دارالحکومت میں زَمسِتاں کا ورود ہوتا ہے تو زخم ہرے ہو جاتے ہیں!
کیا شہر تھا۔ باغوں اور پارکوں سے چھلکتا۔ تب جنرل ضیاء الحق کی داد و دہش شروع نہیں ہوئی تھی اور ہر اُس شخص کو پلاٹ نہیں دیے جا رہے تھے جو کچھ عرصہ اردن میں رہا ہو۔ گرین ایریا محفوظ تھا۔ دکانیں کھوکھوں میں نہیں بدلی تھیں۔ مارکیٹوں کا پارکنگ ایریا ہڑپ نہیں ہوا تھا۔ زَمسِتاں میں پتے جھڑتے‘ مگر سُرخ پتوں والے درخت خزاں میں بھی بہار دکھاتے رہتے۔ ہری خنک دھوپ میں سُرخ پتوں سے لدے درخت عجیب مسحور کن منظر پیش کرتے۔ خیاباں خیاباں خوبصورتی‘ رہنے والوں کو جُھک کر سلام کرتی۔ پھر ادبار ملک پر چھایا تو دارالحکومت کیسے بچتا۔ پراپرٹی ڈیلروں‘ ٹھیکیداروں اور نفع خوروں نے اس دیدہ زیب شہر کو محلّوں میں تبدیل کر دیا۔ ایک ایک انچ پر کھوکھے‘ دکانیں‘ ہوٹل‘ پلازے بنے۔ اہلِ مذہب بھی پیچھے نہ رہے۔ گندے نالوں پر راتوں رات مسجدیں بنا لی گئیں۔ صحن میں نماز پڑھتے وقت بدبو کے بھبکے ناک سے ٹکرانے لگے مگر وہ جو انگریز محاورہ دے گئے کہ ! Who Cares! تو پروا کون کرے!
شعرا نے سرما کا کیسے کیسے استقبال کیا۔ غالبؔ کے زمانے میں عیدِ قرباں‘ سرما کے جلو میں آئی تو اس نے کہا ؎
عیدِ اضحی سرِ آغازِ زمستان آمد
وقتِ آراستنِ حجرہ و ایوان آمد
کہ عید قرباں‘ جاڑوں کے شروع میں پڑ رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ کیا فقیروں کے حجرے اور کیا امیروں کے محلّات‘ سب کو سجا دیا جائے۔
ناصر کاظمی کو اور ہی غم کھائے جا رہا تھا ؎
پھر جاڑے کی رُت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات
شاعروں کے لیے جاڑے کی لمبی راتیں عذاب ہو جاتی ہیں۔ نیند نہ روشنی! جب کُھلے آسمان تلے سوتے تھے‘ تب فائدہ تھا کہ ستارے گن لیتے تھے۔
غالب ہی نے کہا تھا ؎
یہ شغلِ انتظارِ مہ وشان درخلوتِ شب ہا
سرِ تارِ نظر شد رشتۂ تسبیح کوکب ہا
کہ راتوں کی تنہائی میں‘ زہرہ وشوں کا انتظار کیا اور اتنا کیا کہ نظر کا تار وہ دھاگہ (تاگا) بن گیا جس سے ستارے تسبیح میں پرو دیئے گئے تھے۔
سرما کی ان طویل راتوں کو کوئی کس مصرف میں لاتا ہے اور کوئی کس میں! جسم کے لہو کو چراغوں کی طرح جلانے والے طالب علم‘ سوچتے دانشور‘ لکھتے ادیب اور عبادت کرنے والے زاہد اور عابد کہ رات بھیگتی ہے تو قبولیت کے دروازے آسمانوں پر وا ہونے لگتے ہیں ؎
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں
ایک بازار یہاں آخرِ شب لگتا ہے
رہے غفلت کی نیند سونے والے تو لمبی راتیں ان کے لیے بھی نعمت سے کم نہیں کچھ لوگ سو جائیں تو ثواب حاصل کرتے ہیں اس لیے کہ اس دوران دنیا ان کے شر سے محفوظ رہتی ہے۔ فتنہ خفتہ بہ! فتنہ خوابیدہ ہی اچھا لگتا ہے!
مگر سرما کا اصل لطف اُس ہلکی نرم مخملیں دھوپ میں ہوتا ہے جو کسی باغ‘ کسی کنجِ چمن یا کسی پارک میں اپنے اوپر گزاری جائے ؎
اتاری ہم نے سرما کی سنہری دھوپ دل میں
مگر اس سیرگہ میں کوئی آیا ہی نہیں ہے
کتنی اداسی اور کتنی امید ہوتی ہے اس سبز دھوپ میں! کہاں وہ کڑکتی دھوپ جو یہی سورج جون جولائی کی دوپہروں میں کوڑوں کی طرح برساتا ہے اور کہاں یہ لطافت بھری دھوپ جو ماتھوں کو چومتی اور سروں پر ہاتھ رکھتی ہے! کیا قدرت ہے خدا کی جو سورج کو کبھی سخت اور کبھی نرم کرتی ہے‘ منیر نیازی نے کہا تھا ؎
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
نصف کرۂ زمین پر تپش ہے تو دوسرے نصف پر ٹھنڈک۔ ہم جب لحافوں میں دبکے ہوتے ہیں‘ تو چلی‘ برازیل‘ ارجنٹینا‘ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنر چل رہے ہوتے ہیں۔ سمندروں کے ساحل چھلک اٹھتے ہیں۔ خلقت ٹوٹ پڑتی ہے۔ زہرہ وشوں‘ دلبروں‘ سیم تنوں اور گل رخوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ حیرت زدہ شاعر پکار اٹھتا ہے ؎
سنہری ریت ہے ساحل کی یا تختِ رواں ہے
علاقے زلف و لب کے آ رہے ہیں جا رہے ہیں
مگر ایسے ایسے جزیرے بھی یہاں موجود ہیں جنہیں سرما کی آمد کا احساس ہوتا ہے نہ تابستانی کا پتہ چلتا ہے۔ ان جزیروں میں ایک اور ہی دنیا بستی ہے۔ سخت گرمیوں میں یہاں کے مکین کمبل اوڑھ کر سوتے ہیں اور برف باری کے دنوں میں مہین‘ جھلملاتے پیرہن زیب تن کرتے ہیں۔ ایوانِ وزیراعظم اور ایوانِ صدر جزیرے ہی تو ہیں۔ چیف منسٹروں اور گورنروں کے محلاّت پر موسم کہاں اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان جزیروں کے باسی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے گزرتے ہیں‘ نہ ہی گیس کا پریشر کم ہوتا ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ سردیوں میں پہنا جانے والا شلوار قمیض کا جوڑا کتنے میں ملتا ہے اور پنکھے اور اے سی کے بغیر جون کی رات کیسے کاٹی جاتی ہے۔ مچھر اور کھٹمل ان قصر ہائے اقتدار میں پائے ہی نہیں جاتے۔ سردیوں میں خشک میووں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ کرۂ ارض کے دورافتادہ گوشوں میں پیدا ہونے والے پھل یہاں بہتات سے پائے جاتے ہیں‘ کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا کہ اِن محلات کے باورچی خانوں میں کچھ نہ کچھ پک نہ رہا ہو۔ سمندری خوراک سے لے کر پہاڑوں میں پائے جانے والے طیور کے گوشت تک‘ سب کچھ ہر وقت میسر ہے۔ یہاں یو پی ایس کا غم ہے نہ بل کا خطرہ! ہیٹر کی جالی میلی ہوتی ہے نہ ٹیوب لائٹ کا سٹارٹر خراب ہوتا ہے۔ یہاں رہنے والوں کو چوری کا کھٹکا بھی نہیں ہوتا‘ یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پورچ میں کھڑی گاڑی کو چیک کرتے ہیں نہ لگے ہوئے تالوں کو کھینچ کھینچ کر تسلی کرتے ہیں‘ مرمت ایسا لفظ ہے جو ان ایوانوں میں مکمل اجنبی ہے۔ اس لیے کہ آلات کے خراب ہونے کی نوبت آئے تو تب مرمت کا مرحلہ پیش آتا ہے۔ یہاں تو چیز ابھی تقریباً نئی ہوتی ہے کہ اُسے ہٹا کر اس کی جگہ نیا سامان رکھ دیا جاتا ہے۔ کبھی کوئی پوچھے کہ ان ایوانوں میں کتنے نئے لحاف‘ نئے پلنگ پوش‘ نئی کراکری‘ نئی کٹلری‘ نئے ایئرکنڈیشنر اور نیا فرنیچر ہر مالی سال میں خریدا جاتا ہے کبھی کوئی سوال کرے کہ ''پرانا‘‘ کہاں جاتا ہے؟ لکھنؤ کے بانکے نواب اور کمخواب میں لپٹے مغل شہزادے‘ ہمارے اِن ایوانوں میں رہنے والوں کے سامنے فقیر لگیں گے!
مگر ایوانوں میں بھی دن گزر کر رات بن رہا ہے اور جھونپڑیوں میں بھی۔ قلوپطرہ بچی نہ روس کی مردم خور ملکہ! وہ نازک طبع بادشاہ بھی قبرستانوں میں جا پہنچے جن کے ریشمی گدے کے نیچے کاغذ رکھ جاتا تو صبح تک بے چینی رہتی اور ''ناہموار‘‘ گدا سونے نہ دیتا! شاہ جہان شکار کے لیے نکلتا تو ایک لاکھ افراد ہمراہ ہوتے۔ نہ جانے اس کا مقبرہ کس شہر میں ہے؟ کشمیر جاتے ہوئے بھمبر کے پاس ہاتھی روک لیے جاتے۔ اس کے بعد سامان قُلی اٹھاتے۔ مغل بادشاہ کا سامان اٹھانے کے لیے پانچ ہزار قُلی مامور ہوتے مگر آج وہ سب کہاں ہیں؟ قطب الدین ایبک انارکلی کی ایک گمنام گلی میں محوِ خواب ہے۔ اورنگزیب عالم گیر گولکنڈہ میں زیرِخاک ہے۔ شیرشاہ سہسرام میں اور ہمایوں دلی میں سو رہا ہے۔ دربار بچے نہ خرگاہیں! اسپ تازی نہ کجاووں لدے اونٹ! کوئی ان ایوانوں کے بے نیاز مکینوں کو بتائے کہ بہت جلد وہ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو کے بیڑوں سے محروم کر دیئے جائیں گے۔ چار کہار ہوں گے اور ڈولی سیدھی قبرستان جا رہی ہو گی!
محل کے سامنے تندور تھا۔ فقیر نے پھٹی ہوئی چادر لپیٹ کر رات تندور کی ہر لحظہ کم ہوتی تپش میں گزاری۔ وہی رات‘ سامنے محل میں‘ بادشاہ اور اس کے اہلِ خانہ نے انگیٹھیوں کے درمیان زرلفت کے کمبلوں میں بسر کی۔ صبح کو فقیر‘ چادر جھاڑتا ہوا اٹھا اور نعرہ لگایا۔ شبِ تنور گزشت و شبِ سمور گزشت!
تنور والی رات بھی کٹ گئی اور محل کی رات بھی ختم ہو گئی!
ہے کوئی عبرت پکڑنے والا؟