نہ مانیں! آج بے شک نہ مانیں!

کیا کسی کو وسیم سجاد کا نام یاد ہے؟
وسیم سجاد صاحب گنتی کے اُن چند افراد میں سے ہیں جو ملکِ پاکستان کے بہت بڑے BENEFICIARY رہے! طویل ترین اقتدار کے مزے لوٹے۔ وہ بھی ہمیشہ نامزدگی کی بنیاد پر۔ کبھی عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں نہ آئے۔ سنتے جائیے اور دُھنتے جائیے۔ دو بار قائم مقام صدر مملکت مقرر ہوئے۔ 1988ء سے 1999ء تک بارہ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک اسی منصب پر فائز رہے۔ دو سال وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پارلیمانی امور رہے۔ وزارت داخلہ اور نارکوٹکس کنٹرول کے انچارج رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو وسیم سجاد نے مسلم لیگ نون کی ہچکولے کھاتی کشتی سے چھلانگ لگانے میں تاخیر نہ کی اور جنرل کے ساتھ ہو لیے۔ 2003ء سے لے کر 2008ء تک پانچ سال سینیٹ میں قائد ایوان رہے، یعنی حکومتی نمائندوں کے سرخیل! یہ بھی ایک طاقت اور منصب تھا جو اِن دنوں راجہ ظفر الحق صاحب کی جیب میں ہے۔
پھر کیا ہوا۔ وسیم سجاد صاحب اِن بلند ترین‘ اِن عالی ترین‘ اِن فلک بوس مناصب سے‘ جن کی طرف دیکھنے والے کو دستار ہاتھوں سے سنبھالنا پڑتی تھی کہ گر نہ پڑے‘ فارغ ہو کر گھر واپس آ گئے۔ گھر کیا تھا۔ فارم ہائوس تھا‘ اسلام آباد کے نواح میں طاقتور ترین اور امیر ترین عمائدین یہیں ان کے اردگرد رہتے تھے۔ 
پھر کیا ہوا؟ ایک صبح جب پَو ابھی نہیں پھوٹی تھی اور پرندے آشیانوں سے نکلنے کی تیاریوں میں تھے‘ چار ڈاکو ان کے فارم ہائوس یعنی محل میں گھُس آئے۔ اہل خانہ کو رسیوں سے باندھا۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ کا کیش‘ ڈیڑھ سو تولے سونا اور دیگر مال و اسباب لے کر چلتے بنے۔
وسیم سجاد صاحب بارہ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔ انصاف اور قانون کے وزیر رہے‘ داخلہ کے وزیر رہے۔ اگر وہ چاہتے تو ملک میں پولیس کے نظام کو ازسر نو ترتیب دلوا سکتے تھے۔ ایوان بالا کے صدر نشین کی حیثیت سے وہ وفاقی حکومت کو ناکوں چنے چبوا کر پولیس کی سیاسی مداخلت سے پاک کر سکتے تھے۔ نظام کو میرٹ پر استوار کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ عوام‘ جن کے گھروں میں ڈاکے پڑتے ہیں‘ کس عذاب سے گزرتے ہیں اور کن قیامتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب نے ایک دن بھی اِس ''بیکار‘‘ مسئلے پر ضائع نہ کیا اور پولیس کو باور نہ کرایا کہ پولیس کا کام ڈاکے کے بعد اجلاس کرنا نہیں‘ ڈاکے کو روکنا ہے۔ آپ دنیا کے کامیاب ترین حکمرانوں کا حال پڑھ ڈالیے۔ خلجی تھا یا شیر شاہ سوری‘ یا گورنر جنرل ولیم بٹنک! سب نے ڈاکوئوں کا قلع قمع پہلے کیا۔ دوسرے کام بعد میں کیے۔
یہ دنیا عبرت سرائے ہے! جو بوتا ہے‘ کاٹتا ہے۔ جو کرتا ہے بھرتا ہے۔ جو کنواں کھودتا ہے‘ اس میں گرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کو قتل کر کے ضیاء الحق کو نوازا۔ اسی ضیاء الحق نے پھانسی دی۔ ضیاء الحق نے اس ملک کے غریب عوام پر ہزاروں بندوق بردار ''جہادی‘‘ مسلط کیے۔ بارڈر ختم کر دیا۔ اپنے عوام کے منُہ سے مزدوری‘ ٹرانسپورٹ‘ جائیدادیں چھین کر اُن غیر ملکیوں کو دیں جو اس ملک کے کبھی وفادار نہیں ہو سکتے۔ فضا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ میاں نوازشریف صاحب نے ایک بار پھر وہی گناہ کیا۔ میرٹ کا خون کیا۔ جس کو ناجائز نوازا اُسی نے جیل بھیجا۔ دھکے دیے۔ پھر وطن کی مٹی کے لیے ترساتا رہا۔ پھر جنرل مشرف ڈالروں کے بدلے انسانوں کو بیچتا رہا۔ اب جلاوطن ہے اور ارب پتی سہی، خاک وطن کا متبادل ڈالر ہیں نہ پائونڈ!
تیس سال سے برسراقتدار شہبازشریف صاحب سارے دعوئوں کے باوجود تھانہ کلچر میں ایک رمق بھر تبدیلی نہ لا سکے۔ بہت انگلی لہرائی۔ اس قدر کہ ٹریڈ مارک بن گئی۔ بہت بڑھکیں ماریں۔ انقلاب کے نعرے لگائے۔ شیخ چلی کے سے مضحکہ خیز دعوے کیے‘ یہ کروں گا‘ وہ کروں گا۔ چین سے نہ بیٹھوں گا۔ مائک تک توڑ ڈالے‘ مگر حالت یہ ہے کہ پولیس کو ایک ذرہ بھر‘ ایک قیراط بھر‘ ایک قطیر کے برابر‘ ایک رتی بھر‘ ایک مثقال بھر تبدیل نہ کر سکے۔ تھانہ کلچر جو تھا وہی ہے۔ چاول جتنا‘ رائی برابر‘ خشخاش کے ایک حقیر دانے جتنا‘ ایک ریزہ‘ ایک بھورہ تک نہ بدلا گیا۔ معروف ادیب علی اکبر ناطق کی بہن کو سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ہے۔ مظلوم خاندان کے ساتھ تھانے والوں نے وہی سلوک کیا جو تیس سالہ شریف اقتدار سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ ورثا کو میڈیکل رپورٹ نہ دی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کے لیے منتیں کرتے رہے۔ صبح و شام‘ رات دن‘ تھانے کے چکر لگوائے گئے۔ تھانیدار روزانہ بلاتا اور کہتا ڈی پی او نے مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کبھی کہا لیبارٹری سے رپورٹ نہیں آ رہی۔ کس سنگدلی‘ سفاکی اور بے شرمی سے کہا کہ قتل تو ہوتے رہتے ہیں۔ پھر مظلوموں نے ڈی پی او آفس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ ایف آئی آر درج کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ پھر ناطق اپنے روابط بروئے کار لایا۔ ایک ادیب کے روابط لکھنے والوں ہی سے ہوتے ہیں۔ اسی دن ''انڈیا ٹوڈے‘‘ والے اس کا انٹرویو لے رہے تھے۔ اُس نے قتل کا ذکر کیا مگر غیر ملکی اخبار کو ہرگز یہ نہ بتایا کہ پولیس اُس کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ پھر صوبے کے وزیراعلیٰ تک رسائی حاصل کی گئی۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ''نوٹس لے لیا‘‘۔ اپنے سٹاف کو واقعہ کی ''فوری تحقیقات‘‘ کی ہدایت جاری کر دی۔ وہی پولیس جو کہہ رہی تھی کہ قتل ہوتے رہتے ہیں‘ گھُٹنوں کو ہاتھ لگا کر رِِیں رِیں کرنے لگی کہ حضور! پہلے بتایا ہوتا آپ کی پہنچ کہاں تک ہے!
یہ ہے تھانہ کلچر کی تبدیلی! اس سے اندازہ لگائیے کہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ادیب کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو عام شہری کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا!
میاں شہبازشریف اس معاملے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ سراسر ناکام! دعوئوں‘ بڑھکوں‘ انگلی لہرانے کے باوجود! ہر معاملے میں ان کا ذاتی نوٹس لینا ضروری ہے۔ کیا یہ سسٹم ہے؟ کیا یہ نظام ہے؟ کیا یہ تبدیلی ہے؟
مگر وہ مانیں گے نہیں کہ ناکام ہو گئے ہیں۔ میراثی جوا کھیل رہا تھا۔ سب کچھ ہارتا گیا۔ کیش‘ غلّہ‘ پھر کچّا کوٹھا بھی جس میں رہ رہا تھا! آخر میں بیوی کو دائو پر لگا دیا۔ بیوی نے کہا‘ بدبخت ہار گئے تو وہ مجھے لے جائیں گے۔ میراثی ہنسا، بھاگوان عورت! کیسے لے جائیں گے؟ میں مانوں گا کہ ہار گیا ہوں‘ تبھی لے جائیں گے نا! مانوں گا ہی نہیں!
آج میاں صاحب اقتدار کی آخری سیڑھی پر ہیں! وہ گھر سے باہر نکلیں تو ٹریفک رُک جاتی ہے۔ ہیلی کاپٹر‘ جہاز ان کے لیے ایسے ہیں جیسے عام انسان کے لیے سائیکل اور بس! ان کے مُنہ سے نکلا ہوا لفظ قانون ہے۔ ان کے صاحبزادے ان سے بھی بڑے حاکم ہیں۔ ان حضرات کے جہاں جہاں محل ہیں‘ وہاں پولیس شہد کی سینکڑوں مکھیوں کی طرح بھنبھناتی پھر رہی ہے۔ مگر آہ! انہیں ایک نہ ایک دن اسی پولیس سے واسطہ پڑے گا۔ وسیم سجاد کے ساتھ کیا ہوا؟ بی بی کے نیویارک کے پینٹ ہائوس اور دبئی کے جگمگاتے آنکھوں کو خیرہ کرتے محل۔ اور کفن ایک روایت کے مطابق ایدھی کا نصیب ہوا! اس لیے کہ اللہ کی سنت نہیں بدل سکتی! نہ بی بی کے لیے‘ نہ بھٹو صاحب کے لیے‘ نہ مضبوط کرسی کا حوالہ دینے والے جنرل ضیاء الحق کے لیے‘ نہ کراچی کی طاقت پر غرور کرنے والے اور اکبر بگٹی کو اڑا دینے کی دھمکی دینے والے پرویز مشرف کے لیے۔۔۔۔ اور نہ کسی اور شاہی اقتدار والے خاندان کے لیے! 
ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں‘ پانی سے آگ نکل سکتی ہے‘ مرد کو حمل ٹھہر سکتا ہے‘ کبوتری انڈے دینے کے بجائے بچے جن سکتی ہے‘ مائونٹ ایورسٹ گائوں کے چھوٹے سے جوہڑ میں ڈوب سکتی ہے مگر یہ نہیں ممکن کہ کیا دھرا سامنے نہ آئے۔ یہ نہیں ممکن کہ جس گندے پانی میں عوام کو غوطے دیے جا رہے ہیں‘ اس میں خود نہ گریں‘ یہ نہیں ممکن کہ جس تھانہ کلچر کو تیس سال میں نہیں بدلا‘ اس کو بھگتنا نہ پڑے! شاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے! سال 1974ء تھا۔ شہر کراچی تھا۔ سی ایس ایس کر کے آئے ہوئے نوجوان‘ نئے نویلے افسر‘ ٹریننگ کے سلسلے میں ایک بہت ہی سینئر افسر کے سامنے حاضر ہوئے۔ بہت بڑا افسر۔ بہت بڑے منصب پر‘ جہاں پہنچنے میں اسے بیس سال لگ گئے تھے۔ نوجوان افسروں کو تعارف کرانے کا حکم ہوا۔ ان میں سے ایک کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا مگر کرسی کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔ سر میرا نام نواب رشید احمد خان ہے! افسر تضحیک کرنے کے موڈ میں تھا: ''یہ نواب کیا ہوتا ہے؟ اور سیدھے کھڑے ہوا کرو‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دو سال بعد نواب رشید احمد خان نے وفاقی ملازمت کو خیرباد کہا اور صوبائی سول سروس میں مجسٹریٹ تعینات ہو گیا۔ اسی شہر کراچی میں مسجد خضریٰ کے آس پاس اس کی عدالت تھی۔ ایک مقدمے میں وہی سینئر‘ بھد اڑانے والا افسر گواہ کے طور پر پیش ہوا۔ آپ کا نام کیا ہے؟ مجسٹریٹ نے پوچھا۔ عبدالحمید خان! ''یہ خان کیا ہوتا ہے اور سیدھے کھڑے ہوا کریں‘‘!
تخت پر فائز حکمران اپنی ناکامی کہاں تسلیم کریں گے! مگر ہائے افسوس! ''یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں