اشکال

ایک بار پھر وہی مخمصہ‘ وہی پراگندہ خیالی! وہی گومگو کی کیفیت! وہی مشکل سوال جس کا جواب نہیں ملتا!
ایک معتبر بین الاقوامی تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستانی اوّل نمبر پر ہیں۔ عام طور پر یہ نمایاں مقام ہمیں کرپشن وغیرہ میں حاصل ہوتا ہے لیکن اب کے عزت رہ گئی ہے۔ یہ سروے مذہب کو زندگی میں اہم‘ زیادہ اہم اور غیر اہم سمجھنے کے بارے میں تھا۔ رپورٹ کے مطابق چین میں مذہب کو سب سے زیادہ کم اہم سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں صرف 54 فیصد لوگ مذہب کو انتہائی اہم سمجھتے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو لیا جائے تو ترکی میں 70 فیصد افراد‘ مصر میں 82 فیصد‘ انڈونیشیا میں 94 فیصد‘ سینیگال میں 97 فیصد... اور پاکستان میں 98 فیصد افراد کے لیے مذہب زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ دعویٰ جو پاکستانیوں نے کیا ہے‘ غلط نہیں کیا۔ اس کے بے شمار مظاہر ہیں۔ دعویٰ کی ٹھوس بنیادیں نظر آ رہی ہیں۔ پاکستان میں اسلامی مدارس کی تعداد کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ انڈونیشیا ہے یا ملائیشیا‘ ترکی ہے یا بنگلہ دیش‘ دینی علوم کے شائقین سیدھا پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں مسلمان اکثریت میں نہیں‘ مثلاً امریکہ یا یورپی ممالک‘ وہاں سے بھی مسلمان اپنے بچوں کو دینی علوم و فنون میں طاق کرنے کے لیے پاکستانی مدارس میں بھیجتے ہیں۔ خود پاکستانی طالب علم لاکھوں کی تعداد میں ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔
خیرات و صدقات کے ضمن میں پاکستانی سرفہرست ہیں۔ رمضان میں ایک بار کچھ دن مدینۃ النبیؐ میں قیام کا اتفاق ہوا۔ زائرین جانتے ہیں کہ وہاں افطار کا اہتمام کس ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے اور اجنبی مہمانوں کو کس طرح اصرار کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ لوگوں نے وہاں بتایا کہ پاکستان سے کثیر تعداد میں اس کارِ خیر کے لیے بھاری رقوم ارسال کی جاتی ہیں۔ یہ رقوم بیس بیس‘ تیس تیس اور پچاس پچاس لاکھ میں بھی ہوتی ہیں! مدارس جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں‘ مخیر حضرات کی لگن ہی سے چل رہے ہیں۔ جب عوام کو اعتماد ہو تو وہ کچھ بھی نچھاور کر سکتے ہیں۔ خواتین اپنے کانوں‘ گلوں اور بازوئوں سے زیورات اتار کر عبدالستار ایدھی اور عمران خان جیسی قابلِ اعتماد شخصیات کے حوالے کردیتی ہیں۔
جب بھی کوئی ناگہانی افتاد آتی ہے‘ جیسے زلزلہ یا سیلاب‘ پاکستانیوں کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں اتنے بے لوث‘ انتھک اور بے غرض لوگ کہیں اور ہیں۔ کراچی سے قافلے چلتے ہیں اور کشمیر کے دور افتادہ پہاڑوں میں ہفتوں رضاکارانہ کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں مسجدیں نماز کے اوقات میں نمازیوں سے چھلکنے لگتی ہیں۔ پچیس تیس سال قبل یہ تعداد کم تھی۔ اب صورت احوال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ پھر ظاہری شکل و صورت میں بھی شعائرِ اسلام کی پابندی زیادہ سے زیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں نظر آتا ہے کہ ہر تیسرا یا چوتھا مرد متشرع ہے اور خا تون باپردہ ہے۔ حرمین شریفین‘ نجف‘ کربلا اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کے لیے لاکھوں افراد ہمہ وقت پابہ رکاب ہیں۔ ایک قافلہ واپس پہنچتا ہے تو تین روانہ ہو رہے ہوتے ہیں۔ رمضان میں ریستوران مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ سحری اور افطار کے دوران یہ کاروبار کرے۔ یہی صورت حال جہاد کی ہے۔ چیچنیا سے لے کر بوسنیا تک اور عراق سے لے کر فلسطین تک پاکستانی نوجوان ہر جگہ سربکف پہنچتے ہیں۔ پھر ترقی یافتہ ممالک میں‘ جہاں مسلمان تارکین وطن آباد ہیں‘ خواہ جاپان ہے یا آسٹریلیا۔ شمالی امریکہ ہے یا یورپ‘ دوسروں کی نسبت پاکستانی ہی سب سے زیادہ مذہب کی طرف مائل نظر آتے ہیں!
حج کے بعد مسلمانانِ عالم کا سب سے بڑا اجتماع بھی پاکستان ہی میں ہر سال ہوتا ہے۔ جماعتوں کی جماعتیں تشکیل پاتی ہیں اور مبلغین کے قافلے جوق در جوق کرۂ ارض کے اطراف و اکناف میں پھیل جاتے ہیں۔ اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کا یہ سلسلہ اتنا وسیع‘ بھرپور اور ہمہ گیر ہے کہ پوری تاریخِ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی! اس پورے سلسلے کا اعصابی مرکز پاکستان میں واقع ہے۔
یہ تمام حقائق وہ ہیں جو کسی اشتباہ یا ابہام سے بالاتر ہیں۔ ہر شخص ان حقائق سے آگاہ ہے اور شاید ہی کوئی کوتاہ نظر پاکستانیوں کی ان دینی خصوصیات سے انکار کرے!
اب اس سے آگے مخمصہ ہے اور پراگندہ خیالی! گومگو کی کیفیت ہے اور اشکال! اشکال بھی ایسا جس کا جواب نہیں ملتا۔ اس اشکال کو حل کرنے کی بات کی جائے تو لوگ تقریر تو طویل شروع کردیتے ہیں لیکن عین کیل کے سر پر کسی کا ہتھوڑا لگتے نہیں دیکھا!
تو پھر کیا وجہ ہے کہ استنبول سے لے کر سعودی عرب تک‘ اہلِ پاکستان کی آبادیوں کی نشان دہی کرتے وقت لوگ طنزاً مسکرا پڑتے ہیں! سعودی عرب سے لے کر یو اے ای تک... شُرطہ سب سے زیادہ ''توجہ‘‘ ہم پاکستانیوں پر دیتا ہے۔ ہر ایئرپورٹ پر ہماری تلاشی دوسروں کی نسبت زیادہ اہتمام اور التزام سے لی جاتی ہے۔ یہ قلم کار 1992ء سے وسط ایشیا جا رہا ہے۔ تاشقند کی ''انڈر ورلڈ‘‘ احساسِ تشکر کے ساتھ بتاتی ہے کہ ستر سال بعد سوویت یونین سے رہائی ملی تو وہ جھوٹ اور جعل سازی سے ناآشنا تھے۔ جعلی پاسپورٹ بنانے کا فن انہیں پاکستانیوں نے سکھایا۔
کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے اکثر مہینے کے تیس دن‘ ہفتے کے سات روز اور دن رات کے چوبیس گھنٹے جھوٹ بولتے ہیں اور مسلسل جھوٹ بولتے ہیں۔ کیا اس میں کسی کو کلام ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے؟ دکاندار گاہک سے‘ گاہک تاجر سے‘ میاں بیوی سے‘ بیوی میاں سے‘ والدین اولاد سے‘ اولاد والدین سے‘ آجر مزدور سے‘ ماتحت سینئر سے‘ سیاست دان عوام سے اور عوام سرکار سے غرض سب ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ کوئی کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی وعدے کا پابند نہیں۔ وقت طے کر کے اس کی پابندی کوئی نہیں کرتا۔ اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ایک دو نہیں‘ سینکڑوں دعوت ناموں پر جو وقت باقاعدہ چھپا ہوا ہوتا ہے‘ کمپوز کرنے والے سے لے کر‘ پرنٹ کرنے والے تک‘ لفافے میں ڈالنے والے سے لے کر تقسیم کرنے والے تک سب گواہی دیتے ہیں کہ کھانا نو بجے ملے گا لیکن بارہ ایک بجے ملتا ہے۔ یہاں تک کہ رات کو دو بجے بھی اکثر و بیشتر ملتے دیکھا جاتا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر نائب قاصد تک‘ کروڑ پتی سے لے کر خاکروب تک... کوئی وقت کا پابند نہیں اور جو وقت طے کرتا ہے‘ ڈنکے کی چوٹ پر اُسے پامال کرتا ہے۔
مذہب ہم میں سے 98 فیصد کی زندگیوں میں انتہائی اہم ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان گنتی کے اُن چند ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں تاجر اور دکاندار (اِلا ماشاء اللہ) اکلِ حلال سے بے نیاز ہیں۔ ایسے ایسے عیوب ہیں جن کی شریعت کے علاوہ قانون‘ اخلاق اور انسانیت‘ کوئی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اوّل‘ ملاوٹ عام ہے۔ اشیائے خورونوش سے لے کر ادویات تک‘ یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ تک‘ ہر شے میں ملاوٹ کثرت کے ساتھ ہے۔ دوم‘ ٹیکس چوری عام ہے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس اہلکاروں کو رشوت دینے کے علاوہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور رجسٹر‘ کاغذات‘ وائوچر‘ جعلی اور دُہرے دُہرے تیار کیے جاتے ہیں۔ سوم‘ غالب اکثریت تاجر حضرات کی شے کا نقص نہیں بتاتی۔ اس کے بارے میں اللہ کے رسولؐ کی وعید موجود ہے اور سب کو معلوم ہے۔ چہارم‘ ناجائز تجاوزات کی لعنت ملک میں ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ سڑکیں‘ گلیاں‘ راستے‘ فٹ پاتھ‘ پارک‘ سب کچھ اس کی زد میں ہے۔ ناجائز زمین پر دکانداری کرنے والوں سے سرکاری ادارے رشوت اور خود سامنے والے تاجر بھتہ لیتے ہیں۔ اصل دکان کی نسبت زیادہ رقبے پر دکاندار دھاندلی سے قابض ہے اور کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ پنجم‘ تجارت میں دروغ گوئی عام ہے۔ ''کوئی شکایت آج تک نہیں آئی‘‘، ''ہمیں اتنے میں پڑ رہی ہے‘‘، ''نقص ہو تو واپس لے آئیں‘‘، یہ اور اس قسم کے جھوٹ پورے اعتماد سے بولے جاتے ہیں۔ ششم‘ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کیا جاتا۔ یہ گاہک کے حق پر ایسا ڈاکہ ہے جو دن دہاڑے مارا جاتا ہے۔ ہفتم‘ ماپ تول میں کمی عام ہے۔
پھر سرکاری دفاتر کا حال دیکھ لیجیے‘ اہلکار متشرع اور پابندِ صوم و صلوٰۃ ہیں یا آزاد مشرب‘ کم ہی ہیں جو وقت پر آتے ہیں۔ کم‘ بہت ہی کم! سائل پھیرے پر پھیرے ڈالتا ہے۔ رشوت عام ہے۔ اقربا پروری اور سفارش زوروں پر ہے۔ اگر چھٹی کا وقت چار بجے ہے تو تین بجے دفتر خالی ہو جاتے ہیں۔ کھانے اور عبادت کے حوالے سے کئی کئی گھنٹوں کی غیر حاضریاں کی جاتی ہیں۔ یہ سب وہ حرکات ہیں جو شرعی اعتبار سے آمدنی کو مشکوک بناتی ہیں۔ ہمیں بتایا یہ گیا ہے کہ جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا‘ اس میں ایمان ہی نہیں‘ لیکن ہماری ریاست کا سربراہ بھی بلاکھٹکے کہہ دیتا ہے کہ وعدہ کوئی قرآن یا حدیث نہیں کہ پورا کیا جائے۔
اگر اٹھانوے فیصد افراد کے لیے مذہب بہت ہی اہم ہے تو پھر یہ سب کچھ کیا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں