یہ گروپ گیا تو اب لاہور گروپ واپس آ گیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو کہ میڈیا میں اس گروپ کا ذکر نہ ہو۔ کل ہی ایک معاصر نے بہت دلچسپ سوال پوچھا ہے کہ راولپنڈی کے پولیس افسروں کو ہٹا تو دیا گیا لیکن اس معاملے کی تحقیق کون کرے گا کہ کون کس نے تعینات کروایا تھا!
جمہوری ملکوں میں کوئی پُل یا کارخانہ بنے تو وہاں کا علاقائی حاکم‘ جیسے یونین کونسل کا سربراہ یا ڈپٹی کمشنر... افتتاح کرتا ہے۔ جس ملک میں چھوٹے سے پُل کا افتتاح حکومت یا ریاست کا سربراہ کرے وہاں سپہ سالار یا قاضی القضاۃ کی تعیناتی کی خبر تہلکہ نہ مچائے تو کیا کرے ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے