سیٹھ بکرم کے پاس کیا نہیں تھا۔ مہنگی گاڑیوں کا پورا فلیٹ، وسیع و عریض محل‘صحت افزا مقامات پر کوٹھیاں‘جنوبی ہند میں بڑے بڑے فارم اور باغات‘ سب کچھ تھا۔ الائچی اور گرم مصالحوں کی سرحد پار''تجارت‘‘ پر تو ان کی اجارہ داری تھی۔ وزیروزراء ان کے گھر حاضری دیتے تھے۔
سیٹھ صاحب کو زندگی کا پہلا صدمہ اس وقت پہنچا جب ان کے صاحبزادے نے اصرار کیا کہ وہ پروفیسر چٹر جی کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔سیٹھ صاحب کو اس وقت حیرت ہوئی جب ان کے چند جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ دوستوں نے خیال ظاہر کیا کہ پروفیسر چٹر جی نہیں مانیں گے۔ مروت کا تقاضا تھا کہ یہ دوست اس انکار کی وجہ پر تفصیلی گفتگو نہ کریں۔سیٹھ صاحب پھولوں پھلوں اور مٹھائیوں سے گاڑیاں لاد کر پروفیسر کے گھر پہنچے۔ پروفیسر نے خوش اخلاقی سے ان کی تجویز سنی اور وعدہ کیا کہ اگر ان کی لڑکی نے یہ رشتہ قبول کیا تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ چند دن بعد پروفیسر صاحب نے فون کیا اور اطلاع دی کہ بیٹی یہ رشتہ قبول نہیں کر رہی۔ سیٹھ بکرم دم بخود رہ گئے۔
''لیکن پروفیسر صاحب کیوں؟آخر میرے بیٹے میں کیا کمی ہے؟ باہر سے پڑھ کر آیا ہے۔ اس کا باپ کھرب پتی ہے۔‘‘
''سب درست ہے سیٹھ صاحب!لیکن میری بیٹی کا کہنا ہے کہ لڑکے کا خاندان باعزت نہیں۔یہ لوگ سمگلنگ اور مار دھاڑ سے بنے ہیں جب کہ میرے باپ کی عزت علم و دانش سے ہے۔میرے باپ نے جو عزت کتابیں لکھ کر‘یونیورسٹیوں میں پڑھا کر‘ نامی گرامی شاگرد پیدا کر کے‘ کمائی ہے‘ وہ عزت میں ایک سمگلر کے بیٹے سے شادی کر کے ضائع نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
قوموں اور ملکوں کی مثال بھی سیٹھ بکرم اور پروفیسر چٹر جی کی ہے!ملکوں کی ترقی موٹر وے سے ہوتی ہے نہ میٹرو بسوں سے۔ دنیا کا عظیم ترین سٹیل کا کارخانہ لگانے سے‘ نہ بڑے بڑے ایئر پورٹ تعمیر کرنے سے۔ملکوں کی ترقی قانون پر چلنے سے ہوتی ہے۔ قانون پر چلنے کا اولین تقاضا میرٹ ہے۔ ملک کا نظم و نسق بیورو کریسی چلاتی ہے۔ اس بیورو کریسی میں پولیس‘ضلعی انتظامیہ ‘وزارت خارجہ‘وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹ اسی طرح اہم ہیں جیسے عمارت میں دیواریں اور چھت۔ اگر بیورو کریسی کو میرٹ پر نہ چلایا جائے تو موٹر وے کچھ عرصہ میں جی ٹی روڈ سے بدتر ہو جاتی ہے۔میٹرو بسوں کا حشر وہی ہوتا ہے جو جی ٹی ایس(گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کا ہوا اور ایئر پورٹ یوں ویران ہو جاتے ہیں جیسے اسلام آباد ایئر پورٹ ویران ہے جہاں دنیا کی سینکڑوں ایئر لائنوں میں سے صرف تین یا چار کے جہاز اترنا پسند کرتے ہیں۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کو چلانے والی بیورو کریسی حکمرانوں کے گھر کی لونڈی سے بھی کم حیثیت رکھتی ہے۔ فوجی آمروں کی تو بات کرنی ہی فضول ہے کیوں کہ وہ اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اداروں کا گلاگھونٹ ڈالا۔پسند کے اہلکاروں کو نو نو سال تک بیرون ملک تعینات رکھا۔ جنرل پرویز مشرف بھی یہی کچھ کرتے رہے۔وفاقی محکمہ تعلیم کے سر پر ایک فوجی افسر کو مسلط کیا تو پانچ چھ بار توسیع دی!لیکن اصل بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوری حکومتوں نے بھی میرٹ کا قتل عام کیا اور یوں کیا کہ تیمور اور نادر شاہ درانی کے قتل عام کی یادیں تازہ کردیں۔پیپلز پارٹی نے کئی اداروں کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ زندان کے احباب نے کشتوں کے پشتے لگا دیے۔ تاہم پیپلز پارٹی کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس نے نیکی کا لبادہ کبھی نہیں اوڑھا اور مذہب کا غازہ رخساروں پر کبھی نہیں ملا۔افسوس یہ ہے کہ مسلم لیگ کے حکمران مذہبی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ وہ ماشاء اللہ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ حج‘عمرہ‘ صدقہ خیرات ان کا شعار ہے لیکن میرٹ کے قتل عام میں وہ کسی آمر سے پیچھے رہتے ہیں نہ کسی دوسری سیاسی جماعت سے ۔
وفاقی وزیراطلاعات نے کل ہی کہا ہے کہ ہم عوام کوویسا ہی پاکستان دیں گے جیسا 1999ء میں چھینا گیا تھا۔وزیر صاحب نے سچ کہا ہے۔1999ء کا پاکستان خالصتاً ذاتی‘شخصی‘گروہی‘ قبائلی اور سفارشی بنیادوں پر چلایا جا رہا تھا۔ اس وقت کے اخبارات کو سرسری طور پر بھی دیکھا جائے تو حقائق منہ چڑاتے ہیں۔ اس زمانے کی صرف دو خبریں ہی چاول کے چند دانوں کی طرح پوری دیگ کا مزا دے دیں گی۔
ایک خبر یہ تھی کہ چالیس سے زیادہ کلیدی مناصب پر تعینات بیوروکریٹ ایک خاص شہر سے تھے۔دوسری خبر یہ تھی کہ ایک حساس ادارے میں تیس اہلکار لگائے گئے جن میں سے ستائیس یا اٹھائیس ایک خاص علاقے (یا ایک خاص برادری) سے تھے۔ اب بھی مسلم لیگ حکومت کا افسوس... صد ہزار افسوس!یہی رویہ ہے۔ پورا پریس چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے خطوط چلایا جا رہا ہے اور یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہیڈ کوارٹر فلاں شہر میں ہے لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ آپ اس اسلوبِ حکمرانی کی ادا دیکھیے کہ ہر بیرونی دورے میں وزیر اعظم کے ہمراہ ایک ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی احساس نہیں کہ برادری ازم اور علاقائیت... اور وہ بھی وفاقی معاملات میں‘ مہلک اثرات دکھاتی ہے ۔یہ مہلک اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اقربا پروری کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو‘ جن کی عمر ستر سال سے زیادہ ہو چکی ہے‘ ایک اہم یورپی ملک میں سفیر مقرر کیا گیا ہے۔
اس تعیناتی کا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ صاحب ایک ایسی ہمہ پہلو مقتدر ہستی کے بھائی ہیں جو سالہا سال سے اقتدار اعلیٰ کی قربت میں ہے!رہی یہ بات کہ ان سفیر صاحب کو جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک ملک سے سفارت کا عرصہ پورا ہونے سے پہلے واپس بلا لیا گیا تھا تو اس سے بڑے بڑے ظلم دوسرے سرکاری ملازموں سے ہوئے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کو چار سال صرف اس لیے گھر بٹھایا گیا کہ انہوں نے معتوب وزیر اعظم کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کیا تھا۔اسی ''سزا‘‘ کے دوران وہ ریٹائر ہو گئے۔ فارن سروس ہی کے مشتاق رضوی کو صرف اس لیے سات آٹھ سال زیر عتاب رکھا گیا کہ انہوں نے ایک جرنیل سفیر کے غلط اقدام کی نشان دہی کی تھی۔ اسی حالت عتاب میں وہ ریٹائر ہوئے اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ جاوید حفیظ کو برما میں سفارت سنبھالے چھ ماہ ہوئے تھے کہ واپس بلا لیے گئے۔کسی کے قریبی رشتہ دار کو جن کا اس شعبے سے دور کا تعلق بھی نہ تھا‘ ان کی جگہ سفیر لگانا تھا۔ اگر اشک شوئی ہی کرنی ہے تو پھر سب کی کیوں نہ کی جائے! صرف بھائی صاحب کی کیوں؟
مملکت کے اہلکار‘مملکت کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اس شعبے میں ناانصافی کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ گناہ ان گناہوں میں سے ہے جس کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ہماری اپنی قریب کی تاریخ گواہ ہے۔بھٹو صاحب نے میرٹ کو قتل کر کے جنرل ضیاء الحق کو نوازا۔یہ نوازش ان کے گلے پڑ گئی۔ میاں صاحب میرٹ کشی کر کے جنرل پرویز مشرف کو اوپر لائے اور بے پناہ نقصان اور تکلیف اٹھائی۔کاش!وہ اس بات کا احساس کریں اور سیاسی‘ شخصی‘ گروہی اور دوستانہ مداخلت بند کر دیں اور کسی اور کو بھی مداخلت کی اجازت نہ دیں۔اب بھی وقت ہے۔ اگر وہ پولیس اور دوسری بیورو کریسی کو صرف اور صرف میرٹ پر چلنے دیں تو ان کا نام اس ملک کی اندھیری تاریخ میں ستارہ بن سکتا ہے ؎
خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ برآید فلان نماند