اب یاد نہیں چودھری نسیم صاحب سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ میلبورن آئے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے۔ شاید ایک دعوت تھی۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلا تو فوجی جوانوں کے پسندیدہ محاورے کی رُو سے ڈاکخانہ بھی مل گیا۔ ان کا تعلق ہمارے خاندان کے بزرگوں سے نکل آیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک‘ گاہے گاہے‘ ان سے ملاقات رہتی ہے۔ کبھی مختصر‘ کبھی طویل۔
آسٹریلیا کی ایک بڑی یونیورسٹی میں وہ انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ کئی سال مشرق وسطیٰ میں رہے۔ وہاں سے سڈنی آ گئے۔ کچھ عرصہ بعد برونائی چلے گئے جہاں ایک حکومتی ادارے میں بہت عرصہ کام کیا۔ برونائی‘ ملائیشیا‘ سنگاپور اور انڈونیشیا کے مسلمان شافعی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ گزشتہ عید الاضحیٰ پر ایک عزیز نے جو کوالالمپور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ بتایا کہ وہاں قربانی نہیں دی جاتی۔ صرف حج کرنے والے یہ سنت سعودی عرب میں ادا کرتے ہیں۔ یہ بات عجیب لگی اس لیے ذہن میں تھی۔ نسیم صاحب سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی۔ انہوں نے کچھ اور دلچسپ باتیں بھی بتائیں۔ مثلاً برونائی کے لوگوں کا سانپوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ ہے۔ کسی کے گھر کے صحن میں سانپ دکھائی دے تو اسے پکڑ کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ غالباً یہ سانپ مہلک نہ ہوں گے۔ ایک دوسرے کے گھر آنے کا رواج صرف عید کے موقع پر
ہے۔ عید کے علاوہ یہ تکلیف نہیں دی جاتی۔ نسیم صاحب نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ ان کے ساتھ دفتر میں ایک صاحب کام کرتے تھے۔ کئی سال کے بعد معلوم ہوا کہ ان کے والد برونائی کابینہ میں وزیر ہیں۔ یہ بھی اتفاقاً پتہ چل گیا۔ اس سارے عرصہ میں انہوں نے کبھی بھی ذکر نہ کیا کہ وہ ایک وزیر کے صاحبزادے ہیں! لیکن یہ ساری باتیں ضمنی ہیں۔ اصل بات جو بتانا مقصود ہے اور ہے!
نسیم صاحب انتہائی دیندار‘ متقی اور آخرت سے ڈرنے والے انسان ہیں۔ انہیں اس حقیقت کا شدید احساس ہے کہ جو بات منہ سے نکلتی ہے اور جو فعل سرزد ہوتا ہے‘ پروردگارِ عالم کی طرف سے مامور فرشتے اسے نوٹ کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں بہت محتاط ہیں۔ ان کا روزانہ کا معمول مشقت سے کم نہیں۔ وہ صبحِ صادق سے پہلے بیدار ہوتے ہیں۔ نہا دھو کر‘ ناشتہ کر کے‘ مسجد چلے جاتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر قرآن حفظ کرتے ہیں۔ نمازِ باجماعت کے بعد یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہیں سے وہ یونیورسٹی پڑھانے چلے جاتے ہیں۔ واپس آ کر وہ ہر نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادے بھی نمازیں مسجد ہی میں ادا کرتے ہیں۔ نسیم صاحب
صرف قرآن پاک کے الفاظ کے حافظ نہیں‘ معانی سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ اکثر دورانِ گفتگو وہ آیات پڑھتے ہیں اور اپنے پوائنٹ کی تشریح کے لیے ان کے معانی پیش کرتے ہیں لیکن یہ ذکر بھی ضمناً آ گیا۔ اصل بات جو بیان کرنی ہے اور ہے۔
نسیم صاحب شہر کے ایک خوبصورت حصے میں رہتے تھے۔ وہاں وہ مطمئن نہیں تھے۔ اس لیے کہ کوئی مسجد گھر کے قریب نہیں تھی۔ انہوں نے وہ گھر فروخت کردیا۔ نیا گھر انہوں نے ایسی جگہ خریدا جہاں سے ہر نماز کے لیے وہ پیدل باآسانی مسجد جا سکتے ہیں۔ یہ مسجد مجموعی طور پر پاکستانیوں کی ہے۔ آسٹریلیا میں مسجدیں اس کمیونٹی کے حوالے سے جانی جاتی ہیں جو ارد گرد رہائش پذیر ہوتی ہے۔ مثلاً ترکوں کی مسجد‘ مصریوں کی مسجد‘ فجی والوں کی مسجد‘ بنگالیوں کی مسجد۔ نسیم صاحب جس محلے میں منتقل ہوئے‘ وہاں پاکستانی زیادہ تعداد میں آباد ہیں؛ تاہم عرب‘ بنگالی‘ بھارتی اور دیگر قوموں کے مسلمان بھی اس مسجد میں آتے ہیں۔ خریدا ہوا گھر ضروریات کے مطابق نہیں تھا۔ نسیم صاحب نے فیصلہ کیا کہ کچھ اضافی کمرے تعمیر کرا لیے جائیں اور جو حصہ تعمیر شدہ ہے‘ کچھ تبدیلیاں اس میں بھی کرا لی جائیں تاکہ فیملی کو رہائش میں دشواریاں پیش نہ آئیں۔ اُن کے ملنے والے تقریباً سارے ہی وہی تھے جن کا تعلق مسجد سے تھا۔ تعمیراتی کام کے لیے ان اصحاب سے مشورہ کیا تو تقریباً سبھی نے ایک بات پر زور دیا کہ کام کسی غیر مسلم سے کرانا۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ مسلمان بھائی‘ طے شدہ وقت پر شروع کرے گا نہ پروگرام کے مطابق ختم کرے گا۔ نسیم صاحب نے جہاں یہ بات بتائی ہم تقریباً نصف درجن مسلمان وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس بات پر جتنا غور کیا جائے‘ کم ہے۔ دو پہلو دلچسپ ہیں۔ ایک یہ کہ جن احباب نے یہ مشورہ دیا‘ وہ کوئی ماڈرن یا سیکولر ٹائپ لوگ نہیں تھے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ اسلام کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ وہ تو سارے ان مسلمانوں میں سے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی نماز‘ مسجد اور تلاوت ہے۔ یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے کہ مسلمانوں کو بدنام کریں اور اہلِ اسلام کے متعلق کوئی ایسی منفی بات کریں جس کا حقیقت سے تعلق نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ ان احباب نے نسیم صاحب کو یہ نہیں کہا کہ کسی پاکستانی سے یہ کام نہ کرائیں۔ انہوں نے یہ وارننگ ترکوں‘ مصریوں‘ بنگالیوں یا عربوں کے حوالے سے بھی نہیں دی۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کسی مسلمان سے کام نہ کرائیں۔
اس واقعہ پر کسی تبصرے کی حاجت ہے نہ حاشیہ آرائی کی۔ ہاں‘ ایک سوال ضرور اٹھتا ہے۔ حشر کے دن جب سایہ عنقا ہوگا‘ دن ناقابلِ بیان حد تک طویل ہوگا‘ پیاس کی شدت سے حلقوموں میں کانٹے فقط چبھ نہیں رہے ہوں گے‘ چھید کر رہے ہوں گے‘ ماں کو بیٹے کا‘ بہن کو بھائی کا اور بیوی کو میاں کا ہوش نہ ہوگا‘ واحد سہارا رسالت مآبؐ کی ذاتِ گرامی ہوگی جو حوضِ کوثر کے کنارے تشریف فرما ہوں گے۔ کیا‘ ہم آج کے مسلمان‘ اس حالت میں ہوں گے کہ آپؐ کا سامنا کریں؟ خدانخواستہ اگر آپؐ نے یہ فرما دیا کہ...
''میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا تھا‘ میں نے وضاحت سے‘ کسی ابہام کے بغیر‘ بتا دیا تھا کہ وعدہ خلافی کرنے والے کا ایمان نہیں ہوگا۔ میں نے بتا دیا تھا کہ جھوٹ بولنے والا‘ عہد کا پاس نہ کرنے والا اور امانت میں خیانت کرنے والا منافق ہوگا۔ تم میری امت میں تھے۔ تمہیں تو غیر مسلموں کے لیے ماڈل بننا تھا۔ لیکن تمہاری حالت یہ تھی کہ غیر مسلم تو کیا‘ تم خود ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے قابل نہیں تھے‘‘۔
تو ہم کیا جواب دیں گے؟