بستی کے قریب پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔ سب سے اونچی پہاڑی پر ہر روز وہ آ کر بیٹھ جاتا۔ کچی‘ دھول اڑاتی شاہراہ کو‘ جہاں تک نظر آتی ‘ دیکھتا رہتا ۔ کئی مہینوں سے یہی معمول تھا۔ پھر جب سر کے اوپر سے پرندوں کے غول گزرنا شروع ہوتے‘ چرواہے واپس آ رہے ہوتے‘صحنوں میں تنور تپنے لگے تو وہ ایک آہ بھر کر نیچے اترتا اور خستگی اور واماندگی کے ساتھ قدم گھسیٹتا گھر کا رخ کرتا۔ تجارتی قافلے کے ساتھ اس کے بیٹے دور گئے ہوئے تھے‘ کوئی قافلہ آ کر اترے تو کیا عجب کوئی خط ‘ کوئی سندیسہ مل جائے!
یہ تھاہجر کا وہ احوال جو اُس زمانے میں عام تھا جب دُور کے دیاروں میں کارواں لے جاتے تھے اور واپس لاتے تھے۔ اونٹوں کی قطاریں‘ گھوڑ سوار‘ پیدل چلتے مسافر۔ کوئی شخص پوچھتا۔''کیا فلاں بستی سے گزر ہو گا؟‘‘ جواب اثبات میں ہوتا تو وہ خط دیتا۔ قسمت اچھی ہوتی۔ قافلہ رہزنوں سے بچ جاتا! کسی شکست خوردہ یا فاتح لشکر کی مارپیٹ کی نذر نہ ہو جاتا تو ہجر میں سلگتے بوڑھے باپ کو‘ یا انتظار کرتی بیوی کو پیغام یا مکتوب مل جاتا!
پھر بحری جہازوں کا زمانہ آیا۔ قرب اور بچھوڑے ناخدا کے ہاتھ میں آ گئے ؎
بنی ہوئی ہیں کنارِ دریا پہ خواب گاہیں
کھلے ہوئے ہیں وصال کے در سفر کی جانب
گلف کی ایک ریاست میں مقیم ایک معمر دوست نے بتایا‘ ساٹھ ستر سال پہلے وہ جب بھی کام سے فارغ ہوتے ساحل پر جا بیٹھتے‘ کوئی جہاز لنگر انداز ہوتا اور کوئی ہم وطن اترتا تو پس ماندگان کا احوال پوچھتے۔ بخت یاوری کرتا تو خط مل جاتا۔
ہجر وجود میں تو اسی دن آ گیا تھا جس دن جدائی کا پہلا زخم پیدا ہوا تھا۔ ہجرت قدیم تو اتنی ہی ہے جتنا خود انسان! مگر ہجر اور ہجرت انسانی زندگی کے حوالے سے ایک مستقل باب‘ ایک Phenomenonتب بنے جب داستانوی اڑن کھٹولے نہیں‘ اصلی جہاز‘ فولادی پرندوں کی صورت ‘ فضائوں میں تیرنے لگتے۔ ان فولادی پرندوں نے گوشت پوست کے طائروں کی طرح پر کبھی نہیں پھڑپھڑائے۔ ان کے پر ایک ہی افقی‘ حالت میں رہتے ہیں لیکن ان بے حس‘ کٹھور‘ جذبات سے عاری فولادی پرندوں نے جدائیوں کی وہ قیامتیں برپا کیں کہ کیا معاشرتی ڈھانچے‘ کیا اقتصادی سلسلے اور کیا جذباتی حوالے‘ سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ جگر گوشوں نے پوٹلیاں اٹھائیں‘ بقچیاں سروں پر دھریں‘ اٹیچی کیس سنبھالے‘ ٹرالی بیگوں کے پہیے ہوائی اڈوں کے پکے فرشوں پر رواں کیے اور دُور دیسوں میں جا بسے۔ کچھ معاش کی تلاش میں ‘ کچھ ظالم حکمرانوں سے بچنے کے لیے اور کچھ نئی بستیاں بسانے‘ دنیا بھر میں پھیل گئے۔
ہم‘ وطن میں رہنے والے تارکین وطن سے اکثر و بیشتر بدگمان ہی رہتے ہیں۔ یہ ''دلیل‘‘ عام سننے میں آتی ہے کہ ''اتنی ہی محبت ہے وطن سے تو واپس کیوں نہیں آ جاتے‘‘یعنی اگر کوئی وطن سے دور رہے تو وطن سے اور اہل وطن سے محبت نہ کرے۔ اور اگر کرے تو محبت کرنے کے بجائے واپس آ جائے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے جس کی تہہ میں معاف کیجیے گا‘ تھوڑا تھوڑا حسد اور کچھ کچھ جلن پوشیدہ ہے۔ اس طرح کہنے والوں کو جب بھی موقع ملتا ہے ‘ باہر جا بسنے سے گریز نہیں کرتے۔
ایک ہفتہ پہلے سڈنی کے ایک پررونق بازار کے گوشے میں اُن احباب سے ملاقات کی تقریب تھی جو وہاں آباد ہیں مگر جن کے صرف جسم ہی وہاں آباد ہیں۔ خیال ان کے وطن میں بھٹکتے ہیں۔ دل ان کے پاکستان میں دھڑکتے ہیں۔ آنکھیں ان کی ہوتی دیار غیر میں ہیں مگر دیکھتی چھوڑے ہوئے مناظر ہیں۔ یہ ''چیمے کا ڈھابا‘‘ تھا جہاں‘ ریستوران کے مالک‘ ایک خوش گفتار چیمہ صاحب ایسے ایسے پکوان مہمانوں کے لیے منگوا رہے تھے کہ کراچی کی برنس روڈ اور لاہور کی فوڈ سٹریٹ یاد آ رہی تھیں۔ ان تارکین وطن کو شکوہ تھا کہ کوئی لمحہ ان کا وطن کی فکر کے بغیر نہیں گزرتا مگر اہل وطن کی کرم فرمائی یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کا حق بھی نہیں دینا چاہتے۔
یہ شکوہ بے جا بھی نہیں! تین تین چار چار عشروں سے بیرون ملک رہنے کے باوجود یہ لوگ وطن کے اخبارات پابندی سے پڑھتے ہیں۔ ملک کے ٹیلی ویژن چینل دیکھتے ہیں۔ سیاست‘ اکثر و بیشتر ‘ وطن کی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے کرتے ہیں۔ جب بھی موقع ملے ‘ وطن میں بیروزگار‘ بیٹھے ہوئے اعزہ و اقارب اور دوست احباب کو ہجرت کرنے میں‘ اور پھر‘ تلاشِ روزگار میں مدد دیتے ہیں۔ وطن سے آنے والے سیاست دانوں کی دیکھ بھال بے پناہ مصروفیات کے باوجود کرتے ہیں۔ کروڑوں اربوں کا زرِمبادلہ وطن بھیجتے ہیں ۔ انتخابات کے دوران ایک ایک مرحلے کی‘ ایک ایک لمحے کی خبر رکھتے ہیں۔ وطن کی خوشحالی کے لیے فکر کرتے ہیں۔ کتنے ہی پیچھے بستیوں‘ قریوں‘ قصبوں‘ شہروں میں فلاحی منصوبے چلا رہے ہیں۔ کتنے ہی آلات خرید خرید کر وطن کے ہسپتالوں میں پہنچا رہے ہیں‘ کتنے ہی خاموشی سے نادار لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات ادا کر رہے ہیں۔ کون سی ناانصافی ہو جائے گی اگر خاکِ وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے ان تارکین وطن کو ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے؟ سیاست دان یہ حق دینے سے اس لیے خائف ہیں کہ تارکین وطن کی بھاری اکثریت پختہ سیاسی شعور رکھتی ہے۔ یہ لوگ برادری‘ فرقہ واریت اور اقربا پروری سے ماورا ہو کر ووٹ ڈالیں گے۔ ایسے امیدواروں کو ترجیح دیں گے جو صاف ستھرے کردار کے مالک ہوں گے اور جن سے امید ہو گی کہ کرپشن سے بچیں گے اور دلسوزی سے خوشحالی کے لیے کام کریں گے۔ سیاست دانوں کی اکثریت تو ان ووٹروں کو پسند کرتی ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ بھیڑ چال چلتے ہیں اور فکر کی بلندی سے عاری ہیں!
سڈنی یورپ اور امریکہ کے شہروں کی طرح نہیں ہے۔ یہاں نیو یارک‘ ٹورنٹو‘ لندن‘ مانچسٹر‘ برمنگھم اور گلاسکو کی طرح پاکستانیوں کی تعداد کثیر نہیں ہے۔ مگر اڑھائی سو سال سے بھی کم عمر کے اس شہر میں ملک کے دوسرے شہروں کی نسبت پاکستانیوں کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے۔ یہ پاکستانی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بحرالکاہل کے کنارے آباد اس دلفریب شہر میں یہ پاکستانی اپنے ادب‘ اپنی ثقافت اور اپنے کلچر کا چراغ جلائے ہوئے ہیں۔ اشرف شاد کئی عشروں سے ایک ایک اینٹ جوڑ کر اردو ادب کا مینار بلند کئے جا رہے ہیں۔ نثر اور شعر میں کئی کتابوں کے مصنف اشرف شاد کو اگر بابائے سڈنی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ناراض اور گروہوں میں بٹے پاکستانیوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ مشاعرے کراتے ہیں اور نئی کتابوں کی تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ سڈنی میں سید ضمیر جعفری مرحوم کے بھتیجے ڈاکٹر شبیر حیدر ہیں۔ کیا اچھی نثر لکھتے ہیں اور کیا خوبصورت شاعری کرتے ہیں۔ عارف صادق ہیں۔ چینی زبان میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کوثر جمال ہیں۔ موسیقی کی محفلیں برپا کرنے والے ظفر خان ہیں۔ رانا جاوید ہیں‘ سعید خان اور ان کی بیگم نوشی گیلانی ہیں۔''صدائے وطن‘‘ نکالنے والے ظفر حسین ہیں اور دلکش شاعری کرنے والے ارشد سعید ہیں۔
''چیمے کا ڈھابا ‘‘ میں جس شام تارکین وطن‘ اہل وطن سے محبت بھرا شکوہ کر رہے تھے‘ اس سے ایک دن پہلے ارشد سعید کے شعری مجموعے''حدودِ شام سے آگے‘‘ کی تقریب رونمائی تھی۔ کینبرا اور میلبورن تک سے دلدادگانِ اردو حاضر تھے۔ تقریب ہوئی اور ایسی جم کر ہوئی کہ اسلام آباد اور کراچی میں کیا ہوتی! ڈھیر سارے تجزیاتی اور تنقیدی مضامین ۔ مگر مجال ہے کہ سننے والوں پر تھکن یا بوریت کا ہلکا سا شائبہ بھی پڑا ہو۔ آخر وقت تک وسیع و عریض ہال بھرا رہا۔یہ ہے تارکین وطن کا کمال کہ کرۂ ارض کے جس گوشے میں بھی ہیں‘ اردو کا اور پاکستانیت کا پرچم چوم کر‘ سینے سے لگا کر فضا میں لہرا رہے ہیں اور لہرائے جا رہے ہیں۔ ارشد سعید کے چند اشعار ؎
حکم ملتے ہیں سمندر پار سے
کاغذی ہے حکمرانی اس طرف
کیا منائوں میں جشنِ آزادی
اک پرندے کو جال میں دیکھا
در و دیوار مری خامشی سن سکتے ہیں
کون کہتا ہے میں گفتار نہیں کر سکتا
زندگی تو نے ہمیں کیسی مشقت دی ہے
اک تھکن ساتھ لیے شام کو گھر جاتے ہیں