سڑکیں صاف شفاف ہیں۔ جیسے ابھی ابھی دھلی ہیں۔ جیسے کل ہی کارپٹ کی گئی ہیں۔ فرلانگ در فرلانگ، فرسنگ در فرسنگ چلتے جائیے، کسی راستے، کسی گلی، کسی کوچے میں کوڑا کرکٹ نہیں نظر آتا۔ چاردیواری خال خال دکھائی دیتی ہے۔ گیٹ پھاٹک قبیل کی کوئی شے کہیں نہیں۔ فٹ پاتھ اور گھروں کے درمیان والی جگہ پودوں اورخوبصورت جھاڑیوں سے بھری ہوئی ہے۔ پھر اندر صحن ہے جسے لان کہتے ہیں۔ لگتا ہے ہر گھر جلو میں باغ لئے ہے۔ سینکڑوں اقسام کے خوبصورت درخت لگے ہیں۔ کسی کے پتے سرخ، کسی کے سبز اور کسی کے کھِلتے ہوئے نقرئی رنگ کے ہیں۔ جھاڑیاں گنبدوں کی صورت میں تراشی گئی ہیں۔ اگر کسی جگہ سبزہ نہیں تو وہاں سنگ مر مر کے کنکر بچھا دیئے گئے ہیں تاکہ مٹی اڑے نہ گرد جمع ہو۔ اگر کہیں باڑ ہے تو اس کا ایک پتہ بھی ترتیب اور نظم سے باہر نہیں۔ یوں لگتا ہے نظافت کا مقابلہ ہے اور ہر گھر اس مقابلے میں اول پوزیشن لینے پر تلا ہے۔ بارش کا پانی جمع کرنے کا اور کام میں لانے کا انتظام عام ہے۔ شاہراہوں پر لکیریں کھینچی گئی ہیں تاکہ گاڑیاں نظم و ضبط سے چلیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان لکیروں کو خاطر میں نہ لائے۔ بازار ساڑھے پانچ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ اس پابندی پر کوئی احتجاج ہے نہ جلسہ نہ جلوس!
اب کے میلبورن کا سفر ایک برس بعد درپیش ہوا ہے۔ اس برس کا معتدبہ حصہ اسلام آباد ایکسپریس وے پر ٹریفک جام میں گزرا۔ باقی میں سے اچھا خاصا حصہ لوڈشیڈنگ کی نذر ہوا۔ جو بچا، وہ خانگی مصروفیات اور خاندانی مکروہات پر خرچ ہوا۔ یوں، کم ہی ساعتیں تھیں جو غنیمت میں بچیں اور اپنے تن یا من پر صرف ہوئیں۔
میلبورن میں پھرتا ہوں، تراشی ہوئی جھاڑیاں، سنہری، ارغوانی، سرخ، نارنجی، دھانی اور سبز پتوں والے درخت دیکھتا ہوں اور حسد سے مرتا ہوں۔ ماتم کرتا ہوں۔ آہیں بھرتا ہوں، صفائی کا عالم دیکھتا ہوں اور روح کثافت سے بھر جاتی ہے۔ راستے میں آنے والا ہر مرد، ہر عورت مسکرا کر گزرتی ہے، جبر کے عالم میں جواباً مسکراتا ہوں اور اندر غصے سے کھول کھول جاتا ہوں۔ خزاں کا موسم عروج پر ہے اور حالت یہ ہے کہ صرف بیس پچیس فیصد درخت برگ ہائے سبز سے محروم ہیں۔ زیادہ وہ ہیں جو سدا بہار ہیں اور موسموں کی‘ عناصرکی اور وقت کی سختیوں سے بے نیاز۔
عزاداری کرتا ہوں۔ روح سینہ کوبی کرتی ہے۔ رگوں میں خون نہیں، کرب دوڑتا پھرتا ہے۔ میری قسمت میں تو کوئی خانخاناں بھی نہیں کہ پوچھے، میاں! کیوں رو رہے ہو؟ دسترخوان بچھا تھا۔ شاعر‘ علما‘ دانش ور اور خانخاناں کے مصاحب امیرکے ساتھ شریک طعام تھے۔ خدام مہمانوںکی پشت پر کھڑے خدمت کرتے تھے۔ اچانک ایک خادم زورزور سے رونے لگ گیا۔ امیرنے گریہ کرنے کا سبب پوچھا، عرض گزار ہوا۔ عالم پناہ! کبھی میرے گھرمیں بھی اتنا ہی بڑا دسترخوان بچھتا تھا۔ میرے باپ کے مصاحب تمتمع اٹھاتے تھے اور خدام میرے آگے پیچھے پھرتے تھے۔ خانخاناں نے کہا، ابھی کھرا کھوٹا الگ ہو جائے گا۔ پوچھا، مرغ کا کونسا حصہ سب سے زیادہ مزے کا ہوتا ہے؟ جواب دیا ''پوست‘‘! خانخاناں متاثر ہوا، کہا اس نے جو رودادبیان کی، صدق پرمبنی ہے۔ اسے مصاحبوں میں شریک کرلیا۔ مگر وہ زمانہ لد گیا جب خانخاناں ہوتے تھے اور سرداری اور امارت کے ساتھ دانش رکھتے تھے اور صاحب دل بھی ہوتے تھے۔
حسد کرتا ہوں اور ماتم کرتا ہوں کہ اسلام آباد کی بھی ایسی ہی اٹھان تھی۔ کیا شہر تھا۔ عالم میں انتخاب، نظافت کا مرقع! نظم و ضبط کی مثال، ہرطرف ہریالی تھی۔ ایسے ہی درخت تھے اور پودے، سرما میں سرخ رنگ کے پتے نظروں میں بینائی بھرتے تھے۔ تابستان میں ہر طرف پھول ہوتے تھے۔ ارجنٹینا پارک، چھوٹا تھا، لیکن سیر کیلئے دیدہ ور دور دور سے آتے تھے۔ سڑکیں صاف تھیں۔ دھلی ، دھلی ، جیسے روز کارپٹ ہوتی ہوں۔ گھروں کے اردگرد باغیچے تھے۔ ترشے ترشائے۔ہر گھر پودوں اور بوٹوں اور درختوں اور پھولوںاور سبزے کے حصارمیں تھا۔ فٹ پاتھ چاندی کی طرح چمکتے تھے۔ کوئی مکین شکایت کرتا تھا تو ترقیاتی ادارے کے سینئر افسر بنفس نفیس حاضر ہو جاتے تھے۔ گرین ایریا، گرین ایریا تھا۔ کسی حاکم کی مجال نہ تھی کہ اس کے کنارے تک کو ہاتھ لگائے۔ رہائشی قطعے، جو نقشہ ساز متعین کر گئے تھے، وہی رہتے تھے اوراتنے ہی رہتے تھے۔ اقربا پروری تھی نہ دوست نوازی، شکم چھوٹے تھے، پنجوں کی مدد سے نہیں پر کیے جاتے تھے۔ حرام کھانے والے کم تھے۔ بہت ہی کم اور جو تھے، دوسروں کی نظروں سے چھپتے پھرتے تھے اور اپنی نظروں میں پست تھے! شہر تو سرحد پار چندی گڑھ بھی نیا تھا اور نقشے کی بنیاد پر بنا تھا مگر سیاح آ کر بتاتے تھے کہ اسلام آباد والی صفائی کا اور ترتیب و نظم کا وہاں کوئی گزرنہ تھا! مگر آہ! میری بدبختی اور میری آئندہ نسلوں کی حرماں نصیبی!! آہ! فلک کج رفتار سے میری آسودگی دیکھی نہ گئی۔ آہ! مقدر کا ستارہ برج سعد سے نکلا اور نحوست کے خلا میں گم ہوگیا! ستر کا عشرہ آغاز ہوا اور اس خوبصورت شہرِ بے مثال کا چاند گہن کی زد میں آ گیا۔ ٹیلنٹڈ کزن میدان میں اتر آئے۔ بندربانٹ شروع ہوگئی۔ پھرمرد مومن مرد حق کا زمانہ آیا اور روشنی کی ایک ایک کرن کا ظلمت کے قزاقوں نے تعاقب کیا۔ اگر قیام اردن کے دوران کوئی تین گز کے فاصلے سے بھی گزرا تھا تو پلاٹ کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ یہی زمانہ تھا جب ماسٹر پلان کی بے حرمتی شروع ہوئی۔ یہی وہ عہد سیاہ تھا جب گرین ایریا پر حرص و آز کے نوکیلے دانت پڑنے لگے۔ حالت یہ تھی کہ نو نو سال تک روغن قاز ملنے والے بیرون ملک تعینات رہتے تھے۔ بیچارے دارالحکومت کی کیا مجال تھی۔ یہ پردہ دار عفیفہ، ڈیرہ دارن بنادی گئی۔ نظم و ضبط کی دھجیاں اڑ گئیں۔
ڈھلان کا سفر اب تک جاری ہے۔ پھر جو بھی آیا اور جو بھی آئی، یہ شہر مشقِ ستم ہی رہا اور نذر شکم ہی ہوتا رہا۔ دکانداراور پراپرٹی کے بروکرایوانوں میں کیا پہنچے، شہر کے ایک ایک ٹکڑے کو لالچ کی سلاخوں میں پروکر، دیدہ دلیری کی آگ پر بریاں کیا گیا اور پھرچھری کانٹے سے ادائوں‘ غمزوں‘ عشووں اور نخروں کے ساتھ تناول کیا گیا۔ پیام مشرق میں اقبال نے ''سرودانجم‘‘ کے عنوان سے عبرت انگیز نظم لکھی ہے۔ ستارے خاموشی سے سب کچھ دیکھتے ہیں اورنوٹ کرتے جا رہے ہیں۔
گرمئی کارزار ہا
خامئی پختہ کار ہا
تاج و سریر و دار ہا
خواریٔ شہریار ہا
می نگریم و می رویم
ستاروں نے ایک وقت ایسا بھی دیکھا کہ ترقیاتی ادارے کا سربراہ کاغذ پر جو بھی تھا حقیقت میں کوئی اور تھا!
آج یہ شہر عبرت سرائے ہے۔
ظلمات کی آماجگاہ ہے۔ غلاظت اورگندگی کا ڈھیر ہے۔ مکین پریشان ہیں اور مکان غیر محفوظ، پانی ناپید ہے۔ نظافت عنقا ہے۔ جتنے ناکے ہیںاس سے زیادہ ڈاکے ہیں۔ چوروں اور لٹیروں میں ہر سیکٹر خود کفیل ہے۔ دنیا میں یہ واحد دارالحکومت ہے جس کے وسط میں جی بارہ سیکٹر جیسا جنگل آباد ہے جہاں قانون کا گزرنا ممکن ہے اور ترقیاتی ادارے کے سربراہ اور چیف کمشنر اور وزارت داخلہ تک کو علم نہیں کہ وہاں کون کون رہتا ہے اور کیا کیا کرتا ہے۔ کرئہ ارض پر یہ واحد صدرمقام ہے جس کی ایک بغل میں بارہ کہو ہے جہاں سے ان تین دنوں کے دوران جب صدر اشرف غنی آئے، تین لاکھ فون کالیں افغانستان ہوئیں اور دوسری بغل میں ترنول ہے جو وزیرستان کو مات کرتا ہے۔ برس ہا برس سے رہنے والے جائیدادیں بیچتے ہیں اور سامان اٹھائے، ایکسپریس وے کے دوسرے کنارے، ان بستیوں کا رخ کیے ہوئے ہیںجو نسبتاً محفوظ ہیں اور اس کرپٹ اور سفارشی نوکرشاہی کی زد سے باہر ہیں۔ جس نے دارالحکومت کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
تیمور نے اقلیمیں اور ولایتیں فتح کیں۔ مفتوحہ ممالک سے سامان اٹھایا، معمار اور نقاش اور شاعر اور دانشور اور سازندے اور فنکار لئے اور سمرقند میں جا بسائے اور اپنے شہر کو خوبصورتی کے آسمان پر لے گیا۔ لاہور خوش بخت ہے۔ خادم اعلیٰ کے روپ میں اسے بھی ایک تیمور مل گیا ہے۔ نئے علاقے تو فتح نہ ہوسکے ہاں دوسرے اضلاع کے دہانوں سے سب کچھ نکال کر لاہور پر لگا دیا گیا۔ مگر آہ! اسلام آباد!! اس کی قسمت میںکوئی تیمور ہے نہ کوئی خادم اعلیٰ۔ اعلیٰ تو کیا، کوئی ادنیٰ خادم بھی میسر نہیں! افتخار عارف کہاں ہے؟ شہر آشوب ہی لکھ ڈالتا۔ پہلا شعر میں کہے دیتاہوں ؎
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مرے سر پہ بوم ہے زاغ ہے مرے ہاتھ میں