ہزاروں کا مجمع تھا۔ایک نوجوان لائوڈ سپیکر پر بول رہا تھا:
''میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
''کیا یہ فیصلہ تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائک نے پوچھا۔
''ہاں،اپنی مرضی سے کیا ہے‘‘۔
''کیا اسلام قبول کرنے کے لیے تم پر کوئی دبائو ہے؟‘‘
''نہیں‘‘۔
''کیا تمہیں کوئی مالی مجبوری ہے جس کے لیے اسلام قبول کر رہے ہو؟‘‘
''نہیں‘‘۔
''کیا یہ فیصلہ تم نے خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے؟‘‘
''ہاں! خوب سوچ سمجھ کرکیا ہے۔ اپنی مرضی سے کیا ہے لیکن ایک بات ہے ، بس ڈر سا لگ رہا ہے‘‘۔
''کس کا ڈر؟ کس سے ڈر رہے ہو؟‘‘
''دیوی‘ دیوتائوں سے‘ کہیں وہ نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔
ڈاکٹر ذاکر نائک نے اس کا ڈردورکیا اور وہ مسلمان ہوگیا لیکن ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ وہ دیوی دیوتائوں سے ڈر رہا تھا!
ہم مسلمان کسی دیوی‘ دیوتا‘ بُت‘ مورتی‘ مجسمے سے نہیں ڈرتے۔ یہ ہم پر خالقِ کائنات کا بہت بڑا احسان ہے۔
لیکن کیا ہم فی الواقع خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے پتھر کی مورتیاں تو نہیں بنائیں‘ لیکن زندہ انسانوں کو دیوتا بنا رکھا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم صرف خدا سے نہیں ڈرتے اور باقی سب سے ڈرتے ہیں؟
ہم اس مخبوط الحواس اپاہج شخص سے ڈرتے ہیں جس کا سر اس لیے چھوٹا رہ گیا کہ جرائم پیشہ لوگوں نے اُسے آہنی ٹوپی پہنائے رکھی۔ اب وہ دولے شاہ کا چوہا کہلاتا ہے۔ اس نویسندہ نے اچھے بھلے بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں عورتوں کو اس کے سامنے کانپتے دیکھا ہے کہ یہ کہیں نقصان نہ پہنچا دے۔
ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جس نے گلے میں مالا اور تن پر لمبا سبز چولا پہن رکھا ہو۔ ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جس نے سر پر سفید چادر اوڑھی ہوئی ہو۔ ہم میں سے بہت سوں کا ایمان ہے کہ وہ اولاد، صحت اور عزت دیتے ہیں۔
ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جو تھری پیس انگریزی سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہے۔ یہ افسر ہے ، ہم اسے اپنی تقدیر کا مالک سمجھتے ہیں۔ ہم اس سے ڈرتے ہیں کہ یہ نقصان نہ پہنچا دے۔ افسر وزیر سے ڈرتا ہے کہ وزیر اُس کا کیریئر نہ خراب کردے۔ وزیر‘ وزیراعظم سے ڈرتا ہے کہ ناراض ہوا تو کابینہ سے نکال دے گا۔ یہ ڈر‘ یہ خدا کے سوا‘ دیوی دیوتائوں کا ڈر‘ یہ غیر اللہ کا ڈر بزدل بنا دیتا ہے۔ ماتحت، افسر کا غلط حکم مانتا ہے۔ افسر، وزیر کے ظالمانہ حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ وزیر‘ وزیراعظم کی ناجائز خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ خدا کے سوا دوسروں سے ڈرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سب ڈر کے مارے غلط کام کرتے ہیں اور ملک اور قوم کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت کہ خدا کے سوا کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘ کوئی ہوائی تصور نہیں۔ یہ کوئی دیومالائی عقیدہ نہیں‘ اس حقیقت کا ہماری زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔اگر ہمارا یقین ہوگا کہ خالقِ کائنات کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ہم کسی کا غلط حکم نہیں مانیں گے۔ جس قوم کے ہر شخص کا ایمان ہو کہ نقصان صرف خدا پہنچا سکتا ہے ، اس قوم میں کرپشن در آ سکتی ہے نہ بزدلی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ فیصل صالح حیات سے لے کر شیخ رشید تک سب جنرل پرویز مشرف کے ہم نوا ہو گئے کہ جرنیل کہیں نقصان نہ پہنچائے۔ آج اگر ہم خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تو ہماری قسمت سلمان فاروقیوں‘ سراج شمس الدینوں‘ لاشاریوں‘ سیٹھیوں‘ مسعود محمودوں اور زاہد حامدوں کے ہاتھ میں نہ ہوتی۔ ہمارے حکمرانوں کو خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والی افسر شاہی ملتی تو ہم پر لاہور گروپ حکومت کرتا نہ کراچی گروپ۔ ہماری حکومتوں کا ہر قدم درست سمت میں اٹھتا اور آج ہم اسفل السافلین کے پاتال میں گرے ہوئے نہ ہوتے۔
محمود لودھی یاد آ رہے ہیں۔ سول سروس میں آنے کے بعد امین احسن اصلاحی صاحب سے عربی زبان و ادب اور قرآن کے مطالب و معانی باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کر کے پڑھے۔ فرانسیسی زبان پر عبور تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹنسی سے فارغ التحصیل، کسی سے نہ ڈرنے والے ، سچائی کے معاملے میں برہنہ تلوار۔ نیشنل ڈیفنس کالج (اب یونیورسٹی) میں اعلیٰ تربیتی کورس کر رہے تھے۔ ملک کے صدر جنرل ضیاء الحق زیر تربیت فوجی اور سول افسروں سے خطاب کرنے آئے۔ خطاب کے بعد سوال جواب کی روایت ہے۔ ضیاء الحق کو پہلے ہی بریف کر دیا گیا کہ محمود لودھی نامی افسر خطرناک سوال پوچھ سکتا ہے۔ خطاب کرنے کے بعد صدر نے خود ہی کہا کہ پہلا سوال محمود لودھی پوچھیں گے۔ محمود لودھی اٹھے... ''صدر صاحب! ہم سب جانتے ہیں کہ اقتدارکرپٹ کرتا ہے اور بے تحاشا اقتدار بے تحاشا کرپٹ کرتا ہے۔
Power tends to corrupt and absolute power corrupts absolutely.
آپ کے پاس بے تحاشا طاقت ہے تو کیا آپ بے تحاشا کرپشن کی طرف نہیں جا رہے؟‘‘
ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ضیاء الحق کا چہرہ سرخ ہوگیا لیکن اس کا باطن ہمیشہ ظاہرکی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا رہتا تھا۔اس نویسندہ کو یقین نہیں لیکن گمانِ غالب یہ ہے کہ رپورٹ منفی دی گئی تھی!
لاہور میں ملک بھر کے محکمۂ تعمیرات کے حسابات کے سربراہ تھے۔اس محکمۂ میں سڑکیں‘ پل‘ سرکاری عمارات سب کچھ شامل تھا۔ محمود لودھی نے مدتوں سے بیٹھی ہوئی کرپٹ بڑی مچھلیوں کو اکھاڑنا شروع کیا۔ دفتر سائیکل پر آتے تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے ساتھ لاتے تھے۔ وزیر کا فون آیا کہ فلاں صاحب کو آپ نہیں چھیڑیں گے۔ محمود لودھی نے کہا کہ ہم ایک فارمولے، ایک نظام کے تحت تبادلے کر رہے ہیں، آپ کا حکم نہیں مانا جا سکتا۔ وزیر نے زور لگایا۔ لودھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وزیر نے دھمکی دے کر کہ میں تمہیں دیکھ لیتا ہوں‘ فون پٹخ دیا۔ لودھی نے گھر فون کیا اور بیگم سے ہنستے مسکراتے کہا کہ سامان باندھنا شروع کردو‘ کہیں پھینکے جانے والے ہیں۔ دوسری صبح اخبارات میں وزیر صاحب کے اپنے تبادلے کی خبر تھی۔
محمود لودھی کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان بننے کی باری تھی۔ بے نظیر بھٹو نے ذاتی احسان کا بدلہ چکانے کے لیے ایک ایسے وفادار اہلکار کو آڈیٹر جنرل بنا دیا جس کا شعبے سے تعلق تھا نہ اس فن سے۔ لودھی ریٹائر ہوکرگھر چلے گئے۔ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا۔ ہاں جو نقصان ملک کو پہنچا اس کی بازپرس بے نظیر بھٹو سے بہت جلد ہوگی۔
ایک اور سینئر بیوروکریٹ یاد آ رہے ہیں۔ فقیر سے بے تکلفی ہے۔ ایک دن فرمانے لگے‘ یار‘ کل تمہارے علاقے میں گیا لیکن بہت خوار ہوا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ موصوف فتح جنگ میں کسی بابا جی سے مستقبل کا حساب کتاب کرانے گئے تھے۔ وہاں ''مسلمانوں‘‘ کا ہجوم تھا۔ انہیں دھوپ میں بہت دیرکھڑا ہوکر انتظارکرنا پڑا۔ان سے عرض کیا کہ یہ خواری‘ یہ ذلت‘ آپ نے اپنے اوپر خود مسلط کی۔ آپ کو اللہ نے ہر شے سے نوازا ہے، ہر بڑے شہر میں کوٹھی ہے‘ دلیا آپ امپورٹڈ کھاتے ہیں اور فرنیچر ''ڈیزائنر‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بابا جی کے حساب کتاب سے ملا ہے؟‘‘ اصل قصہ یہ ہے کہ جب انسان اپنی باگ ڈور خدا کے علاوہ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو پھر ذلت کی انتہا نہیں رہتی۔اس کی تذکیرکلام پاک انوکھے پیرائے میں کرتا ہے: ''اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘ (الحج۔ 31)۔ یہ مستقبل کا حساب کرنے والے‘ یہ زائچے بنانے والے‘ یہ ہاتھوں کی لکیروں میں الجھانے والے‘ یہ خدا کے سوا اپنے دروازوں پر جھکانے والے‘ یہی تو وہ پرندے ہیں جو اُچک لے جاتے ہیں اور نوچ کھاتے ہیں۔
ہم ہر بات پر قائداعظم اور اقبال کا حوالہ دیتے ہیں لیکن ہمیں اقبال کا یہ فرمان یاد نہیں رہتا ؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
اور یہ بھی کہ ؎
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
اللہ کے نیک بندوں کی کرامات برحق لیکن وہ تو اپنے آپ کو ظاہر ہی نہیں کرتے۔ وہ اپنی تشہیر کرتے ہیں نہ اپنی تصانیف کی مارکیٹنگ! دوسرے یہ کہ کسی کی کرامت بجا! حساب تو اپنے اپنے اعمال کا دینا ہے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ اقبال آج ہوتے تو لاہور سے چل کر کسی بابے کے پاس جاتے اور پیٹھ پر چھڑیاں کھاتے؟ جیسے ہمارے ایک نہیں دو وزرائے اعظم نے کیا۔ اور قائداعظم ہوتے تو کیا سرکاری خزانے پر پلنے والے کسی پیر کے کہنے پر مہینوں پہاڑوں سے دور سمندر کے نزدیک رہتے؟ قرآن اور رسولؐ کے نام پر بننے والی مملکت کے یہ کیسے وزراء اور صدر ہیں؟ کہیں احمد جاوید نے انہی کے بارے میں تو نہیں کہا ؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
ان اہلِ اقتدار سے زیادہ توحید پرست تو وہ خراباتی شاعر جون ایلیا نکلا ؎
تیرے ہی در کے ہم ہیں سوالی‘ تیرا ہی در دل میں کھُلا ہے
شہرِ نظر در بند ہے سارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا، سینہ خالی کر ڈالا ہے
لے، میں اپنے سانس بھی ہارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا