دوسرا رخ

قطار لمبی تھی۔ گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھیں، پہلے ہم سمجھے کوئی ٹریفک جام ہے، مگر ایک ایک انچ کر کے کچھ آگے بڑھے تو معلوم ہوا ناکہ لگا ہے، پھر کچھ اور آگے بڑھے تو سڑک پر دھری رکاوٹیں دکھائی دینے لگیں، رکاوٹوں کے درمیان صرف اتنی جگہ تھی کہ ایک گاڑی گزر سکے۔ پولیس کے دو جوان اس تنگ گزرگاہ پر کھڑے تھے، گزرنے والی ایک ایک گاڑی کو غور سے دیکھ رہے تھے اور ہاتھ کے اشارے سے آگے بڑھ جانے کا اشارہ کرتے جا رہے تھے۔ ہماری گاڑی گزرنے لگی تو میرے دوست نے بریک پر پائوں رکھ دیا۔ کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور شدید غضب ناک ہو کر پولیس والے کو کہا: ''تم لوگوں کو اذیت پہنچا رہے ہو، آخر تم نے سڑک کیوں بند کر رکھی ہے‘‘۔ میں توقع کر رہا تھا کہ پولیس والا بھی اسی لہجے میں تڑخا ہوا جواب دے گا مگر وہ مسکرایا: ''جناب! یہی ہماری ڈیوٹی ہے‘‘۔ اتنے میں ٹریفک مزید رک گئی تھی، پیچھے والی گاڑیوں نے ہارن بجانے شروع کر دیے تھے۔ اس سے پہلے کے میرے دوست کے منہ سے مزید پھول جھڑتے، میں نے پولیس والے سے کہا: ''آپ درست کہتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی اپنے دوست کا زانو دبایا اور آگے بڑھ کر کھڑکی کا شیشہ بند کر دیا۔ میرے دوست نے گاڑی آگے بڑھائی مگر جو الفاظ اس کے منہ سے نکلے، تحریر نہیں کئے جا سکتے۔
یہ منظر آپ نے بھی کئی بار دیکھا ہو گا۔ خود آپ نے بھی غصے میں ہو سکتا ہے ایک آدھ بار ایسا ہی کیا ہو‘ مگر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ وہ پولیس والا وہاں کتنی دیر سے کھڑا ہے؟ کتنے لوگوں سے ڈانٹ سن چکا ہے اور کتنی گالیاں کھا چکا ہے‘ خواہ اس نے وہ گالیاں سنی نہ ہوں! ستم ظریفی یہ ہے کہ سڑک کے اس خاص مقام پر رکاوٹیں کھڑی کر کے ناکہ لگانے کا فیصلہ اس کا نہیں تھا، اسے تو جو حکم ملا اس کی تعمیل کر رہا تھا۔
چند روز پہلے راولپنڈی میں پولیس کے جوانوں نے ایک ناکے سے گزرنے والے موٹر سائیکل کو روکا۔ اس پر ڈبل سواری بیٹھی ہوئی تھی۔ موٹر سائیکل سوار نے رکنے کے بجائے ایڑ لگا دی۔ آپ کا کیا خیال ہے پولیس والے کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اگر وہ فائر نہ کھولتا، اگر بھاگنے والا خودکش بمبار ہوتا؟ اور درجنوں معصوم شریوں کو ہلاک کر دیتا؟ پولیس والے نے نہ رکنے پر گولی چلا دی۔ دونوں سوار موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس کے بعد مرحومین کے لواحقین نے احتجاج کیا اور حکومت سے ''قاتلوں‘‘ کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ نے نوٹس لیا اور گولی چلانے والا پولیس مین غالباً گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اس سارے ہنگامے میں میڈیا نے نہ ہی حکومت نے پولیس کا دفاع کیا۔ کیا روکنے پر نہ رکنے والوں کی غلطی نہیں تھی؟ کیا پولیس والے نے اپنا فرض نہیں ادا کیا؟ جن حالات سے ملک گزر رہا ہے، جس رفتار سے دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کے پیش نظر، ناکے پر رکنے کے بجائے بھاگ اٹھنے والے پر پولیس والا فائر نہ کھولتا تو کیا کرتا؟
پھر گزشتہ ہفتے ایک بڑے شہر میں ایک اور واقعہ پیش آتا ہے۔ پہلے سے بھی زیادہ عجیب و غریب! سترہ سترہ، اٹھارہ اٹھارہ برس کے لڑکے ریوالور ہاتھوں میں لیے ایک پارک میں مبینہ طور پر فوٹو گرافی کر رہے تھے۔ ریوالور کے ساتھ فوٹو گرافی کرتے وقت فائر بھی کئے جا رہے ہوں گے۔ کسی نے یہ منظر دیکھا، کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا اور پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس ''جائے واردات‘‘ پر پہنچی اور ریوالور بردار ''ڈاکوئوں‘‘ پر فائرنگ کی۔ لڑکا ہلاک ہو گیا۔
کیا موجودہ صورتحال میں کوئی صحیح الدماغ شخص ریوالور کے ساتھ کھلم کھلا ایک پارک میں خوش فعلیاں کر سکتا ہے؟ کیا خودکش بمباروں کی اور دہشت گردوں کی اکثریت سترہ اٹھارہ برس کی نہیں ہوتی؟ ہو سکتا ہے اصل واقعہ اس سے مختلف ہو جو رپورٹ ہوا مگر بادی النظر میں جو کچھ ہوا، اس میں پولیس والے کا کیا قصور ہے؟ اگر وہ فائر نہ کرتا اور نوجوان لڑکا ڈاکو ہوتا تو اس صورت میں بھی پولیس والا قصوروار ہی ٹھہرایا جاتا۔
پولیس کا سپاہی جس عذاب سے گزر رہا ہے اس کا احساس حکومت کو تو کیا ہو گا، افسوس کہ پڑھے لکھے شہریوں کو بھی نہیں! پچھلے کچھ عرصہ کی خبروں پر محض ایک سرسری نظر ہی ڈال کر دیکھیے۔
11 جون 2015ء: کوئٹہ میں موٹر سائیکل سواروں نے چار پولیس والوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔
17 فروری 2015ء: لاہور میں بم دھماکہ ہوا۔ پولیس کا اسسٹنٹ سب انسپکٹر ہلاک ہو گیا۔ لیڈی کانسٹیبل شدید زخمی ہوئی۔
11 جون 2015ء: خودکش بمبار نے اپنا موٹر سائیکل فرنٹیئر ریزرو پولیس کے ڈپٹی کمانڈنٹ کی گاڑی سے ٹکرا دیا۔ پولیس کے دو جوان کام آئے۔
جولائی 2011ء میں طالبان نے ویڈیو جاری کی‘ جس میں پولیس کے پندرہ جوانوں کو فائرنگ سکواڈ کے آگے کھڑا کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
جنوری 2014ء میں مستونگ (بلوچستان) کے مقام پر ہسپانوی سائیکل سوار کی حفاظت کرتے ہوئے چھ پولیس مین گھات میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور جانبر نہ ہو سکے۔
یہ خبریں محض ایک طائرانہ نظر کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں۔ پولیس کے جوان اس جنگ میں فرنٹ لائن پر ہیں۔ پولیس کے افسروں نے بھی قربانیاں دی ہیں مگر جوانوں کی تعداد اس ضمن میں بہت زیادہ ہے۔
اب ایک دوسرا پہلو ملاحظہ کیجئے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں ''بڑے لوگوں‘‘ کی سکیورٹی پر ساڑھے تین ہزار پولیس اہلکار متعین ہیں۔ اگر اوسط تنخواہ بیس ہزار روپے بھی ہو تو ماہانہ خرچ اسی مد میں سات کروڑ سے زائد اٹھ رہا ہے۔ 160 پولیس موبائل اس کے علاوہ اس ''ڈیوٹی‘‘ پر ہیں۔ 41 لاکھ روپے ماہانہ ان گاڑیوں کے تیل پانی کا خرچ ہے۔ آغا سراج درانی کی حفاظت پر تیرہ اہلکار، ایک پولیس موبائل، شہلا رضا صاحبہ کے لیے سترہ اہلکار، ایک موبائل، شرجیل میمن کے لیے اٹھائیس گارڈ، تین پولیس موبائلیں، شرمیلا فاروقی صاحبہ کے لیے سولہ اہلکار، ایک موبائل، جاوید ناگوری کی حفاظت پر چودہ پولیس اہلکار اور دو پولیس موبائل۔ یہ صرف ایک صوبے کا ذکر ہے۔ وہ بھی سرسری! پنجاب کے دارالحکومت اور اس کے نواح کے اہم قصبے میں، محلات پر مامور پولیس اہلکاروں کی تعداد تین ہزار سے کم کیا ہو گی! خود پولیس کے اعلیٰ افسروں کی حفاظت پر متعین پولیس اہلکاروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پولیس کا افسر اگر کسی دوسرے محکمے میں چلا جائے تو اس کا اپنا محکمہ اس ''خدمت‘‘ کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دیتا۔
چھوٹے رینک کے ان اہلکاروں کی تنخواہیں کسی لحاظ سے، کسی اعتبار سے بھی مبنی پر انصاف نہیں ہیں۔ وی آئی پی نقل و حرکت کے موقع پر جو اس ملک میں سماجی برائی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، درجنوں اور بعض اوقات سینکڑوں پولیس اہلکار بے بسی اور بے کسی کے عالم میں گھنٹوں نہیں پہروں، شاہراہوں کے کناروں پر دھوپ، طوفان، بارش، گرمی اور بلا کی سردی میں کھڑے رہتے ہیں۔ کسی کو ان کے کھانے کی فکر ہے نہ پینے کی۔ ایسے میں اگر وہ کسی ریڑھی والے سے ایک کیلا بھی لے لیں تو برا بھلا انہیں ہی کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلح افواج میں جوان کا ہر ممکن طریقے سے خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جرنیل فور سٹار بھی ہو جائے تو اپنی اولین یونٹ کے زیریں ترین سپاہی کے لیے بھی اس کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ اس کا مسئلہ حل کرنے کے لیے وہ بنفس نفیس ٹیلی فون کرتا ہے، پھر اسے کھانا کھلاتا ہے اور زاد راہ دے کر رخصت کرتا ہے۔ ایسے خوش اطوار افسر پولیس میں بھی ضرور ہوں گے مگر کم۔ یہ حسن سلوک باقاعدہ روایت کے طور پر پولیس سروس میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔
ایک کالم اس مسئلے کے پہلوئوں اور سمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا؛ تاہم عام پاکستانی کو بھی احساس ہے کہ سیاسی مداخلت پولیس کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔ جاگیردار ہے یا زمیندار، صنعتکار ہے یا کرسی نشین، عوامی نمائندہ ہے یا وزیر، یا کسی سیاسی شخصیت کا حصہ بھرنے والا کارندہ، سب پولیس کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھتے ہیں۔
ہماری پولیس خامیوں سے ہرگز پاک نہیں، اکثر و بیشتر طعن و تشنیع کا ہدف بنتی ہے۔ یہ ملامت اتنی ناروا بھی نہیں مگر کبھی کبھی تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لینا چاہیے! جس دن پولیس کا جوان جاگ اٹھا تو بڑے لوگوں کے جرائم اپنے سر لینے سے انکار بھی کر دے گا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں